ان چوہوں کو حضرت شاہ دولہ دریائی کے مزار سے منسوب کیا جاتا ہے. یہ دربار لاہور سے تقریباً 100کلومیٹر کے فاصلے
گجرات شہر کے ایک طرف دریائے چناب اور دوسری طرف دریائے جہلم ہے۔ اس شہر کی تاریخ بہت قدیم ہے. اس خطے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اولین انسان یہاں پر آباد تھے۔ گجرات کے شمال مشرق میں واقع علاقہ موضع بھڑیلہ شریف میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کی قبر
موضع موٹا، موضع چھمب، موضع وٹالہ، موضع شیخ چوکانی، موضع پڈا اور اعوان شریف کے علاقے میں قدیم زمانے کے پیغمبروں اور بنی اسرائیل کے کئی بزرگوں کی قبور موجود ہے۔ پبی کی پہاڑیوں سے
گجرات کے قدیم شہر کے مشرقی دروازے کی طرف حضرت شاہ دولہ دریائی کا مزار ہے۔ دریائی انہیں دریاکے کنارے رہنے کی مناسبت سے کہتے تھے۔ شاہ دولہ، مغل بادشاہ شاہ جہاں کے زمانہ میں گجرات آئے۔ اس وقت گجرات کی آبادی صرف چند محلوں
حضرت شاہ دولہ دریائی نہ صرف روحانی پیشوا تھے بلکہ وہ رفاہ عامہ کے بھی بڑے دلدارتھے۔ اگر انھیں اپنے زمانے کا ایک معروف سماجی کارکن کہا جائے تو بے جا نہ
مغل بادشاہ اور گجرات میں ان کے نمائندے ان سے برا قلبی لگاﺅ رکھتے تھے اور ان کے کئی طرح کے وطائف مقرر کیے ہوئے تھے. یہ وظائف شاہ دولہ رفاع عام کے کاموں پر خرچ کر دیتے تھے . انہوں نے شہر میں اہم گزر گاہوں میں آنے والے نالوں پر پل بھی تعمیر کروائے۔ جگہ جگہ مسجدیں اور
یہ مزار اندر گلی میں ہے. لیکن کسی دور میں یہ بڑی سڑک ہوا کرتا تھا جو یہاں سے کشمیر تک جاتی تھی۔ مغل بادشاہ بھی اسی راستے سے کشمیر جایا کرتے تھے۔ دربار باہر گلی کے دونوں جانب پھول، چادریں اور دیگیں فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں۔ ان دکانوں پر سونے چاندی
جب دربار میں کوئی دوسرے شہر سے جاتا ہے تو اسے یہ خیال آتا ہے کہ یہاں پر دولے شاہ کے بہت چوہے ہونگے یا یہاں کوئی ایسی پرورش گاہ ہوگی کہ جہاں ایسے
حضرت شاہ دولہ کے مزار پر جہاں دور دراز سے معتقدین اپنی
مزار سے
گجرات اور آس پاس کے لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شاہ دولہ کے چوہے اللہ کے بہت نزدیک ہوتے ہیں اور ان کی دعا ہرحال میں قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شاہ دولہ کا چوہا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا
کچھ لوگ اگرچہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بچے مزار پر دیے جاتے ہیں انہیں کمسنی میں ہی آہنی ٹوپیاں پہنا دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں، جو بالکل غلط بات ہے اور اس میں کوئی سچائی
مزار کے جانشین اور دیگر معتقدین ان تمام روایات کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی حقیقت نہیں کہ منت کے نتیجے میں پہلا پیدا ہونے والا بچہ چوہا پیدا ہوتا ہے یا ایب نارمل یا کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پہلا بچہ اگر مزار پر نہ چھوڑا جائے تو باقی کی
انھوں نے ان روایات کو غلط بیان کیا اور کہا کہ اصل حقیقت تویہ ہے کہ شاہ دولہ تو
ان تمام پہلوئوں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ انڈین اور پاکستانی دانشور اس جانب
کرنل کلاڈ مارٹن(Col Clade Marten) 1839ء میں اس دربار پر پہنچا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اُس کے مطابق یہ رسم بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔
1866ء میں ڈاکٹر جانسٹن دولے شاہ کے دربار پر آیا۔ اُس کو وہاں نو بچے ملے۔ ان بچوں کی عمریں دس اور انیس برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھے۔ اور وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا
1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے
فلورا اینی اسٹیل (Flora Annie Steel) نے 1886ء میں
کیپٹن ایونز نے 1902ء میں اس دربار پر بھر پور تحقیق کی۔ اس وقت تک یہ بچے 600 سو کے قریب ہو چکے تھے۔ اس نے بچوں کے سروں کو زبردستی چھوٹا کرنے کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ اُس کے بقول
طبی ماہرین کا کہنا کہ ایک جنیاتی نقص 'Microcephal' کی وجہ سے ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں اور یہ نقائص صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاءکے دیگر علاقوں، مشرق وسطیٰ اور جنوبی افریقہ کے کچھ قبائل میں بھی ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر قدامت پرست یہویوں
طبی ماہرین نے اس کی جو وجوہات
طبی ماہرین کے مطابق صرف مرد یا عورت کسی ایک میں
اگرچہ ایسے بچوں کی درست تعداد کے اعداد وشمار تو ملک کے کسی ادارے کے پاس نہیں تاہم ایسے بچوں کی تعداد 10ہزار سے زائد ہوگی۔ عام طور پر ایسے بچے بس کے اڈوں، ریلوے سٹیشن، شہروں کی آبادیوں اور اب بڑی سڑکوں پر بھی
ان چھوٹے سر والے بچوں کے تعاقب میں بھکاری مافیا لگا رہتا ہے۔ اس کے کارندے نشاندہی ہونے پر یا تو اغوا کر لیتے
یہ بچے بھکاری مافیا کے لیے سونے کے چڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ عام لوگ ان چوہوں کی ناراضگی مول نہیں لیتے اور
ان کے علاوہ اس مافیا کی چالاک کارندوں کی باتوں میں آ کر بعض ناسمجھ اور انتہائی غریب والدین جن سے ویسےہی عام اور تندرست بچوں کی پرورش
ان بچوں کو یہ مافیا کرایہ پر بھی دیتا ہے۔ جو عموماً 30ہزار سے50ہزار روپے ماہانہ ہوتا ہے، جبکہ مختلف تہواروں کے موقع پر ان کا کرایہ بھی زیادہ لگایا جاتا ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی
1965ءسے قبل جب یہ دربار محکمہ اوقاف کی تحویل میں نہیں تھا، یہاں پر حضرت دولے شاہ
میں ان بچوں کو چوہا نہیں لکھ سکتا کیونکہ یہ معذور فرشتے ہیں۔ ہمیں ان کو بحیثیت انسان قبول کرنا چاہیے۔ لیکن شائد ہم اتنا بڑا کام نہیں کر سکتے۔ ہم انکو چند
#پیرکامل
#تعمیرکردار
#قلمکار