نِکاح ہوجانے سے , دستخط کردینے سے , بِستر پر سوجانے سے , مرد ہونے کا اعزاز مل جانے سے کوئی مرد نہیں بن جاتا , بلکہ مرد کے معنی ہیں (م) مضبُوط , (ر) روزی کمانے والا , (د) دِلیر , یعنی جو عورت کے اِردگِرد اُسکی مضبُوظ ڈھال بنے , اُسے حلال کی
روزی روٹی دے , اُس کے ہر دُکھ سُکھ میں شریک ہوکر اپنی دِلیری کا مظاہرہ کرے , صِرف وہی مرد اصلی مرد کہلانے کا حقدار ہے - ایک کڑوا سچ, 👇👇👇
کچھ دن پہلے دوست کے ساتھ لاہور کے سروس ہسپتال کا چکر لگا کچھ کام کے
حوالے سے , وہاں میں نے ایک شادی شُدا جوڑا دیکھا جو کہ لگ بھگ مجھے نیا نیا جوڑا لگ رہا تھا , کچھ دیر گزرنے کے بعد میں نے اس لڑکی کے شوہر کے منہ سے ایسے الفاظ سنے کہ بس , اس کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے " بچہ پیدا کر کے تم
کوئی انوکھا کام نہیں کرنے جارہی دنیا کا , میرا سر نہ کھاؤ منہ بند رکھو , اِدھر ہی کھڑے کھڑے مرجاؤ مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا " وہ بیچاری سب چُپ کر کے سنتی رہی پھر اُس کا شوہر ہسپتال کے اندر داخل ہوگیا اور بیوی اُسکی باہر کھڑی
ہوگئی اُس کے انتظار میں.**
**لڑکی کی طبیعت کچھ اس طرح سے تھی کہ وہ پیٹ سے تھی اور شدید تکلیف میں تھی , اُس کی ہمت نہیں ہوپارہی تھی کہ کچھ دیر اور کھڑی ہوجائے , آنکھیں بےہوشی کے عالم میں , جسم بے جان ہوتا
جارہا تھا اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ابھی وہ بے چاری گِر پڑے گی , میں گاڑی سے نکلا اور فوراً بھاگا ایک سیکیورٹی گارڈ کے پاس اور اس سے مِنت کرکے ایک کرسی مانگی اور اُس لڑکی کو لاکر دی , اور اُسے بیٹھنے کو کہا , اُسے پانی والی بوتل پکڑائی
تاکہ وہ آرام سے پانی پی سکے , لڑکی نے میرا شکریہ ادا کیا اور میں واپس گاڑی میں بیٹھ گیا.**
**لڑکی کے شوہر کے الفاظوں نے میرے سینے پر خنجر کی طرح وار کیے لیکن میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں تھا جس کی بنا پر
میں اُسے کچھ بول سکتا , ہوسکتا ہے کہ کئی لوگ پڑھنے والے یہ سمجھیں کہ شاید یہ میرا ٹھرک پن تھا لڑکی کے ساتھ مگر ایسا نہیں ہے , میں نے بس تھوڑی سی مدد کرنا چاہی جو کہ میں نے کی اس کے علاوہ بس یہی کہنا چاہوں گا آج کے بُزدل و احمق
مردوں سے کہ اگر کسی کی بیٹی بدقسمتی سے تمہارے جیسوں کے پلے باندھ دی گئی ہے تو اللہ کے لیے ان کے ساتھ رحمدلی اختیار کرو , اچھا برتاؤ اختیار کرو , اچھا لہجہ و سلوک اختیار کرو , کیونکہ جو تکلیف اُس نے تمہاری نسل کو اُجاگر کرنے
کے لیے 9 مہینے اٹھائی ہوتی ہے تم اُس جیسی تکلیف کو 1 سیکنڈ بھی برداشت نہیں کرسکتے , اور ہاں جیسے کل کو اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے پر آپ کو سُوئی چُبھے گی ویسے ہی آج کے والدین کو
بھی تکلیف ہوتی ہے جو رویہ آپ کسی کی بیٹی کے ساتھ اختیار کرتے ہو.
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
چھوٹی سی کوشش کسی دوسرے کو خوشیاں اور آپ کو دلی سکون دے سکتی ہے
تنخواہ لے کر گھر پہنچتے ہی فوڈ پانڈا والوں کو فون کرکے انہیں ایک چکن بروسٹ، ایک منرل واٹر اور ایک سافٹ ڈرنک کا آرڈر بُک کرایا اور ڈیلیوری کا انتظار کرنے لگا
کُچھ دیر بعد ہی کوئی 21/22 سال کا ایک پیارا سا نوجوان رائیڈر میرے دروازے پر پارسل کے ساتھ موجود تھا
رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پُوچھا بیٹا کہاں تک پڑھے ہو؟
اُس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ھے، میرے
مزید کُریدنے پر بولا کہ اُس کے والد فوت ہوچکے ہیں، خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُسی کے کاندھوں پر آن پڑی ھے، پانچ بہن بھائی ہیں جو چھوٹے ہیں اس لیے مُجھے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی، اب رائیڈنگ کے ذریعے اپنی والدہ اور چھوٹے
ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ہائپر سٹار میں داخل ہوا اور کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ ایک خاتون اس کا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہوگیا۔
لیکن وہ عورت مستقل اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا۔
وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا: خیریت ہے؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی۔
عورت نے یہ کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں امی جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے
امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔
بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ
ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے
ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔
یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین
طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔
" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے
جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز
نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.
ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ
کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو
سلطان_صلاح_الدین_ایوبی_رح کو جب مصر کا گورنر مقرر کیا گیا تو آپ جب مصر تشریف لائے تو کہا گیا: حضور آپ بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں۔
سلطان ایوبی رح نے جواب دیا:
’’میرے سر پر جو دستار رکھ دی گئی ہے
میں اس کے اہل نہ تھا۔ اس دستار نے میرا آرام اور میری نیند ختم کر دی ہے۔ کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے نہیں لے چلیں گے جہاں میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
کیا حضور کام سے پہلے طعام پسند نہیں کریں گے؟‘‘۔
سلطان کے نائب نے تڑنگے قوی ہیکل گارڈز دونوں اطراف کھڑے تھے۔ سلطان انکو دیکھ کر مسکرا اٹھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خوشی زائل ہو گئی جب وہاں چار نوجوان لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے سلطان کے قدموں