#ancient #Archaeology #Palestine
جیریکو (Jericho)
9000سالہ قبل مسیح کی طویل ترین تاریخ
عربی میں اریحا کہلایاجانے والا شہر جیریکو دراصل فلسطینی شہرھے۔
دنیا بھر میں درجنوں ایسے شہر ہیں جن میں انسان ہزاروں سالوں سے آباد ہیں۔ تاہم جب سب سے قدیم مسلسل آبادشہر کی نشاندہی کرنےکی بات
آتی ھے تو اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں ملتا۔
اگر کسی شہر کو گرا دیا جائے، بحال کیا جائے، تھوڑا سا منتقل کیا جائے، اوپر بنایا جائے، دوبارہ گرا دیا جائے، اور دوبارہ تعمیر کیا جائے تو کیا یہ وہی شہرھےیا کوئی نئی ہستی؟
لہذا بہت سی ایسی جگہیں ہیں جوممکنہ طور پر دنیاکےقدیم ترین شہر کاتاج
اپنے سر پر لیے ھوئے ہیں جن میں سے تقریباً سبھی مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں۔
انہی میں سے ایک__جیریکو شہر جو پرانے وقتوں میں ایک بدنام زمانہ جنگ کے لیے جانا جاتا تھا۔ اسے اکثر قدیم ترین شہر ھونے کا سہرا پہنایا جاتا ھے جو اب بھی قائم ھے۔
آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ھے کہ یہ علاقہ
پچھلی صدیوں سے متواتر متعدد بستیوں کا مقام رہا ھے۔ خیال ھے کہ شہر کے کچھ حصے اور اس کی مشہور دیواریں پہلی بار 9,000 قبل مسیح میں تعمیر کی گئی تھیں۔تاہم ان ڈھانچے کو مغربی کنارے میں واقع فلسطینی شہر کو آج کے جیریکو میں ضم نہیں چاہیے۔
جیریکو کا قدیم حصہ دراصل
ٹیل ایس-سلطان (Tell es-Sultan) کے نام سے جاناجاتا ھےجوموجودہ شہر کےمرکز سےتقریباً 2 کلومیٹر (1.2 میل)شمال میں ھے۔جیریکو کو دنیا کا قدیم خطہ ھونے کا اعزاز بھی حاصل ھے۔
ماہرآثار قدیمہ آج بھی یہاں ان گنت تاریخی ثبوت مہیاکرتےہیں۔
یہ سائٹ #یونیسکو عالمی ورثے کاحصہ ھے۔ #UNESCO #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#ancient
#geology
#Iran
زگروس پہاڑ (عراقی کردستان، #ایران)
Zagros Mountains ⛰️(Iraqi Kurdistan)
ایران، تاریخ اور ثقافت سے مالا مال ایک قدیم اور ان "زگروس پہاڑوں" کاملک جہاں 9000 قبل مسیح کی انسانی رہائش اور زراعت کےٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
زگروس پہاڑوں کی تاریخ اتنی سادہ نہیں!
کیونکہ
ان پہاڑوں نےایران میں تہذیبوں کی ترقی میں نہایت اہم کردار اداکیا۔
وہ ایسےکہ پہاڑوں کیطرف سےفراہم کردہ قدرتی رکاوٹوں نےحملوں کیخلاف تحفظ کاکام کیااورمختلف ثقافتوں اوربرادریوں کی نشوونماکوفروغ دیا۔ایلمائٹ(Elamites Empire/3200 BC-539 BC) ایران کی قدیم ترین تہذیبوں میں سےایک زگروس کے
دامن میں ہی پروان چڑھی۔ بعد میں اچمینیڈ سلطنت (Achaemenid Empire/500 BC) جس کا دارالحکومت پرسیپولیس میں تھا، نے دفاع اور وسائل کیلئے زگروس پر انحصار کیا۔
زگروس پہاڑ جنوب مشرقی ایران میں واقع کرسٹل چٹانوں کی ایک پٹی پرمشتمل ھے۔
یہ پہاڑ ترکی سےخلیج عمان تک 1500 کلومیٹر سے زیادہ تک
#ancient
#HistoryBuff
کندوان کے غار نما گھر(کندوان، تبریز)
Kandovan Cave Houses 🏘(Tabriz, #Iran)
کیا کبھی انسان بھی مکھیوں کے چھتوں (Hives) میں رھے ہیں؟
کندوان___ایران کےمنجمد کر دینے والےپہاڑی سلسلےسہند میں واقع شہد کےچھتےکی مانند نوکیلے یعنی عجیب وغریب شکلوں والےگھروں پر مشتمل
ایک پرامن قدرتی گاؤں جو اپنےمنفرد پتھر سے کٹے خصوصا آتش فشانی چٹانوں سے تراشے فن تعمیر کےباعث مشہور ھےجو آج دنیامیں بچ جانےوالے چند دیہاتوں میں سے ایک ھے۔
آتش فشاں جو آج غیر فعال ھے 11 ملین سال سے زیادہ عرصے سےسرگرم تھا۔ کندوان گاؤں کو "Iranian cappadocia" کہاجائےتو بےجانہ ھو گا۔
ماہرین آثار قدیمہ (#Archeologists) کا کہنا ھے کہ لوگ 3000 سال پہلےبھی غاروں میں رہتے تھے۔ تاہم کندوان میں رہنےوالے لوگوں کے مطابق موجودہ گاؤں 800 سال پرانے گاؤں کے پہلے باشندے خوارزم کے پناہ گزین تھے، جو منگول فوج سے بھاگے تھے۔ وہ چھپنےکی غرض سے انہی غاروں میں ٹھہرے کیونکہ غار سے
#Indology
#architecture
سورلا مسجد (گوا، بھارت)
Surla Mosque (Goa, India)
سولہویں صدی میں ھندو-مسلم اتحاد کی واحدنمائندہ مسجد
سرخ مٹی سےبنی دریائےمنڈووی کےآبی پھیلاؤ اور سرسبز وشاداب جنگل کے درمیان واقع مختصر سی "سورلا مسجد" گوا کی قدیم ترین بچ جانےوالی مساجدمیں سے ایک جوعادل شاہ
کے دور کی تعمیر ھے۔
کئی دہائیوں سے اس کا واحد مسلمان نگراں ایک ہی خاندان چلا آ رہا ھے۔ یہ ذمہ داری ان کے خاندان کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ھوتی رہی ھے۔
دریا سےمتصل ایک درگاہ مسجد کےپیچھےبنی ھوئی ھے۔ اس درگاہ پر پڑی باقیات ایک پیر صاحب کی ہیں جو پرتگالی دور سے پہلے کے ھندوؤں
اور مسلمانوں کےدرمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے گوا آئے تھے۔ ان کے نام آج تک معلوم نہیں ہیں.
مقامی لوگوں کے مطابق پرانےزمانے میں مسجد تک جانے والی کوئی سڑک نہیں تھی۔ اس کے احاطے میں صرف کاجو اور آم کا گھنا جنگل تھا۔ آخر کار پہاڑی کے نیچے ایک تاریک سڑک بنائی گئی، جس سے زائرین کیلئے
#Indology
#architecture
فیروز مینار(کانپور، بھارت)
Firoz Minar (West Bangal, Kanpur)__1485ء
ہرھندوستانی کی سماعت سےتلنگنہ(حیدرآباد) کا"چار مینار"،مہرولی(دہلی)کا"قطب مینار" یاشیخوپوری "ہرن مینار" توضرورٹکرایا ھوگامگرحبشی سلطنت(Habshi Dynasty) کےسیکیولر دلیرسلطان سیف الدین فیروزشاہ
کا "فیروز مینار" یقینا ایک اجنبی مینار ھو گا۔
اس مینار کی انفرادیت اس کاحبشی سرپرست فیروز شاہ تھا جو پیدائشی طور پر تو ایتھوپیا کاباشندہ تھا مگرسلطنت میں غلام رہنےکے بعد اقتدار کی بلندی پر پہنچا اور بنگال کےحکمرانوں میں سب سےقابل احترام ٹھہرا۔
شاید 14ویں صدی ہی میناروں کی صدی تھی
جوطاقت اور دولت کا نشان سمجھے جاتے تھے۔
اس تاریخی نشان کو "پیر آشا مینار" یا "چراغ دانی" کے نام سےبھی جانا جاتا ھے۔ مینار سلطان سیف الدین فیروز شاہ نے 4سال کے دوران اپنی باربک شاہ کیخلاف فتح کے نشان کے طور پر تعمیرکروایا تھا۔
قطب مینار سےاپنی حیرت انگیز اپنی سرخ رنگت کیساتھ مشابہ
#Church
#Architecture
بور گند سٹیو چرچ (بورگند، ناروے)
Borgund Stave Church ⛪️ (Borgund, #Norway)___1180 AD
کسی کارٹون یا ڈراؤنے منظر کی مانندسیاہ کیتھولک گرجاگھر
پادری اسٹیو کیلئےبورگند کے چھوٹے سےگاؤں میں کنگز روڈ کیساتھ بنایا گیا "اسٹیو چرچ" ناروے کے بہترین اور اب تک غیرمعمولی
طور پر محفوظ گرجا گھروں میں سے ایک ھے۔
اس ناقابل یقین اور شاہکار چرچ کی نمایاں خصوصیت اس کا ماحول اور تکونی چھتیں (Vertical Staves/Ceilings) ہیں۔
چرچ مکمل لکڑی اور نہایت مختصر مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اسکے دلکش بیرونی حصے میں عام ڈریگن کے سروں اور گیلریوں کے ساتھ ساتھ ٹائر والی
چھت کےساتھ ساتھ پیچیدہ نقش ونگار والے پورٹلز ہیں۔ سجاوٹ اندر سے بھی اتنی ہی تفصیلی اور دلکش ھےجتنی کہ باہر سے۔
14ستونوں پر بنایاگیا چرچ کا آغاز میں تعمیری رقبہ نہایت چھوٹا تھا جسے 1800کی دہائی میں ناروے قوانین کیمطابق "Society for the Preservation of Ancient Norwegian Monuments"
#ancient
#Palestine
#Israel
جھیل طبریہ (اسرائیل)
Tiberian Lake (#Israel)
تنازعات اور مذہب کی تاریخ سمیٹے #اسرائیل کی سب سےبڑی میٹھےپانی کی جھیل 'طبریہ" جسکو "بحیرہ تبریاس" یا "بحیرہ گیلیلی" (Sea of Galilee) کےنام سے بھی جاناجاتا ھے۔ اسے اسرائیل کی کہنا تو غلط ھو گا کیونکہ اسرائیل
تو باقائدہ کوئی ریاست نہیں ھے۔ اصل سرزمین قدیم #فلسطین ھےمگر مغرب کی مکاری نے ایک خطہ جبرا یہودیوں کےنام کیاجس میں یہ جھیل بھی شامل تھی۔
بحیرہ مردار (Dead Sea) اور نمکین جھیل (Salt Lake) کےبعد یہ دنیا کی دوسری چھوٹی ھے جس کی لمبائی صرف 21کلومیٹر (13 میل) ھے، کل رقبہ 33 میل اور یہ
صرف 43 میٹر (141 فٹ)گہری ھے۔
جھیل کےپانی کامکمل سورس گریٹ رفٹ ویلی کےدریائےاردن کےزیر زمین چشمےہیں اوردریائے اردن میں پانی دریائےیرموک سے آتا ھے۔
ہ وہ جھیل ھے جس کے خشک ھونے کا دجال انتظار کر رہا ھے۔ دجال وہ فتنہ عظیم ھےجس نے قیامت (Day of Judgement) سےپہلے زمین پر نمودار ھوناھے۔