شوہر کا خراب رویہ دیکھ کر ہر بیوی کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں، اور ہر بیوی ان تین راستوں میں سے کوئ ایک راستہ ضرور چُنتی ہے۔ *اگر شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، اسے وقت نہیں دیتا،
موبائل، ٹیلیوژن اور دوستوں میں مصروف رہتا یے، اسے عزت و پیار نہیں دیتا، ہر وقت جھگڑے کرتا ہے، گالیاں دیتا یے، ماں بہن کی باتوں میں آکر بے عزت کرتا ہے، مطلب کسی بھی اعتبار سے بیوی کو راحت کی بجاۓ تکلیف پہنچاتا یے تو اس غلیظ انسان کی بیوی تین راستوں میں سے ایک راستہ
اختیار کرتی ہے*"::۔
پہلا راستہ*" کچھ بیویاں جو ایمان کی کمزور ہوتی ہیں وہ شوہر کے خراب رویہ کو دیکھ کر غیر محرم سے رابطہ بنا لیتی ہیں، پھر اسکے ساتھ اپنے سکھ دکھ شیئر کرنے لگتی ہیں، اور وہ شخص بھی اسکے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی سے پیش آتا ہے، ہمدردی
والا یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہوکر دونوں کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، ایسی صورت میں شوہر، بیوی اور اسکا ہمدرد تینوں ہی سخت سزا کے حقدار ٹھہریں گے۔
دوسرا راستہ*" کچھ بیویاں ایمان کی مظبوط ہوتی ہیں لیکن *ہمت کی کمزور* ہوتی ہیں، اگر انکا شوہر انکے ساتھ خراب
رویہ رکھتا ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں تو یہ بیویاں اپنی عزت و آبرو کی تو ہر دم ہر پل حفاظت کرتی ہیں لیکن اندر سے مکمل ٹوٹ جاتی ہیں، انکا ہنسنا رسمی ہوتا ہے، انکا بولنا رسمی ہوتا ہے، انکی مسکراہٹیں رسمی ہوتی ہیں، انکا لوگوں سے ملنا جلنا رسمی ہوتا یے، یہ دن کی روشنی
میں اندر ہی اندر گھٹتی ہیں اور رات کے اندھیروں میں خون کے آنسو روتی ہیں، یہ بیویاں زندہ لاش بن کر اپنی زندگی گذارتی ہیں، اور بروز محشر اس عورت کا شوہر اس وقت تک جنت میں داخل نا ہوسکے گا جب تک بیوی کے ایک ایک آنسو کا حساب نا دیدے۔
تیسرا راستہ*" اس راستے پر چلنے والی بیویوں کا ایمان تو مضبوط ہوتا ہی ہے لیکن یہ *ہمت اور استقلال کی پہاڑ* بھی ثابت ہوتی ہیں، یہ مایوس نہیں ہوتی، اندھیروں میں آنسو نہیں بہاتی، بلکہ فکر کرتی ہیں، بُرے حالات کو انگلی دکھاتے ہوۓ چیلنج کرتی ہیں، پختہ عزم و ارادہ کرتی ہیں کہ
میں اپنے شوہر کو اندھیروں سے نکال کر لاؤں گی، میں انکی خامیوں کو خوبیاں بناؤں گی، میں انکی برایئوں کو اپنی اچھایئوں سے ختم کروں گی، رب تعالی بھی اپنی اس بندی کے عزم و ارادے پر خوشی سے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ *اپنے مقصد کی تکمیل کی صورت میں یہ شوہر
کی گالیاں، طنز و طعنے اور ہر کڑوی بات خاموشی سے برداشت کیۓ مسکراہٹ سے جواب دیتی ہیں، شوہر کی طرف سے بدسلوکیوں پر اپنے اچھے اخلاق اور خوبصورت اعمال کو ہتھیار بناتی ہیں، شوہر کے آنے سے پہلے خود کو سجاۓ محبوبہ بن کر سامنے آتی ہیں کہ شوہر کو
سکون و راحت پہنچانا فرض ہے*۔ یہ جانتی ہیں کہ شوہر کے والدین کی خدمت فرض نہیں لیکن پھر بھی خود کو ساس سسر میں جھونک دیتی ہیں، انکے آگے پیچھے گھومتی ہے، انکی خدمت کو خود کے لیۓ شرف سمجھتی ہیں تاکہ بذرگوں کی دعاؤں سے انکا گھر بسا رہے، یہ تکیوں
میں منہ چھپا کر رونے کی بجاۓ سجدوں میں رونے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ پانچ وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھاۓ آنسو بہا کر رب کے حضور شوہر کی قربت، شوہر کی توجہ، شوہر کا دھیان، شوہر کی محبت کا سوال کرتی ہیں، اتنا ہی نہیں یہ تہجد میں اٹھ کر پھر سے رب کی بارگاہ میں حاضری
لگاتی ہیں اور آنکھیں نم کیے اپنی آہ اس رب کے سامنے رکھ کر اپنی خوشیاں مانگتی ہیں، رب تعالی بھی انہیں انکے صبر و ہمت اور مدد واسطے پکارنے پر انہیں مایوس نہیں کرتا، انکی برداشت کی گئ تکالیف پر صبر کا پھل دیتے ہوۓ انکے شوہر کا دل انکی بیویوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔
شوہر کا دل بیوی کی محبتوں سے بھر دیتا ہے
لہذا بہنوں سے کہوں گا کہ *کبھی شوہر کی بے رخی سے، بد سلوکیوں سے، برایئوں سے مایوس نا ہونا بلکہ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ اپنے اچھے اخلاق، خوبصورت اعمال اور مدد باری تعالی کے ذریعے اپنے
شوہر کا دل بیوی کی محبتوں سے بھر دیتا ہے
لہذا بہنوں سے کہوں گا کہ *کبھی شوہر کی بے رخی سے، بد سلوکیوں سے، برایئوں سے مایوس نا ہونا بلکہ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ اپنے اچھے اخلاق، خوبصورت
اعمال اور مدد باری تعالی کے ذریعے اپنے شوہر کی ان برایئوں کو اچھایئوں میں تبدیل کرنا۔ رب تعالی آپ کا مددگار ہوگا*
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
لیجنڈ اداکار چارلی چیپلن ایک بار ایک ایسے مقابلے میں چپکے سے شریک ہوگیا جس میں درجنوں لوگوں نے اس کا روپ دھار رکھا تھا اس مقابلے کا نام چیپلنٹس رکھا گیا جو سب سے بہتر چارلی چیپلن کی نقل ادا کرنے کا تھا، چنانچہ تمام لوگوں
نے اپنے فن کے جوہر دکھانا شروع کردئیے جن میں چارلی
بذات خود بھی شامل تھا آخر میں جب نتائج کا اعلان ہوا تو چارلی اپنے ہی کردار کو نبھانے کے معاملے تیسری پوزیشن حاصل
کرسکا۔ یہ زندگی کی ایک بہت دلچسپ حقیقت ہے کہ ہم کسی کو اس کے فن کے عروج پر دیکھ کر اسے بادشاہ مان کر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اگر اس مقابلے میں لوگوں کو علم ہوتا کہ
ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔
عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے
پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو
نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔
عالم دین فرمانے لگے: بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہیں آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلے ھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا
ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ خانے کا منتظررہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر
سامنے والےسفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازےپر دستک نہ دی۔ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ
کیا آپ جانتے ہیں کہ پنجاب میں اس وقت مزارات کی تعداد 598 ہے اور ان میں سے کئی گدی نشینوں میں سے اکثریت کون ہیں ؟
ان میں 64 درباروں کے گدی نشین،
متولی اور پیر آج بھی براہ راست سیاسی نظام میں حصہ دار ہیں۔
سرگودھا، جھنگ، پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی،
منڈی بہاو الدین، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم، ملتان، چشتیاں، خیرپور ٹامیوالا کے گدی نشین براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں،
یہاں کے گدی نشین پہلی بار جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست راست بنے اور ان گدی
نشینوں نے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیے
اور جنگ کو بغاوت قرار دیا اور انعام کے طور پر جاگیریں پائیں۔
یہی وجہ تھی کہ ان گدی نشینوں کو انگریزوں نے نوآبادیاتی عہد کے پاور سٹرکچر میں شامل کیا اور کورٹ آف وارڈز کے ذریعے سے انھیں مستقل سیاسی طاقت
اگر ہمارے ملک کے کسی بڑے شہر میں ایسا ہو کہ کتب کی ایک دکان ہو جو انواع و اقسام کی کتب سے بھری ہوئی ہو لیکن وہاں کوئی دکان دار نہ ہو بلکہ خریدار خود ہی ایمانداری سے، خریدی گئی کتب کی قیمت گُلک میں ڈال جاتے ہوں تو کیا خیال ایسی دکان کتنا عرصہ چل پائے گی؟
یہ بات مفروضہ نہیں، حقیقت ہے لیکن پاکستان میں نہیں دبئی میں جہاں بچپن سے کتب سے دوستی رکھنے والی ایک ہسپانوی عورت نے کمال کر دکھایا ہے۔ انہوں نے دبئی میں سات جگہوں پر بک اسٹورز کھولے ہیں، جن میں پچیس ہزار سے زائد ٹائٹلز رکھے گئے ہیں۔ ان کے پاس
ایک ٹرک بھی ہے جو موبائل بک شاپ کا کام کرتا ہے۔ اس ٹرک کے دن مقرر ہیں کہ وہ کون سے دن کہاں جائے گا۔
ان بک اسٹورز میں، آغاز میں ہلکا پھلکا اسٹاف رکھا گیا تھا۔ مگر کچھ وقت کے بعد خاتون کو احساس ہوا کہ خرچہ نہیں نکل رہا تو ملازمین کی چھٹی کر دی، لیکن کتب