قومی اسمبلی نے ’’گینگ ریپ‘‘ پر سزائے موت کا قانون

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اجتماعی آبروریزی کے حیاسوز واقعات کی روک تھام کے سلسلہ میں اپنے وعدہ کی تکمیل کے لیے یہ قانون منظور کرایا
@rashdigrw
کے مضمون 1997 سے
جہاں تک زنا کی سزا میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق ملحوظ 👇
رکھنے کا تعلق ہے، حد شرعی کے نفاذ میں تو یہ ضروری ہے اور پاکستان میں نافذ شدہ حدود شرعیہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے، لیکن زیر بحث قانون ہمارے خیال میں ’’حدود‘‘ کے دائرہ میں نہیں آتا بلکہ اسے تعزیر کے طور پر منظور کیا گیا ہے اس لیے اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے فرق کا 👇
لحاظ رکھنا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ گینگ ریپ پر سزائے موت کا قانون ’’حدود شرعیہ‘‘ کے دائرہ میں اس لیے نہیں آتا کہ ’’عام زنا‘‘ اور ’’اجتماعی بدکاری‘‘ میں واضح فرق موجود ہے اور اسی فرق کی وجہ سے اس کے لیے الگ قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، 👇
ورنہ زنا کے عام جرم کے لیے تو ملک میں قوانین پہلے بھی نافذ ہیں۔👇
ایک ہی جرم مختلف مواقع اور حالات کے حوالے سے الگ الگ نوعیت اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی مختلف نوعیتوں کا یہ فرق علمائے احناف کے ہاں تو بطور خاص تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثلاً سرقہ، جیب تراشی اور کفن چوری بنیادی طور پر چوری ہی کی مختلف صورتیں ہیں لیکن فقہاء کرام نے نوعیت اور 👇
مواقع و محل کی مناسبت سے انہیں الگ الگ جرم شمار کیا ہے اور ان کے لیے الگ سزائیں تجویز کی ہیں، حتیٰ کہ ’’کفن چوری‘‘ پر ’’سرقہ‘‘ کا اطلاق مکمل نہ سمجھتے ہوئے بعض فقہاء نے اسے ’’حد شرعی‘‘ کے اطلاق سے مستثنیٰ کر کے ’’تعزیر‘‘ کے دائرے میں شامل کر دیا ہے۔ 👇
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو ’’گینگ ریپ‘‘ زنا کی عام تعریف سے ہٹ کر ایک الگ بلکہ اس سے زیادہ سنگین جرم قرار پاتا ہے، اس لیے کہ اجتماعی بدکاری کی صورت میں زنا کے ساتھ دو مزید جرم بھی شامل ہو جاتے ہیں:👇
ایک یہ کہ یہ بدکاری عملاً دوسرے لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے جس میں تذلیل اور تشہیر کا پہلو پایا جاتا ہے۔

اور انتقام کے لیے خود ساختہ صورت اختیار کرنا بجائے خود جرم ہے۔

پھر اس موقع پر اگر ہتھیار کی موجودگی اور نمائش بھی کی گئی ہو تو تخویف اور جبر ایک تیسرا جرم بھی 👇
اس کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔

اور ان تمام جرائم کا مجموعہ گینگ ریپ ہے جس کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے اگر ’’حدود شرعیہ سے ہٹ کر بطور تعزیر الگ سزا مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو اسے شرعی اصولوں سے تجاوز قرار دینا کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہو گا۔ باقی رہی یہ بات کہ 👇
تعزیرات میں حد شرعی سے زائد سزا مقرر کرنا درست نہیں ہے تو یہ موقف بھی اصولی طور پر محل نظر ہے اور سلسلہ میں بحث و دلائل کا ایک الگ میدان موجود ہے۔ البتہ اس موقع پر احناف کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اس قدر تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاویؒ شرح معانی الآثار میں 👇
حضرت امام ابو یوسفؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ تعزیرات میں سزا کا مقرر کرنا امام (یعنی حکومت) کی رائے پر موقوف ہے اور اس میں کوئی تحدید نہیں ہے۔ علامہ عینیؒ نے بھی ’’عمدۃ القاری‘‘ میں امام ابو یوسفؒ کا یہی قول نقل کیا ہے۔ جب کہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ’’فیض الباری‘‘ میں 👇
حضرت امام ابو حنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تعزیر میں سزا کوڑوں کی صورت میں ہو تو یہ شرط ہے کہ کوڑوں کی سزا، جو حد شرعی میں کم از کم (چالیس کوڑے) بیان کی گئی ہے، تعزیر میں اس سے زیادہ مقرر نہ کی جائے۔ لیکن اگر سزا کسی اور شکل میں مقرر کی جا رہی ہے تو 👇
امام (یعنی حکومت) کے لیے موت سمیت کوئی بھی سزا مقرر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح معروف محقق الاستاذ السید سابق ’’فقہ السنۃ‘‘ میں فتاویٰ شامی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ احناف کا اصول یہ ہے کہ جن جرائم میں ان نزدیک قتل کی سزا عام حالات میں نہیں ہے، مثلاً کسی بھاری چیز کے ساتھ 👇
قتل کرنا یا لواطت وغیرہ، اگر ان جرائم کا تکرار ہونے لگے تو امام (حکومت) کو حق حاصل ہے کہ اس جرم میں موت کی سزا یا مقررہ حد سے زیادہ سزا دے، بشرطیکہ اسے عوام کی مصلحت اسی میں نظر آئے۔

👇
اس لیے ہمارا خیال ہے کہ ’’گینگ ریپ‘‘ کی انسانیت سوز وارداتوں میں جس طرح مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس پر قابو پانے کے لیے موت کی سزا کا یہ قانون مناسب بلکہ ضروری قانون ہے اور شرعاً اس میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس پر مؤثر عملدرآمد ہو، 👇
ورنہ ملک میں قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے، اگر ان کی طرح یہ قانون بھی ہمارے نظام کی سست روی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ گیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کے مؤثر نفاذ اور ان پر عملدرآمد کے لیے بھی منصوبہ بندی کرے۔
@threadreaderapp unroll pl

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muddassar Rashid

Muddassar Rashid Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Muddassar04

11 Sep
احباب کے لئے مضامینِ تصوف: مفتی محمود اشرف صاحب عثمانی 

دینی مقاصد کے لئے خواتین سے رابطہ رکھنے کے حوالے سے حضرت اقدس مفتی محمود اشرف صاحب عثمانی دامت برکاتہم کی فکرانگیز تحریر
👇
نیک دل طالبات اور دیندار خواتین کسی کو بزرگ سمجھ کر اس کی طرف زبانی یا تحریری طور پر رجوع کرتی ہیں، ان کا دینی جذبہ بالعموم قابلِ قدر ہوتا ہے، اور انہیں دینی رہنمائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ یہ سب خواتین قابلِ احترام اور پاک دامن اور سادہ دل ہوتی ہیں، 👇
اللہ رسول کی محبت اور اپنی آخرت کی تیاری کی وجہ سے رجوع کرتی ہیں … مگر عام طور سے مرد ایسے پاک دامن صاف دِل نہیں ہوتے، مردوں کے دل دماغ میں شہوانی اور جنسی خیالات بآسانی آجاتے ہیں، نفس اور شیطان انہیں شہوانی اور جنسی خیالات کی طرف بآسانی راغب کردیتا ہے اور 👇
Read 19 tweets
2 Sep
حدیثِ مبارک  میں ہے: " سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو" ۔

"وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان". (2/268 مشکاۃ، کتاب النکاح،  ط؛ قدیمی)

👇
نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔

اور  ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو 👇
یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ 👇
Read 15 tweets
30 Aug
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  لاکھوں مسلمانوں کے قلوب کا مرکز
موسمِ حج میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی قیام گاہ لاکھوں مسلمان کے قلوب کامرکز بن جاتی تھی ،عورتیں چاروں طرف سے گھیرلیتیں ، وہ امام کی صورت میں آگے آگے اور تمام عورتیں ان کے پیچھے پیچھے چلتیں۔ اسی درمیان میں 👇
ارشاد وہدایت کے فرائض بھی انجام پاتے جاتے ، ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا،جس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے تھے ،دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کودیکھتے تو پھاڑڈالتے۔👇
خطبات حبان جلد دوم

ایک دفعہ ایک کپڑا لے کر آئیں اور فرمایا کہ یہی کپڑا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دلہنوں کو پہنانے کیلئے لوگ عاریت کے طور پر مانگ کر لے جایا کرتے تھے ۔ لیکن افسوس ہے کہ آج یہ کپڑا باندی بھی پہننے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے۔👇
Read 28 tweets
29 Aug
آج کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ آج اگر جنوبی ایشیا میں اسلام کا نام زندہ ہے، دینی تعلیم و ثقافت کی اقدار و روایات کا تسلسل قائم ہے اور عام مسلمان کا اپنے دین اور تہذیب کے ساتھ رشتہ بدستور موجود ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم کے ساتھ عالم اسباب میں ان جان نثاروں اور 👇
سرفروشوں کی طویل جدوجہد کا ثمر ہے جنہوں نے وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے خدشات کو بھانپتے ہوئے ان کی تکمیل کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ اور ایثار، قربانی، سادگی اور تدبر و حوصلہ کے ساتھ ایک ایسے تعلیمی اور فکری محاذ کا آغاز کیا جو 👇
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ناقابل شکست تعلیمی و تہذیبی حصار ثابت ہوا اور جس کے اثرات کا جنوبی ایشیا سے باہر بھی پورے عالم اسلام میں کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔👇
Read 28 tweets
27 Aug
حضرت امام جعفر صادقؒ کی وفات کے بعد اہل تشیع دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ نے ان کے فرزند امام موسیٰ کاظمؒ کو ان کے جانشین کے طور پر امام تسلیم کر لیا۔ اس اکثریتی گروہ نے امام موسیٰ کاظمؒ کے بعد بارہویں امام تک امام حاضر، اور پھر بارہویں امام کے غائب ہو جانے پر 👇
’’امام غائب‘‘ کی مسلسل امامت کے ساتھ اثنا عشریہ کا عنوان اختیار کر رکھا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ نے امام جعفر صادقؒ کے بڑے بیٹے امام اسماعیلؒ کو، جو اُن کی زندگی میں ہی وفات پا چکے تھے، ان کا جانشین قرار دیتے ہوئے ان کے فرزند محمدؒ (امام جعفر صادقؒ کے پوتے) کو 👇
اپنا امام بنا لیا۔ یہ گروہ اسماعیلی کہلاتا ہے جو آج تک امام حاضر کے تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود ہے۔👇
Read 16 tweets
26 Aug
سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین

مفتی محمد وقاص رفیعؔ

تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ ٗ 👇
میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن 👇
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں مار کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے حیائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی 👇
Read 104 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!