میں ٹیکسی لینے سٹینڈ کی طرف چلا۔ جب میرے پاس ایک ٹیکسی رکی تو مجھے جو چیز انوکھی لگی وہ گاڑی کی چمک دمک تھی۔ اس کی پالش دور سے جگمگا رہی تھی۔ ٹیکسی سے ایک سمارٹ ڈرائیور تیزی سے نکلا۔ اس نے سفید شرٹ اور سیاہ پتلون👇🏻
پہنی ہوئی تھی جو کہ تازہ تازہ استری شدہ لگ رہی تھی۔ اس نے صفائی سے سیاہ ٹائی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی کی دوسری طرف آیا اور میرے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔
اس نے ایک خوبصورت کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا ’سر جب تک میں آپ کا سامان ڈگی میں رکھوں،👇🏻
آپ میرا مشن سٹیٹ منٹ پڑھ لیں۔ میں نے آنکھیں موچ لیں۔ یہ کیا ہے؟‘ میرا نام سائیں ہے، آپ کا ڈرائیور۔ میرا مشن ہے کہ مسافر کو سب سے مختصر، محفوظ اور سستے رستے سے ان کی منزل تک پہنچاؤں اور ان کو مناسب ماحول فراہم کروں ’۔ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔👇🏻
میں نے آس پاس دیکھا تو ٹیکسی کا اندر بھی اتنا ہی صاف تھا جتنا کہ وہ باہر سے جگمگا رہی تھی۔
اس دوران وہ سٹئرنگ ویل پر بیٹھ چکا تھا۔ ’سر آپ کافی یا چائے پینا چاہیں گے۔ آپ کے ساتھ ہی دو تھرماس پڑے ہوئے ہیں جن میں چائے اور کافی موجود ہے‘ ۔👇🏻
میں نے مذاق میں کہا کہ نہیں میں تو کوئی کولڈ ڈرنک پیوں گا۔ وہ بولا ’سر کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس آگے کولر پڑا ہوا ہے۔ اس میں کوک، لسی، پانی اور اورنج جوس ہے۔ آپ کیا لینا چاہیں گے؟‘ میں نے لسی کا مطالبہ کیا اور اس نے آگے سے ڈبہ پکڑا دیا۔👇🏻
میں نے ابھی اسے منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ اس نے کہا ’سر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو میرے پاس اردو اور انگریزی کے اخبار موجود ہیں‘ ۔
اگلے سگنل پر گاڑی رکی تو سائیں نے ایک اور کارڈ مجھے پکڑا دیا کہ اس میں وہ تمام ایف ایم سٹیشن ہیں جو میری گاڑی کے ریڈیو پر لگ سکتے ہیں۔👇🏻
اس کے علاوہ ان میں وہ تمام البم بھی ہیں جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ اگر آپ کو موسیقی سے شوق ہے تو میں لگا سکتا ہوں۔ اور جیسے یہ سب کچھ کافی نہیں تھا، اس نے کہا کہ ’سر میں نے ائر کنڈیشنر لگا دیا ہے۔ آپ بتائیے گا کہ ٹمپریچر زیادہ یا کم ہو تو آپ کی مرضی کے مطابق کردوں‘ ۔👇🏻
اس کے ساتھ ہی اس نے رستے کے بارے میں بتا دیا کہ اس وقت کس رستے پر سے وہ گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس وقت وہاں رش نہیں ہوتا۔ پھر بڑی پتے کی بات پوچھی ’سر اگر آپ چاہیں تو رستے سے گزرتے ہوئے میں آپ کو اس علاقے کے بارے میں بھی بتا سکتا ہوں۔ اور اگر آپ چاہیں👇🏻
تو آپ اپنی سوچوں میں گم رہ سکتے ہیں‘ وہ شیشے میں دیکھ کر مسکرایا۔
میں نے پوچھا ’سائیں، کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہی ٹیکسی چلاتے رہے ہو؟‘ اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آئی۔ ’نہیں سر، یہ کچھ دو سال سے میں نے ایسا شروع کیا ہے۔ اس سے پانچ سال قبل میں بھی اسی طرح کڑھتا تھا👇🏻
جیسے کہ دوسرے ٹیکسی والے کڑھتے ہیں۔ میں بھی اپنا سارا وقت شکایتیں کرتے گزارا کرتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن کسی سے سنا کہ سوچ کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ یہ سوچ کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ بطخ بننا پسند کریں گے کہ عقاب۔ اگر آپ گھر سے مسائل کی توقع کرکے نکلیں گے تو آپ کا سارا دن برا ہی گزرے گا۔👇🏻
بطخ کی طرح ہر وقت کی ٹیں ٹیں سے کوئی فائدہ نہیں، عقاب کی طرح بلندی پر اڑو تو سارے جہاں سے مختلف لگو گے۔ یہ بات میرے دماغ کو تیر کی طرح لگی اور اس نے میری زندگی بدل دی۔
میں نے سوچا یہ تو میری زندگی ہے۔ میں ہر وقت شکایتوں کا انبار لئے ہوتا تھا اور بطخ کی طرح سے ٹیں ٹیں کرتا رہتا👇🏻
تھا۔ بس میں نے عقاب بننے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو تمام ٹیکسیاں گندی دیکھیں۔ ان کے ڈرائیور گندے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے تھے اور مسافروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ ان کے مسافر بھی ان سے بے زار ہوتے تھے۔ کوئی بھی خوش نہیں ہوتا تھا۔👇🏻
بس میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے چند تبدیلیاں کیں گاڑی صاف رکھنی شروع کی اور اپنے لباس پر توجہ دی۔ جب گاہکوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی تو میں نے مزید بہتری کی۔اور اب بھی بہتری کی تلاش ہے۔
میں نے اپنی دلچسپی کے لئے پوچھا کہ کیا اس سے تمہاری آمدنی پر کوئی فرق پڑا👇🏻
"سر بڑا فرق پڑا۔ پہلے سال تو میری انکم ڈبل ہوگئی اور اس سال لگتا ہے چار گنا بڑھ جائے گی۔ اب میرے گاہک مجھے فون پر بک کرتے ہیں یا ایس ایم ایس کرکے وقت طے کرلیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک اور ٹیکسی خریدنی پڑے گی اور اپنے جیسے کسی بندے کو اس پر لگانا پڑے گا۔‘
یہ سائیں تھا۔👇🏻
اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بطخ نہیں بننا بلکہ عقاب بننا ہے۔ کیا خیال ہے، اس ہفتے سے عقاب کا ہفتہ نہ شروع کیا جائے؟ سائیں نے تو مجھے ایک نیا فلسفہ دیا ہے۔ بڑا فلسفہ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ کوئی پانی میں گرنے سے نہیں مرتا۔ ہاتھ پاؤں نہ مارنے سے مرتا ہے۔👇🏻
منقول!!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ آج کل معاشرے میں ھو کیا رھا ھے. ھم لوگ کس طرف جا رھے ھیں. آج کل ھم لوگ شیعہ , سنی , دیو بندی , وھابی ایک دوسرے کو کافر مان کر بیٹھ گئے ھیں اور جو اصل کافر ھے اُن کے رواج اور روایات کو اپنا رھے ھیں , اُن کے مغربی لباس پہن رھے ھیں.👇🏻
سوشل ایپس پر اپنے مسلمان بھائیوں سے نفرت کا اظہار کر رھے ھیں اور ھماری فرینڈ لسٹ اصل کافرں سے بھری پڑی ھے. کسی انگریز یا چائینیز کے ساتھ سیلفی لے کر پھولے نہیں سماتے اور جو اللّٰہ اور رسول اللّٰہ ﷺ کے ماننے والے ھیں اُن پر طنز کرتے نہیں تھکتے. اگر آپ گوگل پر چیک کریں👇🏻
تو آپ کو پتہ چلے گا دنیا میں سب سے ذیادہ تعداد مسلمانوں کی ھے اور سب سے ذیادہ بہادر سپاھی مسلمانوں کے ھیں. لیکن اس سب کے باوجود ھم لوگ کشمیر , شام , فلسطین اور دیگر علاقوں کو کافروں سے نہیں بچا پا رھے. تاریخ گواہ ھے مسلمانوں کی کم تعداد ھمیشہ ذیادہ تعداد پر بھاری ھوتی ھے👇🏻
حضرت لعل شہباز قلندرؒ سرکار تشریف لے جا رہے تھے تو ایک ریچھ کو نچانے والا نظر آیا۔ پوچھا تم کون ہو تو بولا قلندر۔ اس دور میں ریچھ نچانے والے کو بھی قلندر کہتے تھے۔
آپؒ بے اختیار مسکرا دیے۔ یہ بات اس ریچھ والے کو پسند نہی آئ۔ کہنے لگا آپ کون ہیں۔👇🏻
فرمایا میں بھی قلندر ہوں۔ کہنے لگا آپ کیسے قلندر ہیں نا آپ کے پاس ریچھ نہ ڈگڈگی تو تماشہ کیسے دکھائیں گے۔ فرمایا پہلے تم دکھاؤ پھر میں دکھاتا ہوں۔
ریچھ والے نے ڈگڈگی بجائ اور ریچھ کھڑا ہو کر ناچنے لگا۔ اس نے کہا اب آپکی باری۔👇🏻
حضرت لعل شہباز قلندر رح دو درختوں کی ٹہنیوں پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا نیچے سے گذر جاؤ مگر یاد رکھنا آگے جانا مگر واپس کبھی مت آنا۔
جیسے ہی وہ نیچے سے گذرا ماحول ہی بدل گیا۔ نہ وہ سورج کی گرمی نہ گرد و غبار جہاں تک نظر دیکھے خوبصورت پہاڑ سبزا وادیاں۔ نہ موسم گرم نہ ٹھنڈا۔👇🏻
پہلا قانون فطرت:
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں👇🏻
اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
*دوسرا قانون فطرت:*
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ ۔ ۔
خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
عالم "علم" بانٹتا ہے۔
دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔👇🏻
*تیسرا قانون فطرت:*
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ۔ ۔ ۔
کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔
مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" ریاکاری" بڑھتی ہے۔
بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔👇🏻
دو روز قبل کسی نے سوشل میڈیا پر منہاج یونیورسٹی کے راشد نسیم کی پیشانی سے اخروٹ پھوڑنے کی ویڈیو شئر کی کہ نوجوان کی کاوش کو گینیز بک میں جگہ مل گئی اور اس سے اقوام عالم میں پاکستان کا نام بلند ہو گیا۔۔
اسی پوسٹ میں اک معصوم سی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا 👇🏻
کہ حکومت پاکستان کواس نوجوان کے ٹیلنٹ کی قدر کرنا چاہیئے اور اس اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کے طور پر بعد از مرگ کی روایت کے بجائے نوجوان کی زندگی میں ہی کوئی سڑک کوئی ادارہ اس کے نام سے موسوم کیا جائے۔
تجویز تو اچھی ہے مگر اس پر بات بڑھانے سے قبل آپ کو ایک تاریخی منظر دکھاتی ہوں👇🏻
منظر کچھ یوں ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کا دربار سجا ہے۔ سلطنت کے طول و عرض سے صاحبان ہنر آتے ہیں، اپنا اچھوتا فن دکھاتے ہیں اور خلیفہ اور اہل دربار سے اس فن کی داد کے طالب ہوتے ہیں۔
خلیفہ کو پسند آئے تو خوب تحسین کی جاتی ہے،👇🏻
ایک مرتبہ حضرت سلیما ن عليه السلام نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر نہر کی طرف جارہی تھی ، حضرت سلیما ن عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے ، جب چیونٹی پانی سے نکلی تواچانک ایک مینڈ ک اپنا سر پانی سے نکالا👇🏻
اور اپنا منھ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منھ میں چلی گئی، میڈک پانی میں داخل ہو گیا اور پانی ہی میں بہت دیر تک رہا ، سلیمان ں اس کو بہت غور سے دیکھتے رہے ،ذرا ہی دیر میں مینڈک پانی سے نکلا اور اپنا منھ کھولا تو چیونٹی باہر نکلی البتہ اس کے ساتھ دانہ نہ تھا۔👇🏻
حضرت سلیمان عليه السلام نے ا س کو بلا کر معلوم کیا کہ ”ماجرہ کیاتھا اور وہ کہاں گئی تھی“ اس نے بتایا کہ اے اللہ کے نبی آپ جو سمندر کی تہہ میں ایک بڑا کھوکھلا پتھر دیکھ رہے ہیں ، اس کے اندر بہت سے اندھے کیڑے مکوڑے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو وہاں پر پیدا کیا ہے،👇🏻
🕋الله آپکو بہت خوشیاں اور لمبی زندگی نصیب فرمائے آمین کہ آپ قوم سے کئے وعدے پورے کرسکیں آپکو سپورٹ کرنے والا آپ سے ایک اچھی امید رکھتا ہے کیونکہ آپ نے سسٹم کے خلاف بات کی ہے جب آپ ریاست مدینہ کے خواب سے پیچھے ہٹنے والے نہیں اور ہم آپکو بھی اس کرپٹ غلیظ👇🏻
سسٹم کے خلاف لڑنے پر اکیلا چھوڑنے والے نہیں انشاء الله🌹