#Architecture #Bahawalpur #Punjab
قلعہ پھولڑہ_____تاریخ سے چند اوراق
کب اور کس نے تعمیر کیا؟
اس بارے میں کچھ علم نہیں لیکن روایات ان گنت ہیں۔
قلعہ پھولڑہ__ جس کا موجودہ نام قلعہ فورٹ عباس ھے ھندوستانی قلعوں کی تاریخ کا ایک اور بےمثال باب ھے۔
قلعہ پھولڑہ__کےبارے میں کہا جاتا ھے کہ
اسے بیکانیر ریاست (Bikaner State) کے بانی بیکانیر سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔
قلعہ پھولڑہ__کا نام ایسے مشہور ھوا کہ مہاراجہ بیکانیر کی اولاد میں دو بیٹے تھے: پھول را اور ولارا۔ اور یہی دونوں بگڑ رہی پھولڑہ اور ولہر بن گئے۔
قلعہ پھولڑہ__کےبارے میں یہ بھی کہاجاتا کہ اسے پھول سنگھ نے
تعمیر کروایا تھا کیونکہ قلعے کے کھنڈرات سے ملنے والے سکوں پر ہندی میں پھول سنگھ کی تحریر ملی ھے۔
قلعہ پھولڑہ__ کا موجودہ نام، نواب آف بہاولپور اکبر خان ربانی نے 1767 میں جب اس قلعے کو ازسر نو تعمیرکیا تو اپنے بیٹے عباس کے نام پر "فورٹ عباس" رکھ دیاتھا۔
قلعہ فورٹ عباس__کی عمارت کی
فصیل پختہ ٹائلوں اوراینٹوں سےاور جنگلی کریرکی لکڑی سےتعمیرکی گئی جبکہ قلعہ کی تعمیرمیں چھوٹی اینٹیں قریب بستی میں بھٹیوں میں پکائی گئیں۔
قلعہ فورٹ عباس__کےاندر 118 فٹ گہرا اور 4فٹ چوڑا ایک کنواں تعمیرکیاگیا مگر1827میں ایک سیاح لکھتاھے کہ قلعےمیں تین کنوئیں تھے۔
قلعہ فورٹ عباس__کے
گردونواح (Outskirts) میں مہر برادری کے گھر بکثرت پائے جاتے تھے۔
قلعہ فورٹ عباس__کے محفوظ خانوں سے سکے، بندوق، توپ کے گولے، سونے چاندی برتن برآمد ھوئے ہیں جن سے ظاہر ھوتا ھے کہ قلعہ ایک زمانے میں جنگی تحفظ کیلئے استعمال ھوتا تھا۔
قلعہ فورٹ عباس__اپنے وقت کا شاہکار آج انتہائی
تاریخی اور خوبصورت ھونے کے باوجود انہدام کا شکار ھے جس کیوجہ اردگرد کے لوگ، ڈیزرٹ رینجرز اور حکومتی سرپرستی کا نہ ھونا ھے۔
#Indology
#HistoryMatters
جسونت تھڈا (جودھ پور، راجھستان بھارت)
Jaswant Thada (Jodhpur, #India)
ء1899
ھندوستان میں جابجا بکھرے "تاج محل" کے نقش
جسونت تھڈا جسےجودھ پور کا تاج محل بھی کہاجاتا ھے اپنے ملکوتی اور سنگ مرمری حسن کے باعث ضرور زیرقلم آتا ھے۔
سفید سنگ مرمر سے بنی ایک خالص
راجھستانی اور راجپوت یادگار جسے جودھ پور کےمہاراجہ جسونت سنگھ جل (1873-1895) کی یاد میں ان کے بیٹےمہاراجہ سردار سنگھ جی (1895-1911) نے 1899 میں تعمیر کیا تھا۔
اس کی تعمیر پیچیدہ سنگ مرمر اور باریک ریت کےپتھر کے نقش ونگار سے بنی ھے۔
یہ آگرہ کے تاج محل سےحیرت انگیز مشابہت رکھتا ھے۔
مرکزی ہال کو ایک مندر کی طرح بنایا گیا تھا جسے 12 ستونوں سے سہارا دیا گیا تھا جہاں پوجا (رسم)کی جاتی تھی۔
تھڈا کی دیواریں پیچیدہ ڈیزائنوں اور مجسموں سےمزین ہیں۔ اس میں ایک سینوٹاف (Cenotoph, empty tomb) بھی ھےجس میں مہاراجہ جسونت سنگھ II اور ان کے آباؤ اجدادکی تصویریں ہیں۔ راجپوت
#ancient
#HistoryBuff
#Archaeology
سوسا (#ایران)
Susa (#IRAN)
4500سالہ قدیم سوسا بائبل کابیان کردہ شہر"شوشان" (Shushan)
سوسامیسوپوٹیمیا(جدید عراق) کےعظیم اور قدیم شہروں میں سےایک ھےاور آج ایران کاحصہ ھے جو تحقیق کیلئےکسی خزانےسےکم نہیں۔
زگروس پہاڑوں پردریائےدجلہ سےتقریباً250
کلومیٹر مشرق میں دریائےخرکے اور ڈیز کے درمیان واقع شہرسوسا کا تعلق پہلے ایلامائٹ اور پارتھیئن سلطنتوں سے تھا۔
پھر سوسا شہر سائرس عظیم کے قبضے میں آنے کےبعد فارسی بادشاہوں کی رہائش گاہ رہا۔
ایران اور عراق قدیم انسانی تہذیبوں، مذاہب، اور رواجوں کے گڑھ مانے جاتے ہیں۔
سوسا اپنی تاریخ
کےکئی ہزار سال کے دوران زبردست سیاسی اتار چڑھاؤ سے گزرا۔
جب فرانسیسی ماہرین آثارقدیمہ نے انیسویں صدی میں اس جگہ کی کھدائی شروع کی تودریافتوں اور نوادرات کی حیرت انگیز کثرت نے دنیا کو دنگ کر دیا۔ نوادرات کو سفارتی معاہدے کےذریعے پیرس لے جایا گیا اورتحقیق کےبعد اسےدنیا پر کھولاگیا۔
#HistoryMatters
#HistoryBuff
کالکیٹہ (اٹلی)
Calcata (#Italy)
قرون وسطٰی کاتقریبا 1000 نفوس پرمشتمل ایک شہرجو روم کے سبزے سے گھرے شمالی پہاڑوں پرمصنوعی رکھا ھوا محسوس ھوتا ھے۔
تاریخی طور پر کالکیٹہ کی تاریخ تقریباً 3000 سال پر محیط ھے۔
اس علاقے میں انسانی رہائش کے شواہد پراگیتہاسک
دور(Pre-historic Period) سے ہیں۔
کالکیٹہ کو مکمل سمجھنے کیلئے ہمیں 1930 کی دہائی میں مسولینی کے اٹلی میں واپس جانا ھو گا۔
اس وقت جب حکومت نے کالکیٹہ کی مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ وہ 450فٹ /137 میٹر کی چٹانیں جن پر یہ موجود ھےوہ گرنے کے خطرے میں ہیں۔
تب ہی کچھ دلچسپ یہ ھواکہ فنکاروں
اورزمین سےمحبت کرنے والے ایک گروہ (Hippies) نے اس طرف بڑھناشروع کیااور اس جگہ کوٹھیک کرناشروع کیا۔
اس گاؤں کوجادو ٹونے سےوابستہ ھونے کی وجہ سے شہرت ملی۔ اٹلی کے لازیو سرسبز پہاڑیوں (Lazio Hills) کےاندر واقع یہ گاؤں ایک صوفیانہ آغوش میں ڈوباھواھے جو قدیم کہانیوں اور رسمی روایات کی
#ancient
#HumanRights
#HistoryMatters
سائرس سلنڈر (Cyrus Cylinder)
6th BC
ایک سلنڈر نما تحریری ڈاکومنٹ
یہ ھے چھٹی صدی قبل مسیح میں تحریر کیا گیا انسانی تاریخ کا وہ اولین "انسانی حقوق کابل" جو "سائرس سلنڈر" کہلاتا ھے۔
جیسےبابلی (قدیم عراق) تہذیب کا بانی حمورابی جس نے دنیا کا اولین
تحریری "آئین" بنایااور اسکا بانی کہلایا ویسے ہی اس بل کا بانی فارسی (موجودہ ایران) بادشاہ سائرس عظیم ھے۔
آج خودکو انسانی حقوق کاعلمبردار کہنےاور انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب کبھی یہ نہیں بتائےگا کہ زمانہ قدیم کافارس پہلے انسانی حقوق کےبل کاموءجد ھے۔
یہ سلنڈرسائرس دی گریٹ کی
طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز ھے جس میں جامدمٹی کے ایک سلنڈر پر اکادین (Akkadian) کیونیفارم رسم الخط (Cunieform Script) میں سطور کی صورت میں لکھاھوا ھے۔ سلنڈر 539قبل مسیح میں سائرس کےحکم پربنایاگیا تھا.
ماہرینِ آثارقدیمہ کےمطابق سلینڈر پر سائرس کےکاموں کوبیان کیاگیا ھے، آخری بابلی
#Magnificent
#architecture
راجکماری رتنوتی گرلز سکول (جیسلمخر، راجھستان
(Rajkumari Ratanvati Girls School (Jaisalmer, #Rajhastan)
جیسلمیر کےریتلے اور تنہاصحرائے تھرمیں فقط سورج کی چھت تلے آرکیٹیکٹ ڈیانا کیلوگ (Diana Kellogg) کا ماسٹر پیس
بیضوی شکل کاڈیزائن کردہ یہ عجوبہ ایک فلاحی
تنظیم CITTA کےزریعے ڈیانا کیلوگ کو کمیشن کیاگیا تھا۔ یہ تنظیم انتہائی دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں، وہ بھی کم مالیت میں، ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتی ھے۔
راجکماری رتنوتی سکول بھی اسی سلسلےکی ایک کڑی ھےجس کا چیلنج ڈیاناکیلوگس کو دیاگیا تھا۔
سکول کانام ہی اس کےمقصد کا عکاس ھے یعنی
راجکماری+رتنوتی کا مطلب ھواشہزادی+ہیرے جواہرات سے بھرا ھوا برتن۔
جماعت اول سےجماعت دہم تک 400 لڑکیوں پرمشتمل یہ سکول جیسلمیرصحرائےتھر میں انتہائی پسماندہ اورغربت کی لکیرسےنیچے لڑکیوں کی تعلیم کیلئےایک ناممکن مشن ممکن بنایاگیاجہاں لڑکیوں کی شرح خواندگی(Literacy Ratio)بمشکل 30% ھے۔
#HistoryMatters
#HistoryBuff
پرانے ناموں سےنئے تک کا سفر____
دنیاکے وہ دس ممالک جو اپنی جغرافیائی تبدیلیوں اور جنگ و جدل کے کٹھن سفر کے بعد اپنا نام تبدیل کرکے اس وقت عالمی منطرنامے پر موجودہیں؛
مشرقی پاکستان (East Pakistan, 1971)
- "بھارتی اٹوٹ انگ" مشرقی پاکستان جس نے پہلے 1947
پھر 1971 میں ایک جنگ کے بعد اپنا نام مشرقی پاکستان سے "بنگلہ دیش" میں تبدیل کیا۔
- سیام (Siam, 1939)
چین اور ھندوستان کے گرد و نواح میں آج تھائی لینڈ کے نام سے جانا جانے والا ملک 1939 سے پہلے سیام (Siam) تھا۔
- زائرے (Zaire, 1997)
بہت کم لوگوں کے ذہن میں یہ ھو گا کہ آج ڈی آر کانگو یعنی ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کا 1997 سے پہلے نام زائرے تھا۔ یہ نام اسے ایک طویل سیاسی انتشار اور جھگڑوں کے بعد سرکاری طور پر دیا گیا تھا۔