#SearchTheTruth @SearchTheTruth5
🚨قرآن کی عریاں تحریف کرنا والا طبقہ🚨
از📚 مرتب سہیل باوا لندن
جب کوئی گروہ قرآن کے صراطمستقیم سے عمدً وعملاً انحراف کرتا ہے تورسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہی*۔
مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں نے
قرآن کریم کی عریاں تحریف پر صرف قناعت نہیں کی بلکہ خاتم الانبیاء ﷺ کے مقدس خطاب اور لقب پر بھی چھاپہ مارا ہے ان لوگوں کو محکمات کو متشابہات اور متشابہات کو محکمات بناکر قرآن کریم کی روح کو مجروح کرنے کی چاٹ پڑ گئی ہے۔
آج راقم قارئین کو ایک کھناؤنے فتنے کے فتیلۂ سوزاں کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔
ایک مرزائی سے سوشل میڈیا پر ایک طویل مراسلت میں ایک *سوال کیا گیاکہ قرآن کریم میں حضور ﷺ *کا اسم مبارک کتنی بار آیا ہے۔۔
-جواب: چار دفعہ- مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ
عَلَى الْكُفَّا رِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ-
تبصرہ: جواب میں صرف چار کہاہے کیونکہ سورۃ الصف کی ساتویں آیت کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کر دیا وہ آیت یہ ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام نے پیش گوئی کی تھی :
"إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ " اس آیت میں احمد سے مراد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
لیکن منکرین کے سربراہ ثانی نے اپنی دیوار گریہ کو سہارا دینے کے لیے اس کو اپنے باپ مرزا غلام احمد پر چسپاں کر دیا اور یہ اب تک اس منکر گروہ کا عقیدہ ہے ایک عامی بھی جانتا ہے کہ احمد سے کسی بھی طرح غلام احمد مراد نہیں ہوسکتا ہاں! افترا کے لیے ہر دروازہ کھلا ہے۔
*ایک سوال اور بھی کیا گیا کہ
قران كريم میں جن جن انبياء علیہ السلام کے اسماء کا ذكر ہے بيان کریں -جواب: حضرت آدم علیہ السلام سے فہرست شروع کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے بعد لکھا ہے
*حضرت احمد علیہ السلام (اس سے ان کی مراد مرزا غلام احمد ہے)
منکرین ختم نبوت مرزا غلام احمد کو حضرت احمد علیہ السلام تسلیم کرتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ قرآن کریم میں درج ہے عیاذ باللہ۔ دراصل یہ قرآن کریم میں اضافہ کی ابلیسی جسارت ہے
اصل میں یہ افتراء مذکورہ بالا آیت سے تراشا گیا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے "مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد۔" کہہ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارک کی بشارت خدا کی طرف سے دی تھی جسے اظہر من الشمس ہے
کہ یہ لوگ "غلام احمد" کو احمد تسلیم کرکے نہ صرف انبیاء کی صف میں کھڑا کرتے ہیں بلکہ اس کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر کھڑا کرتے ہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کو افضل قرار دینے کی ملعون کوشش کرتے ہیں
کہ اس کے نہ ماننے سے کفر لازم آتا ہے اسی وجہ سے علامہ اقبال رح نے فرمایا تھا کہ اس طرح تو مرزا غلام احمد اپنے مریدوں کے نزدیک خاتم النبیین ہوا۔ عیاذباللہ خشیۃاللہ بالائے طاق رکھ کر امت محمدیہ کو کافر قرار دیتے ہیں۔
اس طرح ان کا عیارانہ انداز کے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی "غلامی" سے حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق بنا، فحش اورفالش الفاظ ضلالت ہے۔
احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کو غصب کرنا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج کرنا ہے
ایسے آدمی کو غلام احمد کہنا ایسی ہی بات ہے جیسے اللہ تعالی کے بے باک منکر کو "غلام اللہ" کہا جائے
کہاں حضرت احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور کہاں مرزا غلام احمد چہ نسبت خاک رابعالم پاک۔۔۔۔۔🔘📢🚨
#SearchTheTruth @SearchTheTruth5
⚖قرآن وحدیث کا فی ہے کسی نئے قانون کی ضروت نہیں⚖🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳🏳
سلطان صلاح الدین رحمة الله علیہ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ جب وہ فتوحات سے فراغت کر چکے تو وزارء نے ان سے کہا کہ عسائی رعایا کے واسطے ایک قانون سخت بنانا چاہئے
کیونکہ یہ لوگ بدون سختی کے باز نہیں آتے اور قانون اسلام نرم ہے اس سے مفسد لوگ دب نہیں سکتے ۔آپ نے فرمایا کہ قرآن وحدیث کا فی ہے کسی نئے قانون کی ضروت نہیں ۔خدا تعالیٰ کو پہلے سے سب کچھ معلوم تھا کہ مفتوحات اسلامیہ کی رعایا کس قسم کی ہوگی ۔
انہوں نے اپنے علم سے یہ قانون نازل فرمایا ہے ۔اس لئے ہمارے نزدیک قانون اسلام ہرقسم کی رعایا کے واسطےکافی ہے ۔اور فرض کرلوکہ وہ کافی نہیں تو ہم تو رضائے حق مطلوب ہے بقائے سلطنت مطلوب نہیں ہے ۔اگر قانون اسلام رائج کرنے سے سلطنت جاتی رہیگی
اہل علم حضرات جانتے ہیں، کہ مرزا قادیانی اپنے قلم سے جو کچھ لکھ گیا ہے، ان میں زیادہ تر اپنے مخالفین کے بارے میں دعوے ، دھمکیاں اور گالیوں کے وہ وہ دفتر قائم کر گیا ہے،
کہ الامان الحفیظ، اپنے نہ ماننے والوں کے لئے گالیاں، محمدی بیگم مرحومہ سے نکاح کی بات ہو، یا پادری آتھم کی موت کا سندیسہ ہو ، یا مولانا ثنا اللہ امرتسری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے موت کا پیغام ہو، یا مختلف اقسام پیشنگوئیاں ہوں،
یا مختلف قسم کے دعوے ہوں، ان میں ایک بات صاحبِ علم حضرات کو مشترک نظر آئ گی، کہ ایسی تمام باتیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جھوٹی ثابت ہوئیں، جن جن پر مرزا قادیانی کو اپنے سچا ہونے کا دعویٰ تھا، اور جب موقع کی مناسبت سے ان باتوں پر مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کی گرفت
1️⃣ ۔ فکر غامدی گروپس قرآن و سنت دلیل و برہان اور عقل و دانش کی بنیاد پر سیکھنے سکھانے کا سلسلہ ہے .
2️⃣ ۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو خلاف شریعت اور خلاف حقیقت باتیں کی ہوتی ہیں ان پوائنٹس کو ہم آپ کی خدمت میں ایک سیریز کی شکل میں پیش کرنے کی
کوشش کرتے ہیں تاکہ ایک موضوع کو مختلف پہلوؤں سے ایک مکمل شکل میں پیش کر دیا جائے اور معزز ممبران کے ذہن میں کسی قسم کی کنفیوژن باقی نہ رہے ۔
3️⃣ ۔ یہ معلومات خالص اکیڈمک بنیادوں پر آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں تاکہ ہمارے معزز ممبران فکر غامدی کو علمی بنیادوں پر سمجھ کر اس کا
صحیح تجزیہ کر سکیں ۔
4️⃣ ۔ ابھی تک ہم نے محرمات خمسہ ، اقسام حج اور قادیانیت نوازی جیسے مختلف عنوانات پر کچھ گذارشات آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں ۔
5️⃣ ۔ قرآن وسنت کے بعد اجماع امت ایک شرعی سورس ہے اور تیسری دلیل ہے ، جسے غامدی صاحب بدعت قرار دے کر تسلیم نہیں کرتے
🗞لندن🗞
📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎📎
مرزا بشیر الدین قادیانی بڑے تکبر سے کہا کرتا تھا کہ ہم برسر اقتدار آئیں گے تو مولانا احتشام الحق رحمة الله
،مفتی شفیع رحمة الله،عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله وغیرہ اور فلاں اور فلاں میرے سامنے اس طرح پیش ہوں گے جس طرح ابوجہل فتح مکہ کےدن ہوا ،مرزا بشیر الدین قادیانی کتنا بڑا جاہل تھاکہ فتح مکہ دن تو ابو جہل کا نام نشان بھی نہیں تھا
مرزا بشیر الدین قادیانی سے لیکر آج پانچویں مرزامسرورتک کسی میں اتنی جرات نہ ہوسکی کہ کسی بھی ختم نبوت کے سپہ سالار کاسامنا کر سکے بلکہ مرزاناصر قادیانی پاکستان کی پوری قومی اسمبلی کے سامنے اور آج پوری دنیا میں قایانیت ابوجہل کی طرح رسوا ہورہی ہے،
حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ہندوستان میں رام پور جیل میں تھے، جیل میں اناج دیا گیا کہ ان کا آٹا پسواو ،
کہا گیا عطاء اللہ تم باغی ہو اس لئے تمہاری یہی سزا ہے کہ تم آج چکی پیسو۔
عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے مزہ آیا، میں نے رومال اتار کر رکھ
دیا، وضو کرکے بسم اللہ پڑھ کر میں نے چکی بھی پیسنی شروع کر دی، اور ساتھ میں سورہ یاسین کی تلاوت بھی شروع کر دی۔
عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے قرآن کو آواز کے ساتھ پڑھنا شروع کیا
تو اس وقت جیل کا سپریٹینڈینٹ قریب تھا وہ نکل کر آیا اور قریب آکر روتا ہوا کھڑا ہو گیا اور جیل کا دروازہ کھلوا دیا،
کہنے لگا،
عطاء اللہ تجھے تیرے نبی کی قسم، بس کر