گزشتہ تھریڈ میں ہم نے صلیبی جنگوں کے اسباب جانے، اور اب ہم جنگوں کا احوال اور اسکے نتائج جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
صلیبی جنگوں کے شروع ہونے کی فوری وجہ پوپ اربن دوم کا فتوی جہاد تھا۔ فرانسیسی پیٹر جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر
پیٹر کے اس دورہ نے لوگوں کے اندر مذہبی دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی، لیکن بدقسمتی سے اس راہب نے زائرین کی سیاہ کاریوں کے بارے
پوپ چونکہ مغربی کلیسا کا روحانی پیشوا تھا، اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا، اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور
پہلی صلیبی جنگ
1097ء تا 1145ء
پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔ راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ عیسائیوں کا
صلیبیوں کا دوسرا بڑا گروہ ایک جرمن راہب گاؤس فل کی قیادت میں روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے اہل
صلیبیوں کا تیسرا گروہ جس میں انگلستان ، فرانس اور فلانڈرز کے رضاکار شامل تھے اس مقدس جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان رضاکاروں کے ہاتھوں دریائے رائن اور موزیل کے کئی ایک شہر کے یہودی نشانہ ستم
سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا، 1097ء میں روانہ ہوا اس میں انگلستان ، فرانس، جرمنی ، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی
ٹڈی دل کا یہ لشکر ایشائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اور مشہور شہر قونیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلج ارسلان نے شکست کھائی۔
فتح مند عیسائی پیش قدمی کرتے ہوئے انطاکیہ پہنچ گئے، نو ماہ کے بعد انطاکیہ پر بھی قبضہ ہوگیا۔ وہاں کے تمام مسلمان آبادی کو
حمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر
عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس رویہ سے بالکل الٹ تھا جو حضرت عمر رض نے چند صدیاں پیشتر بیت المقدس کی فتح کے وقت عیسائیوں سے اختیار کیاتھا۔
بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرے کو بیت المقدس کا
سلجوقیوں کے انتشار کے دوران عماد الدین زنگی کی زبردست شخصیت
عماد الدین نے جس جرات اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زبردست شکستیں دیں وہ تاریخ اسلام
دوسری صلیبی جنگ
1144ء تا 1187ء تک
عماد الدین کی وفات کے بعد 1144ء میں اس کا لائق بیٹا نور الدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔ صلیبیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے باپ سے کم مستعد نہ تھا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے مسلمانوں میں جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی اور عیسائیوں سے
عیسائیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھر پوپ یوجین سوم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔
1148ء میں جرمنی کے
لوئی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ
اس دوران حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی، جو نور الدین زنگی کی فوج کے
مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ عیسائیوں کے طوفان کو روک سکتا، اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئے نورالدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نورالدین نے اپنے بھائی اسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ
1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور سکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام
خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔
مصر کے علاوہ صلاح الدین نے 1182ء تک شام ، موصل ، حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا
1186ء میں عیسائیوںکے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر
چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے اکیانوے سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی
صلیبیوں کے برعکس سلطان نے عیسائیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انہیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے، انہیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی
بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے
تیسری صلیبی جنگ
1192ء تا 1189ء
بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا ۔ اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں پھر تہلکہ مچ گیا۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ
عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی
ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری
تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ یا بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ
اس دوران
رچرڈ، شیر دل سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا۔ جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی
معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
1۔ بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
2۔ ارسوف۔ حیفا۔ یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
3۔ عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
4۔ زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
5۔ صلیب اعظم بدستور مسلمانوں
چوتھی صلیبی جنگ
1195ء
ملک العادل کے ہاتھوں عیسائیوں نے عبرتناک شکستیں کھائیں اور جافہ کا شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
پانچویں صلیبی جنگ
1203ء
اس جنگ کے دوران قسطنطنیہ کا شہر تباہ ہوا۔
چھٹی صلیبی جنگ
1227ء
پوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی
ساتویں صلیبی جنگ
1227ء
ملک کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے
آٹھویں صلیبی جنگ
1248ء
فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا مگر صالح ایوبی کے ہاتھوں شکست کھائی اور فرار کی راہ اختیار کی۔
نویں صلیبی جنگ
1268ء
ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس
ان کے علاوہ 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی گئی جسے "بچوں کی صلیبی جنگ" کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل
30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ ان
دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں
یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔
عیسائیوں اور
یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر روسوخ
جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا
یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔ اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیاگیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی
یوں یورپ تو اسلامی اقدار اپنا کر ترقی کرگیا البتہ ہم مسلمان انہیں اقدار کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوگئے😒
#پیرکامل
#تعمیرکردار
#قلمکار