صحرا کا شیر؛ عمر مختار

اکتوبر 1911ء میں اٹلی کی رائل میرین نے لیبیا پہ حملہ کرکے تین دن طرابلس اور بن غازی پہ مسلسل بمباری کی اور قبضہ کر لیا. ترکی کی فوجیں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپا ہو گئیں. لیبیا کا اکثریتی اور اہم ترین علاقہ اٹلی کے قبضے میں چلا گیا لیکن جلد
ہی اطالوی فوج کو لیبیا میں شدید گوریلا جنگ کا سامنا کرنا پڑا. لیبیا میں اطالوی فوج کو سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ شدید مزاحمت کا سامنا عمر مختار کے گروہ کی طرف سے کرنا پڑا.

طبروک کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں 1858ء میں
پیدا ہونے والے عمرمختار اپنی اوائل عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے. آپ کی تمام تعلیم علاقائی مساجد اور مدرسوں میں مکمل ہوئی. جب اطالوی فوجوں نے لیبیا پہ قبضہ کیا تو 52 سالہ عمر مختار ایک مسجد میں قرآن کا معلم تھے لیکن آپ کو افریقی ملک چاڈ میں
فرانسیسی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا تجربہ حاصل تھا. آپ صحرائی جنگ کی بہترین حکمت عملیوں کے ماہر تھے. وہ اطالوی فوجوں کے مقابلے میں مقامی جغرافیہ سے بھی واقف تھے لہذا آپ نے استعماریوں کو انتہائی زک پہنچائی. وہ انتہائی مہارت کے ساتھ بار بار اطالوی
فوجوں پہ حملہ کرتا، انکو شدید نقصان پہنچاتے اور پھر صحرا میں روپوش ہوجاتے تھے. اُس نے گھات لگاکر دشمن کی سپلائی لائن کو برباد کردیا، اطالوی بہت حیران و پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوفزدہ بھی ہوئے. 1924ء میں جبلِ اخدار کے پہاڑی علاقہ میں اطالوی گورنر ارنسٹو
بمبیلیلی نے ایک انسداد گوریلا فورس بنائی جس نے اپریل 1925ء میں مزاحمتی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد عمر مختار اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پہ مجبور ہوگئے. اسی اثناء میں وہ مصر سے امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے. 1925ء سے لیکر 1928ء
تک عمرمختار کی جدوجہد کا عروج تھا، لیبیا میں جہاں جہاں بھی اطالوی فوج موجود تھی، وہاں وہاں عمر مختار نے حملے کئے. حتی کہ اطالوی جنرل ٹیروزی یہ کہنے پہ مجبور ہوگیا کہ "مختار غیر معمولی استحکام اور طاقت کا حامل صحرائی شیر ہے”.
عمر مختار کی گرفتاری کا منظر

فروری 1929ء میں اطالوی گورنر اور عمر مختار کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا مگر نومبر 1929ء میں وہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے دوبارہ جنگ شروع کر دی. پھر اطالوی حکومت نے لیبیا میں اپنی فوج کو بے پناہ جنگی وسائل سے لیس کرتے ہوئے
جبل اخدر کا مکمل گھیراؤ کا پلان دیا. پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا، حتی کہ غیرمسلح عام شہریوں میں سے بھی کوئی آ جا نہیں سکتا تھا. مزاحمتی مجاہدین ہر قسم کی مدد اور کمک سے عاری ہوگئے. مقامی غداروں اور مخبروں کی مدد سے گیارہ ستمبر 1931میں صحرا
کا شیر حالتِ جنگ میں گرفتار ہوا. 73 سالہ عمر مختار کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور پھر پورے شہر پہ ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی. اطالوی جنرل روڈالفو گریسیانی نے اٹلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا کہ درمیانی قد کا سفید باریش بوڑھا عمرمختار انتہائی چست،
چالاک اور ذہین ہونے کے ساتھ باکردار اور بہادر بھی ہے.

جب عدالت میں عمر المختار سے پوچھا جاتا ہے

کیا تم نے اٹلی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا؟
عمر مختار:
ہاں!
کیا تم نے لوگوں کو اس جنگ پر ابھارا
ہاں!
کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں اپنے کئے کی کیا سزا ملے گی؟
ہاں!
کیا یہ تمہارا اعتراف ہے جو تم کہہ رہے ہو
ہاں!
تم کتنے سال سے اٹلی کی فوجوں سے جنگ کررہے ہو؟
بیس سالوں سے.
کیا تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے
نہیں.
کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی؟
ہاں.
جج اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
مجھے تمہارے اس طرح کے انجام پر دکھ اور افسوس ہے
عمر مختار جواب دیتا ہے:
نہیں! بلکہ یہ میرے زندگی کا حسین اختتام ہے
جج اُسے لالچ دینے کی کوشش کرتا ہے
وہ اُسے مکمل معافی کی پیشکش کرتا ہے
اس شرط پر کہ وہ مجاھدین کو لکھ دے کہ وہ اٹلی کے خلاف جہاد روک دیں
عمر مختار اُسے دیکھتا ہے،
اور اپنا مشہور زمانہ قول کہتا ہے:
جو انگلی ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہو اُس انگلی سے
باطل کلمہ نہیں لکھا جاسکتا.

پھانسی سے ایک روز قبل عمر مختار نے کہا تھا: "میں نے کبھی اٹلی کی حکومت کی اطاعت کی ہے نہ کروں گا. میں نے اطالوی فوجوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا ہے، جب کسی معرکے میں میری شمولیت نہیں تھی تب بھی وہ معرکہ میری کمان و
احکامات کے تحت ہی ہوتا تھا. مجھے فخر ہے. میں ایک شاندار مثال پیش کرنے جارہا ہوں، فتح یا شہادت”. اس طرح عمر مختار کی تیس سالہ جنگِ مزاحمت کا خاتمہ ہوگیا
#نمود_عشق

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے فیسبک گروپ جوائن کریں 👇👇👇

facebook.com/groups/7591466…

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

8 Sep
ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 کو کلکتہ کے ایک خوشحال اورتعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔

ثانوی تعلیم 1951 میں سندھ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان ) سے مکمل کی، 1952 میں فضائیہ میں آئے اور 2 اکتوبر 1953 کو کمیشنڈ عہدے
پرفائز ہوئے، ان کے بھائی ایم شاہد عالم نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسرتھے اور ایک اور بھائی ایم سجاد عالم البانی میں طبعیات دان تھے

پاک فضائیہ کی تاریخ کا درخشندہ ستارہ محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ایسی
تاریخ رقم کی جو ہمیشہ یادرکھی جائے گی، بطور پائلٹ ایم ایم عالم نے دشمن کے پانچ طیاروں کوچشم زدن میں زمیں بوس کردیا، انہوں نے مجموعی طور پر نو بھارتی طیاروں کوگرایا، ان کا یہ کارنامہ نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ جنگی ہوا بازی کی تاریخ کا بھی ایک معجزہ تصور کیا جاتا ہے۔
Read 7 tweets
5 Sep
کورونا وائرس: کووڈ 19 کے علاوہ وہ چار وائرس جن کے لیے اب تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی

سنہ 1976 میں پہلی بار ایبولا کے بارے میں پتا چلا تھا۔ اس وقت اس سے مرنے والوں کی اموات کی شرح 50 فیصد تھی۔ رواں سال کے آغاز تک اس کی کوئی
ویکسین تیار نہیں کی جا سکی تھی۔ عالمی ادارہ صحت اور کچھ دوسرے ممالک نے آخرکار اس کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین کی منظوری دے دی ہے۔

لیکن ہم یہاں ایسے چار دوسرے مہلک وائرس کا ذکر کر رہے ہیں جن کی ویکسین ابھی تک تیار نہیں کی جا سکی ہے۔
ایچ آئی وی
ایچ آئی وی وائرس کے بارے میں پتا چلے تیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ایڈز ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اب تک تین کروڑ 20 لاکھ افراد کی ایڈز کے مرض کی وجہ سے جان جا چکی ہے۔
Read 18 tweets
4 Sep
میرے ایک بچپن کے دوست کی شادی ہوئ، شادی کے کچھ دن تک تو بھابھی نے کچن میں قدم ہی نا رکھا، کیوں کہ کھانا بنانا آتا ہی نہیں تھا، ساس کے بے حد اسرار پر ایک دن کچن میں کھانا بنانے چلی ہی گئ، پہلا تجربہ تھا لہذا سالن میں پانی بہت زیادہ ہوگیا، بھابھی بہت زیادی ڈر گیئں، ساس
غصہ کی تیز تھیں، بھابھی نے ساس سسر کے سامنے کھانا رکھا تو ساسو ماں کی قوالیاں شروع ہوگیئں، ٹھیک ٹھاک سنائ جبکہ بھابھی کونے میں کھڑی خاموشی سے سنتی رہی اور آنسو بہاتی رہی، اسی دوران دوست دکان بند کرکے گھر میں داخل ہوا تو فوراً ماں نے بیٹے کو تیز آواز
میں وہیں روکتے ہوۓ کہا، "جا بھئ۔۔۔ کھانا باہر سے لیکر آ۔ آج تو سارے کھانے کا بیڑا غرق ہوگیا"

جب شوہر کے سامنے ساس نے یہ جملہ کہا تو کونے میں کھڑی بیوی کی ایک اور رونے والی ہچکی نکلی، دوست اندر آیا ایک نظر بیوی کو دیکھا جو کونے میں کھڑی مسلسل
Read 16 tweets
3 Sep
ایک فتویٰ جس نے مسلم تہذیب کو جہالت کے کفن میں لپیٹ کر رکھ دیا....

پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایجاد کی. اسوقت مسلم تہذیب تاریخی عروج پر تھی. عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام عراق ایران آرمینیا آذربائیجان
اردن سعودی عرب یمن مصر تیونس لیبیا مراکو تک اور یورپ میں یونان روم بوسنیا بلغاریہ رومانیہ اسٹونیا ہنگری پولینڈ آسٹریا کریمیا تک پھیلی ہوئی تھی.

مذہبی علما نے فتوی دیدیا کہ پرنٹنگ مشین بدعت ہے اس پر قران اور اسلامی کتابوں کا چھاپنا حرام ہے. عثمانی خلیفہ
سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ مشین کے استعمال پر موت کی سزا کا فرمان جاری کر دیا. مسلم ممالک پر یہ پابندی 362 سال برقرار رہی. ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانے کا مقابلہ کیسے کرتے..!؟
کتابوں رسالوں کی فراوانی نے مغرب کو جدید علوم کا سمندر اور مسلم تہذیب کو
Read 6 tweets
2 Sep
عدنان میندرس، ترکی کے وہ مظلوم وزیراعظم، جنہیں 1961ء میں آج ہی کے دن تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ عدنان کا پہلا "جرم" یہ تھا کہ انہوں نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسمبلی کے ذریعے اُس قانون کو منسوخ کروایا جس کے تحت ترکی میں عربی زبان میں اذان دینے پر
پابندی تھی اور فیصلےکے نتیجے میں 17 جون 1950ء کو 18 سال بعد ترکی کے طول و عرض میں عربی میں اذان دی گئی۔ ان کا دوسرا "جرم" مسلم دنیا میں "بابائے سیکولر ازم" مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار کے عین سامنے مسجد تعمیر کروانا تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنی جیب سے ایک
لاکھ لیرا (ترک کرنسی) دیے تھے۔ عدنان میندریس کا تیسرا "جرم" اتاترک عہد میں حج بیت اللہ پر عائد کی گئی پابندی اٹھانا تھا اور یوں ربع صدی یعنی 25 سال بعد 1950ء ہی میں 423 ترک باشندوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔
عدنان میندریس نے وہ بیڑیاں بڑی حد تک
Read 8 tweets
31 Aug
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند ماہ پہلے بورڈ کا نیا ایم ڈی آیا تھا۔ کام کے طور طریقوں میں اس کا انداز بالکل الگ تھا۔نئے ایم ڈی نے بورڈ کے تمام افسران کی میٹنگ بلائی اور انہیں دو ٹوک انداز میں ایک بات کہی۔ اس کام کو ایک مشن سمجھ کر ہو گا۔
اس کام کو سرکار کی تنخواہ اور دوسرے دنیاوی پیمانوں سے ناپیں گے تو مشکل لگے گا۔ لیکن یہ کام ایسا ہے کہ کل سزا و جزا کے دن اللہ اور اس کے رسولؐ کے حضور ہمارے لئے توشہ آخرت ثابت ہو سکتا ہے ،ہم اپنے رب کے حضور یہ کہہ سکیں گے کہ 2020ء میں ہم نے بحیثیت مسلمان اپنی
ذمہ داری نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اس کام سے صرف نظر کیا تو بحیثیت مسلمان ہمارا ضمیر کبھی ہمیں چین نہیں لینے دے گا۔ ادارے کے سربراہ کی اپنے ادارے کے لوگوں سے یہ بات ایک ایسی موٹیوشنل تقریر ثابت ہوئی کہ بات زبان سے نکلی اور دل میں اتر گئی۔ چند سطروں کی اس بات
Read 21 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!