سلطان_صلاح_الدین_ایوبی_رح کو جب مصر کا گورنر مقرر کیا گیا تو آپ جب مصر تشریف لائے تو کہا گیا: حضور آپ بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں۔
سلطان ایوبی رح نے جواب دیا:
’’میرے سر پر جو دستار رکھ دی گئی ہے
میں اس کے اہل نہ تھا۔ اس دستار نے میرا آرام اور میری نیند ختم کر دی ہے۔ کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے نہیں لے چلیں گے جہاں میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
کیا حضور کام سے پہلے طعام پسند نہیں کریں گے؟‘‘۔
سلطان کے نائب نے تڑنگے قوی ہیکل گارڈز دونوں اطراف کھڑے تھے۔ سلطان انکو دیکھ کر مسکرا اٹھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خوشی زائل ہو گئی جب وہاں چار نوجوان لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے سلطان کے قدموں
میں پتیاں بکھیرنی شروع کر دیں۔ اور ساتھ ہی دف، طاوس و رباب اور شہنائیاں بجنے لگیں۔
سلطان نے پھولوں کی پتیاں دیکھیں تو قدم روک لئے۔
’’صلاح الدین ایوبی پھولوں کی پتیاں مسلنے نہیں آیا‘‘۔
سلطان نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو ان لوگوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
’’اگر میری راہ میں کچھ پچھانا چاہتے ہو تو وہ ایک ہی چیز ہے جو میرے دل کو بھاتی ہے‘‘۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
آپ حکم دیں‘‘۔ نائب نے کہا۔
صلیبیوں کی لاشیں”۔ سلطان نے مسکرا کر
کہا لیکن اگلے ہی لمحے سلطان کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔
’’مسلمان کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔۔۔جانتے ہو صلیبی سلطنت اسلامیہ کو چوہوں کی طرح کھا رہے ہیں؟۔ اور جانتے ہو وہ کیوں کامیاب ہو رہے ہیں؟صرف
اسلئے کہ ہم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کر دیا ہے۔۔ میری نظریں فلسطین پر لگی ہیں،اور تم میری راہ میں پھول بچھا کر مصر سے بھی اسلام کا پرچم اْتروا دینا چاہتے ہو؟
سلطان نے ایک نظر سب کو دیکھا اور دبدبے سے کہا
”آْٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے میں نے ان پر قدم رکھا تو میرح روح کانٹوں سے چھلنی ہو جائے گی۔ہٹا دو ان لڑکیوں کو میرے راستے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری تلوار انکے دلکش بالوں میں اْلجھ کر بیکار ہو جائے۔”
حضور کی جاہ و حشمت
مت کہو مجھے حضور۔ سلطان نے بولنے والے کو یوں ٹوکا جیسے کسی کافر کی گردن کاٹ دی ہو۔مزید کہا:
"حضور وہ ہیں جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو۔ اور جن کا میں غلام بے دام ہوں۔ میری جان فدا ہو اْس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کندہ کر رکھا ہے۔ میں یہی پیغام لے کر مصر آیا ہوں۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہء روم میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔ شراب میں غرق کر دینا
چاہتے ہیں۔ میں بادشاہ بن کر نہیں آیا۔
منقول
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
اپنے والد صاحب کے سامنے دوپٹہ لینا نہیں سیکھا تو میرا خیال ہے کہ یہ سب ڈگریاں اور سب سندیں بے معنی ہے
اور اگر آپ نیچے کومنٹس پڑھیں تو آپ کو سب مبارک باد دینے والے نظر آئیں گے
کیا کسی نے مذمت کی کہ ممبر پارلیمنٹ کی بیٹی والد کے سامنے دوپٹہ لینا چاہیے
تاکہ وہ دوسروں کے لئے بھی سبق ہو اور نصیحت بھی
نہیں بھائی نہیں بڑے لوگوں میں ہمیں کوئی برائی نظر نہیں ہم تو صرف اپنے جیسے لوگوں پر ہی تنقید کر سکتے ہیں سوشل میڈیا پراسلامی قانون نافذ کرنے کے لیے شور مچا سکتے ہیں لیکن عملی قدم ہم نے
نہیں اٹھانا میں تو صرف تحریری شائع کرتا رہتا ہوں اور ان میں جو تصویریں ہوتی ہیں وہ بھی فرضی ہوتی ہیں جن سے میرا لینا دینا نہیں ہوتا اگر ابھی میں ایسے کسی تحریر کے ساتھ تصویر لگا لو جس میں لڑکی نے پردہ نہ کیا ہو تو نیچے مجھے درس دینے والے ہزاروں لوگ ہوں گے لیکن
ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص
اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر
پہنچے، وہ زانی شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
مجھے ایک ایسی خاتون کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا جو "Uber" کی گاڑی چلاتی تھی۔ میرے بہت شش و پنج میں تھا جب میں نے اسے کال کی بہرحال وہ مجھے لینے کے لئے پہنچی تو میں نے اس سے پوچھا ----
"میں آگے بیٹھوں یا پیچھے "
تو اس نے کہا آگے بیٹھ جائیں ۔
میں پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گیا۔ کچھ خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی تو کہنے لگی کہ
"آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے پوچھا اور پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد مجبور عورت کا
فائدہ اٹھاتے ہیں "
وہ مجھے بتانے لگی کہ اکثر لوگ جو میرے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو جب میں گئیر لگاتی ہوں تو وہ مجھے جان بوجھ کر کہنی سے چھونے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ
دُنیا اپنی روانگی میں مسلسل چل رہی ہو گی کہ اچانک ایک زور دار آواز سے سب کچھ فنا ہوجائے گا سوائے ربِ العزت کے، پھر دوسری بار آواز آئے گی اور ساری کائنات اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر ننگے بدن، ننگے پاؤں میدانِ محشر کی طرف
دوڑیں گے، جو شام کے علاقے کی طرف سجایا جائے گا۔
ہر انسان اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اٹھے گا، ہر ایک کو دو فرشتے پکڑیں گے اور میدانِ محشر میں لے جائیں گے۔ سب میدانِ محشر میں پہنچیں گے، سورج ایک میل کے فاصلے سے تپش پھینک رہا ہوگا۔ سب لوگ
اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔
پچاس ہزار سال کا یہ ایک دن بہت سخت ہو گا۔لوگوں کی حالت ایک نشہ کئے ہوئے شخص کی طرح ہو گی۔
ہر نبی اپنا حوض لگا کر اپنی اپنی اُمت کو پانی پلائے گا۔ نبی کریم ﷺ بھی اپنی اُمت کو سوائے کافروں،
یہ ہیں وہ تین سائنس دان جنہوں نے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی دریافت کی اور لاکھوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے اور لیور کینسر میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔ان تینوں کو اس سال نوبل پرائز ونر قرار دیا گیاہے۔ہماری اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں
اڑنے والی گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں، وہاں آج بھی لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ بیماری ایسی چیز ہے کہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی لیکن دوا اور چارہ جوئی انسان کے اختیار میں دی گئی ہے۔میں دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دانوں کی قدر کرتی ہوں،
خاص طور پر وہ جو بیماری پر کام کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگیاں تیاگ دیتے ہیں، کمروں میں بند رہتے ہیں، کتابیں کھاتے پیتے، اور علم کی عبادت کرتے ہیں۔انہیں انسٹا، فیس بک، فیشن، ہوٹلنگ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا، انہیں بس انسانیت