....., in March 1978, #Bhutto was sentenced to death. #Mustafa intensified his political efforts, joining forces with two of the former Prime Minister's sons, Mir #Murtaza Bhutto and Shah #Nawaz Bhutto. Mir had been studying at Oxford, but Mustafa convinced him to (1/15)
scrap his education in order to campaign for his father's release. We moved from Jam Sadiq's house to a shabby, claustrophobic flat in Hampstead, and Mustafa crowded it by inviting the Bhutto boys to live with us. Conditions were so cramped that I left Naseeba and Dai (2/15)
Ayesha with my family.
At times I was even thankful that Tanya was not with me.
Immediately Mustafa began to educate the young men in the art of politics and sought to raise them as symbols of resistance to the junta. Mir was a novice, but he learned fast. Younger (3/15)
brother Shah Nawaz exhibited the idealistic, faraway gaze of the revolutionary. They established a sort of headquarters of disgruntled Pakistanis in our flat, and plotted Zia's overthrow. The flat was always full of their friends, who kept odd hours and sprawled out (4/15)
wherever they could find room.
The two young men related to my background and sensed my predicament. I grew fond of them. Shah Nawaz made a point of chatting to me as I moved from room to room, picking up cups and MY #FEUDAL Lord plates, emptying ashtrays and (5/15)
gathering the laundry to send off to my mother's house. I wondered how they viewed me; I was not a part of their intense debates about the future of our country, or of their fanciful schemes to bring about change.
Mustafa introduced Mir to the exiled #Husna Sheikh, the (6/15)
woman Bhutto loved.
This was somewhat embarrassing for the boy, but he pushed aside his personal considerations because Husna had valuable contacts who might save Bhutto's life.
I desperately needed to talk to another woman, to gain reassurance that I was not going (7/15)
mad. I found Husna to be the first person in whom I could confide. 'Just leave,' she advised me, when I told her about Mustafa's constant beatings. 'There's no reason why you should take this.' Husna planted the seed, but it lay dormant.
Mustafa and Mir set off on a (8/15)
mission to persuade various world leaders to pressure the generals to spare Bhutto's life. Mustafa was also certain that these powerful friends would extend financial support to the exile movement. They received campaign funds from Libya's Colonel #Gaddafi and from (9/15)
Shaikh Zayed bin Sultan Al #Nahyan, Sultan of Abu Dhabi. Asad of Syria promised to keep pressure on the Zia regime.
Our drawing-room was converted into a firing range. Mir set up a target at one end of the room and practised his marksmanship with an air gun. I was not (10/15)
terribly impressed; he seemed to be just a spirited youngster playing at terror. My concern was for the slugs that peppered the carpet. For his part, Shah Nawaz looked more like a suave terrorist, but his soft eyes gave him away. He did not seem to be able to force a (11/15)
steely-cold look into them.
One day Mustafa informed us, in a conspiratorial tone, that #Yasser Arafat, the leader of the Palestine Liberation Organization, had a plan to liberate Bhutto: Palestinian commandos would attack the #Rawalpindi gaol, create a diversion and (12/15)
snatch Bhutto from his cell. An aircraft from a friendly country would be waiting at the airport to whisk Bhutto to safety. Mustafa told Mir and Shah Nawaz that their father would soon be with us to carry on the fight in exile.
Mustafa was livid when he cam into our (13/15)
room. Apparently, a call disclosing details of the plan had been put through to Benazir - even LAW OF THE Jungle though it was known that the telephones were being bugged by various intelligence agencies. Suddenly the Rawalpindi gaol became a fortress, guarded by (14/15)
militant right-wing troops.
In the privacy of our bedroom Mustafa snapped, 'How could anybody do such a dumb thing? They have ruined everything by their childishness.'
بچوں کو امتحان میں گبر سنگھ کے کردار کے بارے میں لکھنے کو کہا گیا تو ایک لڑکے نے لکھا کہ۔۔۔۔
سادہ زندگی تھی انکی, بھیڑ بھاڑ سے دور جنگل میں رہتے تھے
ایک ہی کپڑوں میں کئی کئی دن گزار دیتے تھے
پانی کی بچت کے لیے کبھی کبھار ہی نہاتے تھے
قاعدہ و اصول کے پابند ایسے تھے کہ (1/5)
کالیا اور اس کے ساتھیوں کو پراجیکٹ ٹھیک سے نہ کرنے پر براہ راست گولی مار دی تھی
رحم دلی کا تو پوچھیں مت، ٹھاکر کو قبضے میں لینے کے بعد صرف اس کا ہاتھ کاٹ کر چھوڑ دیا تھا، اگر وہ چاہتے تو اس کا گلا بھی کاٹ سکتے تھے
فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے، ان کے ہیڈ کوارٹر میں ڈانس (2/5)
میوزک کے پروگرام چلتے تھے اور سب خوشی سے جھوم جھوم جاتے
بسنتی کو دیکھتے ہی پرکھ لیا تھا کہ وہ ایک ماہر رقاصہ ہے.
مزاحیہ کو سمھجنے والے تھے، کالیا اور اس کے ساتھیوں کو ہنسا ہنسا کے مارا تھا، خود بھی ٹھٹھے مار مار کے ہنستے تھے، وہ اس دور کے لافنگ بدھا تھے
عورت کی عزت (3/5)
IN MAY 1950, PAKISTAN’S law minister, Jogendar Nath #Mandal, confidentially told an Indian reporter that most Hindus in the new country’s eastern wing felt they had no place in #Pakistan and were determined to leave. “I have asked them to wait for a few weeks more and (1/16)
that I too am prepared to accompany them to India,” he said, the only #Hindu member of Pakistan’s federal cabinet. “It is only a matter of time before the last Hindu reaches #India from East Bengal.” He lamented that “every #Muslim feels that there should be no Hindus (2/16)
left inside Pakistan,” and pointed out that after driving out the Hindus, Pakistan will not be able to live in peace with India. #Mandal had been appointed to Pakistan’s first cabinet in 1947 by the country’s founder, Muhammad Ali #Jinnah, who, through the appointment, (3/16)
آپ کسی پوسٹ میں اپنی بیوی یا بیٹی یا کسی دوست کو بھی ٹیگ کر دیں تو صبح تک اُسے پیار بھرے دعووں کے کئی پیغامات اور متعدد فرینڈ ریکوئیسٹس مل چکی ہوتی ہیں۔ ٹیگ کرنے کی وجہ سے فیس بک استعمال کرنے والوں کوتسلی ہو جاتی ہے کہ یہ مصدقہ طور پر فی میل (1/7)
ہی ہے۔ ساتھ ہی اُن کا جذبۂ دوستی اور نیٹ ورکنگ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔
چنانچہ میں تو کبھی کسی فی میل کو ٹیگ یا حتیٰ کہ مینشن بھی نہیں کرتا۔ ایسے ہی دھاوا بولنے والے رویے کے نتیجے میں بہت سی فی میلز ہاتھوں پیروں اور سر کے پیچھے سے لی ہوئی تصاویر بطور ٹیزر پوسٹ کرنے پر (2/7)
مجبور ہیں۔ یا پھر وہ کسی گڑیا اور پھول وغیرہ کی تصویر کی لگاتی اور حتیٰ کہ فرضی نام بھی استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ اُنھیں اپنے کزنز اور رشتے داروں کی جانب سے بھی stalking کا ڈر ہوتا ہے۔
ٹھیک ہے، فیس بک نیٹ ورکنگ کرنے اور لوگوں کے ساتھ رابطے بنانے کے لیے ہی ہے، مگر یار (3/7)
اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پاکستان یا پنجاب کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے، اور اردو میں کوئی طبع کتاب تجویز کریں تو آپ کے ذہن میں شاید ہی کوئی کتاب آئے۔ حتیٰ کہ قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور دیگر رحمۃ اللہوں کے بارے میں کوئی کتاب مشکل سے ملے گی۔ (1/8)
مشاہیر پاکستان، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ کی تو بات ہی الگ ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تاریخ کے اتنے پی ایچ ڈیز کیا صرف گھاس کاٹ رہے ہیں؟ تاریخ کا مضمون یونیورسٹیوں میں کس لیے پڑھایا جاتا ہے؟
انگریزوں نے انتظامی مقاصد کے تحت جو ضلع وار گزیٹیئر مرتب کیے تھے اُن میں مالیات، (2/8)
تاریخ، ذرائع پیداوار، ثقافت، اہم مقامات وغیرہ کے متعلق معلومات درج تھیں۔ حتیٰ کہ پیمانے، اوزان، زیور، محاورے وغیرہ بھی دیے گئے تھے۔ یہ گزیٹیئرز ایک سو سال سے زائد عرصے تک اردو میں دستیاب نہ ہو سکے، اور میں نے 2011ء کے بعد اِنھیں پہلی بار ترجمہ کیا۔
ذاتیں، قبیلے وغیرہ (3/8)
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں نیا نیا بینکر بنا تھا۔ نوجوان تھا، خون گرم تھا اور اکھڑ پن اس وقت بھی تھا۔ ہمارا بیچ نوجوان ایم بی ایز کا تھا جن کے خلاف رینکرز میں کافی غصہ تھا کہ ہمیں سیدھا ہی اس سکیل میں ہائر کیا گیا تھا جو انہیں برسوں بعد نصیب ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ (1/12)
کچھ ماہ بعد ہی برانچز میں پرانے اور نئے بینکرز کے مسائل گمبھیر ہو گئے۔ ہم لاہور میں تھے، کراچی سے اعلی مینجمنٹ کا ایک وفد کراچی کے بعد ان مسائل کے حل کے لیے لاہور وارد ہوا ۔ سارے لاہور سے ہمارے بیچ میٹس کو علامہ اقبال ٹاؤن مون مارکیٹ کے عقب میں واقع ٹریننگ اکیڈمی بلایا (2/12)
گیا اور ایک لمبا چوڑا سیشن ہوا کہ مسائل سنے جا سکیں ، ان کا حل نکالا جا سکے۔ سیشن کے اختتام سے پہلے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے کچھ دوستوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی جو اعلی عہدیداروں کو کوئی خاص پسند نہ آئی۔ جب بات اس طرف مڑی جہاں برانچ مینیجرز کی (3/12)
قیدی عطیہ بن عوف نے اقرار میں سر ہلادیا۔ملزم کی گردن کو اثبات میں ہلتے دیکھ کر بن قاسم نے کہا:
“ اشاروں کنایوں کی زبان میں ابہام ہوتا ہے۔واضح طور پر کہو کہ تم خلیفہتہ المسلمین ، ولید بن مروان کو اللہ کی جانب سے مسلمانوں کا خلیفہ تسلیم کرتے ہو اور تمام زندگی ان کی اطاعت (1/8)
کروگے اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت جانو گے۔”
عطیہ بن عوف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
“ میں عطیہ بن عوف ، ولید بن مروان کو خلیفتہ المسلمین تسلیم کرتا ہوں اور ان کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھوں گا۔”
عطیہ بن عوف کے کلمات سنُ کر میدان میں جمع سپاہیوں نے داد و تحسین کے نعرے (2/8)
بلند کئے-سپاہیوں کو نعرے لگاتے دیکھ کر عمائدین شہر بھی ان نعروں کے آہنگ میں شامل ہوگئے۔بن قاسم نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو سپاہیوں نے نعرے لگانا بند کردئے۔جب فضا میں سکوت طاری ہوگیا تو بن قاسم نے قیدی عطیہ بن عوف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
“ خلیفتہ المسلمین کی اطاعت کا زبانی (3/8)