مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی اُسکو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا!
وہ ایک مرتبہ نہانے کہ بعد کپڑے بدل کر اپنے بال سنوار رہی تھی. آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے آپ پہ بہت فریفتہ تھی کہ میں بہت حور پری ہوں.
خاوند کو جب دیکھا تو اُس نے بڑے ناز
نخرے سے بات کی کہ ہے کوئی مرد ایسا جو مجھے دیکھے اور میری تمنا نہ کرے؟ تو خاوند نے کہا ہاں! ہے"عبید بن عمیر" یہ مسجد نبوی میں مدرس اور خطیب تھے۔
تو میاں بیوی کا تعلق عجیب سا ہوتا ہے آگے سے کہنے لگی تو دے مجھے اجازت میں
تجھے دیکھاتی ہوں وہ پھسلتا کیسے ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے میں اجازت دیتا ہوں . عورت کو اجازت مل گئی اور وہ نکلی، پھر مسجد کے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی.
اب جب مولانا عبید بن عمیر رحمہ اللہ مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر
نکلے تو عورت نے پہلے اس طریقے سے بات کہی جیسے کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے کھڑی ہو. تو مولانا کھڑے ہو گئے. اس دوران اس نے اپنے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا.
اُسکا خیال یہ تھا کہ جب وہ میرے حسن و جمال کو دیکھیں گے تو فریفتہ ہو جائیں
گے، جسے ہی اس نے ایسا کیا تو اُنہوں نے نظر ہٹا دی اور کہا !
"دیکھو! کیوں ایسے کام کے بارے میں سوچتی ہو جس سے تمہیں دنیا میں بھی ذلّت ملے گی اور آخرت میں بھی ذلّت ملے گی"
اب یہ الفاظ انکے منہ سے اتنے درد سے
نکلے وہ شرما گئی اور واپس آ گئی.
شوہر نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگی!
"کیا مرد ہی نیک ہوتے ہیں؟ عورتیں نہیں نیک ہو سکتی! میں بھی نیک بنو گی"
اُسکی زندگی بدل گئی اُسکے بعد روز وہ خاوند سے پوچھتی عشاء کے وقت کہ
تمہیں میری ضرورت ہے؟ اگر کہتا ہاں تو وہ وقت خاوند کے ساتھ گزارتی اور اگر وہ کہتا نہیں تو جبّا پہن لیتی اور ساری رات مسلے پہ عبادت کرتی..
اُسکا خاوند کہا کرتا تھا! " پتا نہیں عبید بن عمیر نے ایک فقرہ بول کہ میری بیوی کو نیک کیسے بنا دیا "
شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے!
تو یہ کیفیتیں اُن کی اس لیے تھیں کہ پروردگار عالم نے اُن کے دلوں میں اک اثر ڈالا ہوا تھا، ایمان کامل اُن کے دلوں میں تھا اور یہ نہیں کے صرف بڑے لوگوں کو یہ حال تھا بچوں کا بھی یہی حال تھا.
ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ جا رہا تھا اُس نے راستے میں آم کا باغ دیکھا جس میں پکے ہوئے آموں سے درخت لدے ہوئے تھے ، بچے کے باپ کی نیت میں فتور آگیا، اس نے بیٹے کو بولا، میں باغ میں آم توڑنے جاتا ہوں، تم یہیں کھڑے رہو اور اگر کوئی نظر
آیا تو مجھے آواز دے دینا، اور باپ باغ میں آم چوری کرنے چلا گیا چنانچہ جسے ہی خوشے کے قریب پہنچا تو بچے نے پیچھے سے آواز لگا دی.
"اے ابا جان اے ابا جان! کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے "
تو وہ گھبرا گیا اور ویسے ہی واپس آگیا، آ
کے دیکھا تو گلی میں تو کوئی بھی نہیں تھا، وہ بیٹے کی اس حرکت کو دیکھ کر سخت غصہ ہوا اور بولا یہاں تو کوئی بھی موجود نہیں جو ہمیں دیکھ رہا ہو؟ بیٹے نے کہا، ابّا جان! انسانوں میں سے ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا مگر انسانوں کا پروردگار تو
ہمیں دیکھ رہا ہے.
چھوٹا بچہ دس سال کی عمر ہے تقریبآ اُسکا بھی یقین ایسا بن گیا تھا.
اور یہ یقین خود بخود نہیں بنتا تھا ماں باپ بناتے تھے.
داؤد تائی رحمتہ الله علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں بڑے محددث بھی تھے اور فقیہہ بھی
تھے اور مشائخ و صوفیا میں سے تھے امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ کے ہاں جو خاص شاگرد تھے نا چالیس جو فتویٰ لکھنے میں اور مشورہ دینے میں کام آتے تھے جو مجلس مشاورت تھی یہ اُس میں سے ایک تھے، بہت تقویٰ کے پہاڑ تھے وہ اپنے بارے
میں خود بتلاتے ہیں کہ میری عمر پانچ سال کی تھی تو میرے ماموں گھر آئے اور کہنے لگے کہ "داؤد الله کو یاد کر لیا کرو" میں نے کہا کیسے یاد کروں ماموں کہنے لگے جب تم سونے لگو نا بستر پہ تو اُس وقت تم یہ کہہ لیا کرو کہ!
"الله میرے ساتھ ہے، الله مجھے دیکھتا ہے
بس یہ کہہ دیا کرو پھر سو جایا کرو"
وہ کہتے ہیں میں نے کہنا شروع کر دیا . پھر کچھ عرصے بعد ماموں سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے الله کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں! وہ کہتے اتنا ہی کافی نہیں بلکہ اب کچھ زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو تو پھر
کہنے لگے میں سونے سے پہلے "الله مجھے دیکھتا ہے، الله میرے ساتھ ہے" آنکھ بند ہونے تک کہتا رہتا..
اب جو بات بندہ روز کرتا رہے اُسکا دل پے اثر تو ہوتا ہے.
وہ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا ان الفاظ کے بار بار کہنے اور دھرنے سے میرے دل میں الله سبحانہ و تعالیٰ کا ایسا استحضار آگیا کہ بچپن میں ہی دل میں یہ خیال پختہ ہو گیا کہ میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی
زندگی بھر کوئی نافرمانی نہیں کرنی.
الله اکبر! بچوں کا والدین کس قدر پختہ یقین بنایا کرتے تھے
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا،، میں نوٹ
کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا...
دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر
میرا پاؤں ہٹایا‘ نوٹ اٹھایا‘ نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا...
ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گرجاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی
پچھلے دو دنوں میں عہد وفا مکمل ڈرامہ دیکھا اور ڈرامے میں ہمارے ملکی نظام کے متعلق کچھ چیزیں جاننے کا موقع ملا۔
1۔ ایک فوجی جتنا ملک سے اور قوم سے مخلص ہوتا اتنا محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔۔ایک سپاہی کو جب وطن پر جان قربان کرنے کا موقع ملتا ہے وہ پیچھے ہٹنے
کے بجائے سبز ہلالی پرچم پر جان قربان کرنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے
2۔ تمام بیوروکریٹ نا اہل نہیں لیکن کوئی بیوروکریٹ کام کرنا چاہے تو اس سے اوپر والے افسر کام کرنے کے بجائے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایماندار افسر بھی کرپٹ نظام میں پھس
جاتا ہے۔
3۔ تمام اینکر پرسن اور میڈیا ورکر کرپٹ نہیں لیکن تمام میڈیا مالکان ضرور کرپٹ ہیں جو سچ دکھانے کہ بجائے اپنے مفادات کے مطابق اپنے چینل اور اینکرز کو آپریٹ کرتے ہیں۔
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں پھوٹی کوڑی کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً
میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
دنیا کا پُرانا ترین سکہ یہی پھوٹی کوڑی ہے۔ یہ پھوٹی کوڑی کوڑی یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں
کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ پھوٹی کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا پھوٹی کوڑی کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا
ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی
آفیسر ، پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ۔
وہ کچھ خاموش ہو گئے.
پھر لنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ھے
اور یہ بہت خطرناک ھے...
ایوب خان صرف مسکرا دیے۔ کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ھے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت
لاہور کے شاہ عالم چوک میں ایک ایسی مسجد واقع ہے جسے ایک رات میں تعمیر کیا گیا تھا- اس مسجد کی اتنے قلیل وقت میں تعمیر کی وجہ اور واقعہ بھی انتہائی دلچسپ اور ایمان افروز ہے-
تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے دور میں اس مقام سے ایک مسافر کا گزر ہوا اور اس
نے یہاں نماز ادا کی جبکہ یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثریت کا حامل تھا- ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی-معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور وہاں ہندوؤں کا مؤقف تھا کہ اس جگہ پر مندر تعمیر ہوگا جبکہ
مسلمان یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے- اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل نے انہیں تجویز دی کہ اگر وہ یہاں صبح فجر سے پہلے مسجد تعمیر کرلیتے ہیں تو کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہو جائے گا- مسلمانوں کی جانب سے اس کیس کی
جب میں پہلی بار تیزگام میں سوار ہوا
اور پہلے سے موجود مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے
تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیزگام گاڑی ہے دینہ میں نہیں رکتی
دینہ سے گزرے گی مگر رکے گی نہیں
یہ سن کر میں گھبرا گیا
مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں
دینہ اسٹیشن میں روز یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے
تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین سلو ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اترنا اور آگے کی
طرف بنا رکے دوڑتے ہوئے کچھ دور جاناجس طرف ٹرین جا رہی ہے
اس طرف ہی دوڑنا تو تم گروگے نہیں
دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا