امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔
بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ
ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے
ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔
یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین
طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔
" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے
میری طلاق ہو چکی ہے
سب کا باری باری یہی کہنا تھا کہ، "ہاں، آپکی طلاق ہو چکی ہے، اور شریعت کی روشنی سے ملکہ عالیہ اب آپ کی زوجہ نہیں رہیں۔۔۔
لیکن اِس محفل میں ایک نوجوان مفتی بھی موجود تھے، وہ ایک طرف ہو کر بالکل
خاموش بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے اُن سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں نے عرص کیا، "جناب، یہ طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ آپ نے مشروط طور پر کہا تھا، کہ اگر میں جہنمی ہوں تو میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں، اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ آپ جہنمی ہیں کہ نہیں ہیں، آپ کو اگر کوئی شخص
جنتی ہونے کی ضمانت دے دے تو آپکی یہ طلاق نہیں ہوگی۔"
بادشاہ سلامت نے جوشیلے انداز میں پوچھا، "لیکن مجھے اِس چیز کی ضمانت کون دے گا۔۔۔
سب علماء کرام نے اِس سوال کے جواب پر اپنے سر جھکا لیے، کہ دنیا میں کون شخص
جنتی ہے اور کون جہنمی ہے اِس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔
نوجوان مفتی نے جب تمام علماء کرام کو خاموش دیکھا تو وہ بادشاہ سلامت سے مخاطب ہوئے، "بادشاہ سلامت میں آپکو یہ گارنٹی دے سکتا ہوں، لیکن اِس کیلئے میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر آپکا
جواب "ہاں" ہوا تو میں آپکو جنتی ہونے کا ضمانت نامہ دے دونگا۔۔"۔ بادشاہ نے کہا، "ہاں، پوچھو۔۔۔،
نوجوان مفتی نے پوچھا، "کیا آپکی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع آیا تھا، کہ آپ گناہ پر قادر تھے، لیکن آپ نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے وہ گناہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔
بادشاہ نے سر اُٹھایا اور کہا، "ہاں، ایک بار ایسا ہوا تھا، میں اپنی خوابگاہ میں داخل ہوا تھا اور وہاں ایک نوکرانی صفائی کر رہی تھی، وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی، میں بھٹک گیا، میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ میں غلط نیت سے اُس لڑکی کی طرف بڑھا تو اُس نے رونا شروع کر دیا، اور
وہ چلّا کر بولی،
"اے بادشاہ اللّٰہ سے ڈرو، وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے"۔
میں نے جب یہ سنا تو میرے اُوپر اللّٰہ تعالیٰ کا خوف طاری ہو گیا۔ میں اگرچہ بادشاہ تھا، وہ لڑکی میرے کمرے میں تھی، میں نے دروزے کو اندر سے کنڈی لگائی ہوئی تھی،
اور اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت مجھے بُرائی کرنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ لیکن میں نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے دروازہ کھول دیا، اور اُس لڑکی کو جانے کی اجازت دے دی۔۔۔"
یہ سب سن کر وہ نوجوان مفتی مسکرائے اور اُنہوں نے قرآن پاک کی سورہ النٰزعٰت
کی آیت نمبر 40 اور 41 کی تلاوت فرمائی،
"وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ o فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ"
ترجمہ: جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اُس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچا لیا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہوگا
اِس کے بعد نوجوان نے بادشاہ سلامت سے کہا، "میں آپکو ضمانت دیتا ہوں کہ آپ جنتی بھی ہیں، اور آپکی طلاق بھی نہیں ہوئی۔
عزیز احباب
مسلمان ہونے کے ناطے ہم ہر وقت جنت کے متلاشی تو ہوتے ہیں، لیکن آپ اِس واقعے سے اندازہ لگائیے کہ جنت تو ہر وقت ہمارے
سامنے موجود ہوتی ہے، اِس کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ، ہم خوفِ خدا کی وجہ سے ہر اُس گناہ سے توبہ کریں جس کو کرنے کی ہمارے اندر طاقت اور قدرت موجود ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خوف میں مبتلا رکھے
اور ہر قسم کے گناہ سے بچائے رکھے۔۔۔
آ مین یارب العالمین
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
ایک دن اسلامی لشکر کا امیر اپنی عادت کے مطابق نماز پڑھا کر اپنے خیمے کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھی عورت نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کادامن پکڑ لیا اور کہا: ”یا امیر یا امیر امیری فریاد سنتے جانا میری بات کو غور سے سننا ۔
امیر نےایک نظر بوڑھی عورت کی طرف دیکھا اور وہیں رک گیا۔ امیر کے محافظوں نے بوڑھی عورت کو
امیر کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کوشش مگر امیر نے سپاہیوں کو روک دیا اور کہا: ”اس
بوڑھی عورت کو نہ روکو۔ میں اس کی فریادضرور سنوں گا۔“ پھر امیر بوڑھی
عورت کی طرف بڑھا
اور کہا: ”اماں جان! آپ اپنا مسئلہ بتائیں ۔“ بوڑھی عورت نے کہا: آپ مجھے یہ بتائیں کہ
میرا بیٹا کہاں ہے؟ امیر نے چہرے پر پریشانی کے تاثرات لاتے ہوئے کہا: آپ کا بیٹا؟
بوڑھی عورت نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
چھوٹی سی کوشش کسی دوسرے کو خوشیاں اور آپ کو دلی سکون دے سکتی ہے
تنخواہ لے کر گھر پہنچتے ہی فوڈ پانڈا والوں کو فون کرکے انہیں ایک چکن بروسٹ، ایک منرل واٹر اور ایک سافٹ ڈرنک کا آرڈر بُک کرایا اور ڈیلیوری کا انتظار کرنے لگا
کُچھ دیر بعد ہی کوئی 21/22 سال کا ایک پیارا سا نوجوان رائیڈر میرے دروازے پر پارسل کے ساتھ موجود تھا
رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پُوچھا بیٹا کہاں تک پڑھے ہو؟
اُس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ھے، میرے
مزید کُریدنے پر بولا کہ اُس کے والد فوت ہوچکے ہیں، خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُسی کے کاندھوں پر آن پڑی ھے، پانچ بہن بھائی ہیں جو چھوٹے ہیں اس لیے مُجھے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی، اب رائیڈنگ کے ذریعے اپنی والدہ اور چھوٹے
ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ہائپر سٹار میں داخل ہوا اور کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ ایک خاتون اس کا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہوگیا۔
لیکن وہ عورت مستقل اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا۔
وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا: خیریت ہے؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی۔
عورت نے یہ کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں امی جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے
نِکاح ہوجانے سے , دستخط کردینے سے , بِستر پر سوجانے سے , مرد ہونے کا اعزاز مل جانے سے کوئی مرد نہیں بن جاتا , بلکہ مرد کے معنی ہیں (م) مضبُوط , (ر) روزی کمانے والا , (د) دِلیر , یعنی جو عورت کے اِردگِرد اُسکی مضبُوظ ڈھال بنے , اُسے حلال کی
روزی روٹی دے , اُس کے ہر دُکھ سُکھ میں شریک ہوکر اپنی دِلیری کا مظاہرہ کرے , صِرف وہی مرد اصلی مرد کہلانے کا حقدار ہے - ایک کڑوا سچ, 👇👇👇
کچھ دن پہلے دوست کے ساتھ لاہور کے سروس ہسپتال کا چکر لگا کچھ کام کے
حوالے سے , وہاں میں نے ایک شادی شُدا جوڑا دیکھا جو کہ لگ بھگ مجھے نیا نیا جوڑا لگ رہا تھا , کچھ دیر گزرنے کے بعد میں نے اس لڑکی کے شوہر کے منہ سے ایسے الفاظ سنے کہ بس , اس کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے " بچہ پیدا کر کے تم
جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز
نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.
ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ
کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو