پاکستان کا کوئی فوجی دستہ آزربیجان میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لئے رہا. یکسر جھوٹ بولا جا رہا ہے اور اس جھوٹ کی ابتدا بھارت سے ہوئی ہے. اس پراپیگنڈا کے پیچھے بھارت کے کچھ مقاصد ہیں جنہیں پاکستانی محب الوطنی
کے نام پر پورا کر رہے ہیں.
پاکستان کا سوشل میڈیا فوج کا امیج بہتر بنانے کے چکر میں الٹا فوج کا امیج خراب کر ریے ہیں. ارے عقلمندو تم جو بات اندھا دھند پھیلائی جا رہے ہو اس کی ابتدا انڈیا سے ہوئی ہے. تمہیں کیا لگتا ہے کہ انڈیا پاک فوج کا امیج بہتر کرنے کےلیے یہ پراپیگنڈا
کر رہا ہے؟
ان احمقوں کو فوج کے حقیقی کارنامے شاید اتنی جلدی بھول گئے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ فوج کا امیج بہتر کرنے کےلیے جھوٹ بولنا ضروری ہے. اور اگر انھوں نے جھوٹ بولنا ہی ہے تو کم سے کم جھوٹ تو اپنا ذاتی گھڑیں، بھارت سے ادھار مت لیں.
عقل اتنی نہیں کو کہ یہ سامنے کی بات دیکھ سکیں کہ بھارت اس پراپیگنڈا کے زریعے پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات خراب کروانا چاہتا ہے. کشمیر میں دو سالوں سے دنیا جہاں کا کوئی ظلم ایسا نہیں جو نا ہوا ہو. وہاں فوج گھسانے کا خیال نہیں آیا ان محب الوطنوں کو. اس
لیے کہ کشمیر ساتھ ہے اور عوام کو فوری پتہ چل جاتا کہ جھوٹ ہے اور لوگ فوراً کہتے ہیں کہ یہ تو غلط بات ہے
آذربائیجان دور ہے لہٰذا جو دل کرے جھوٹ بول دو.
جسے دیکھو دفاعی تجزیہ نگاری کے نام پر پر جھوٹ پھیلا رہا ہے. کوئی فوج گھسائے
بیٹھا ہے. کوئی ایف سولہ اڑا رہا ہے آزربیجان میں. اور تو اور پاکستانی پائلٹس تک آذربائیجان بھجوائی بیٹھے ہیں. بنا یہ سوچے کہ جن شرائط پر پاکستان نے ایف سولہ خریدے ہیں ان کے مطابق اسے صرف اپنے دفاع میں استعمال کیا جا سکتا ہے
حملے میں نہیں. اور ترکی اور آذربائیجان دونوں انکار کر چکے ہیں کہ جنگ میں ایف سولہ استعمال نہیں ہو رہا ہے.
محب الوطنی ایک سینسبلٹی کا نام ہوا کرتا تھا اور ایک ذمہ داری کا بھی. ہر ایکٹیویٹی سے پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ پاکستان کو
اس سے کوئی نقصان تو نہیں؟ کہیں اس سے عوام میں پائی جانے والی جہالت میں مزید اضافہ تو نہیں ہو گا؟ کہیں اس کا مجموعی نتیجہ قوم کو نقصان تو نہیں دے گا؟ پتہ نہیں یہ کونسے سے لوگ ہیں جو اب
ان سارے ہی منفی کاموں کو محب الوطنی قرار دیتے ہیں.
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
دُنیا اپنی روانگی میں مسلسل چل رہی ہو گی کہ اچانک ایک زور دار آواز سے سب کچھ فنا ہوجائے گا سوائے ربِ العزت کے، پھر دوسری بار آواز آئے گی اور ساری کائنات اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر ننگے بدن، ننگے پاؤں میدانِ محشر کی طرف
دوڑیں گے، جو شام کے علاقے کی طرف سجایا جائے گا۔
ہر انسان اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اٹھے گا، ہر ایک کو دو فرشتے پکڑیں گے اور میدانِ محشر میں لے جائیں گے۔ سب میدانِ محشر میں پہنچیں گے، سورج ایک میل کے فاصلے سے تپش پھینک رہا ہوگا۔ سب لوگ
اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔
پچاس ہزار سال کا یہ ایک دن بہت سخت ہو گا۔لوگوں کی حالت ایک نشہ کئے ہوئے شخص کی طرح ہو گی۔
ہر نبی اپنا حوض لگا کر اپنی اپنی اُمت کو پانی پلائے گا۔ نبی کریم ﷺ بھی اپنی اُمت کو سوائے کافروں،
یہ ہیں وہ تین سائنس دان جنہوں نے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی دریافت کی اور لاکھوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے اور لیور کینسر میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔ان تینوں کو اس سال نوبل پرائز ونر قرار دیا گیاہے۔ہماری اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں
اڑنے والی گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں، وہاں آج بھی لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ بیماری ایسی چیز ہے کہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی لیکن دوا اور چارہ جوئی انسان کے اختیار میں دی گئی ہے۔میں دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دانوں کی قدر کرتی ہوں،
خاص طور پر وہ جو بیماری پر کام کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگیاں تیاگ دیتے ہیں، کمروں میں بند رہتے ہیں، کتابیں کھاتے پیتے، اور علم کی عبادت کرتے ہیں۔انہیں انسٹا، فیس بک، فیشن، ہوٹلنگ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا، انہیں بس انسانیت
ایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او نے معاشی ماہرین کو اس وقت سوچ میں ڈال دیا جب اس نے کہا کہ: سائیکل ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے - اس لئے کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا، وہ کار خریدنے کے لئے قرض بھی نہیں لیتا۔ کار
کی انشورنس نہیں کرواتا - پیٹرول بھی نہیں خریدتا۔ اپنی گاڑی سروس اور مرمت کے لئے نہیں بھیجتا۔ کار پارکنگ کی فیس ادا نہیں کرتا۔ وہ ٹال پلازوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔ سائیکل چلانے کی وجہ سے
صحت مند رہتا ہے موٹا نہیں ہوتا !! صحت مند رہنے کے باعث وہ دوائیں نہیں خریدتا۔ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ بھی
خلافتِ عثمانیہ کو انگریزوں نے نہیں، ہم مسلمانوں نے ختم کیا تھا۔ شریفِ مکّہ حسين بن علی جو کہ سادات میں سے تھے، ان کو انگریزوں نے بہکایا اور وہ مان گئے اور غداری کی تھی۔ ایک عرب ریاست چاہتے تھے اور تُرکوں کی حکومت سے
نجات چاہتے تھے۔ اس شریفِ مکّہ ہی کی اولادیں آج اردن (Jordan) میں بادشاہت کر رہی ہیں۔
پھر کمال اتاترک جو خود خلافتِ عثمانیہ کے لیے لڑا اور تُرکی کو مغربی قوّتوں سے بچایا، وہ با اثر آدمی تھا۔ چاہتا تھا کہ تُرکی
میں اس کے نظریات ہوں۔ اس نے خلافت کو ختم نہیں کیا مگر اس کو خلیفہ اپنی حکومت میں ایک رکاوٹ محسوس ہورہا تھا۔ اس نے شیخ سنوسی سے کہا کہ تُرکی کے باہر جہاں چاہے خلافت قائم کرلو مگر تُرکی میرا ہوگا۔ انہوں نے عثمانیوں سے
20 اگست 1858 میں لیبیا کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے, ابتدائی تعلیم قریبی مسجد سے حاصل کی اور پھر اعلی تعلیم سینوسی یونی ورسٹی سے مکمل کی.
اس وقت لیبیا اور افریقہ کے دوسرے علاقے خلافت عثمانیہ کا حصہ تھی, جب فرانس نے
CHAD پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو عمر مختار وہاں کے مسلمانوں کے دفاع کے لیے اپنا حصہ ڈالنے چلے گئے. مگر جب اٹلی کے غلط ارادوں کو بھانپا گیا تو ان کو واپس لیبیا بلا لیا گیا, جہاں انہوں نے 20 سال تک, 1911 سے لے کر 1931 تک اٹلی کے لشکر کو وہ سبق سکھایا کہ اٹلی کے لیے
اس علاقے پر قبضہ مشکل ہوگیا.
انہوں نے محدود ہتھیار اور چھوٹے لشکر کو اس جنگی مہارت سے استعمال کیا کہ لیبیا میں اٹلی کو فوج کی تحداد میں روز بروز اضافہ کرنا پڑا مگر پھر بھی اٹلی کو کوئی فائدہ نہ ہوا. کیونکہ لیبیا کی عوام عمر مختار کے لشکر کو دشمن کی معلومات
افریقہ کے ایک ملک میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔
اسی سبب ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا
عالِم جی نے دعوت قبول کی،
اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر
پہنچے،
اور وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے،
مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد,
مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی،
تو اسے یاد آیا کہ،
اس نے کچھ رقم
مہمان خانہ میں رکھی تھی،
لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی،
اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،
کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟
شوہر نے جواب دیا: نہیں،
اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتادی کہ