پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی۔
واپس کابل آیا، سوچ رہا تھا اتنا سارا پڑھ لیا ہے اب تو صدر کے بعد سب سے بڑی کرسی مجھے ملے گی!
کافی عرصہ نوکری کیلئے دفتروں کی خاک چھانی، نوکری نہیں ملی۔ کچھ تو کرنا تھا اس لئے ایک کار سروس سٹیشن کھولا۔ رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا مگر میں اپنے آپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہو جائے گا۔
سروس سٹیشن بہت خستہ حال تھا۔
شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا، کابل کی یخ بستہ اور تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتے اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی راحت محسوس ہوتی تھی۔
آئے روز خوبصورت کاریں لاتے اور مجھ سے
دھلاتے تھے اگرچہ میرے ساتھ اور بھی لوگ کام کرتے تھے مگر ان کی کاریں ہمیشہ میں خود صاف کرتا تھا۔
سخت سردی کا موسم تھا۔ کابل کی یخ بستہ ہوائیں جسم کے آرپار گزرتی تھی میں پلاسٹک والی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ چچا زاد آئے گاڑی کھڑی کی
اور صفائی کا کہا۔
میں نے دیکھا گاڑی اندر سے پوری طرح گوبر، گھاس سے بھری پڑی ہے۔
خدا جانے مگر میرا گمان یہ تھا کہ یہ انھوں نےخود ہی جان بوجھ کے گندی کی ہے تاکہ میں صاف کروں اور وہ دیکھ کر سکون پائے!
میرے ساتھ کام کرنے والے گاڑی کی طرف لپکے، میں نے انھیں منع کیا، مطلب یہ تھا کہ اب چچا زاد بھائی ہے وہ تو صرف اس لئے آیا ہے کہ مجھے صفائی کرتے ہوئے دیکھے۔ میں نے بھائی کو بٹھایا اور ان کیلئے چائے کا آرڈر دیا۔
اور خود گاڑی واش کرنے لگا۔
کام بہت سخت تھا، میری آنکھیں بھر آئیں مگر کام کرتا رہا اور ان کی گندی گاڑی صاف کی۔
چچا زاد بھائی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے باہر آئے اور کہا اچھی طرح صاف کرنا! اگر سچ پوچھے تو بہت ہی کٹھن حالت تھی مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کے
امیدوں پر پانی پھیروں۔
*کچھ دنوں بعد*
کار اچھی طرح دھوئی، کار کا مالک کافی مضطرب تھا. میں نے سوچا شاید گاڑی اچھی طرح صاف نہیں ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ انھوں نے کہا میں طالب علم
ہوں اور میرا امتحان ہے۔
عجیب بات یہ تھی کہ وہ معاشیات کا طالب علم تھا اور دوسری طرف میں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
میں نے پوچھا کس مضمون کا پرچہ ہے؟
انھوں نے کہا “اکاؤنٹنگ"
میں نے کہا تم سامنے اس روم میں جاؤ
میں آتا ہوں۔
میں نے انھیں چھ ماہ کا سبق پندرہ منٹ میں سمجھا دیا!
کہا یہ گاڑی آپ نے دھوئی ہے؟
میں نے کہا ہاں جی! زندگی ہے کام تو کرنا ہے نا!
میں نے انھیں اپنی پڑھائی کے بارے میں بتایا
وہ حیران تھا!
اب وہ ضد کرنے لگا کہ آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا، ہماری یونیورسٹی کے وی سی میرے دوست ہیں۔
میں ان سے بات کرتا ہوں وہ آپ کو ضرور نوکری دے گا۔
میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو انھوں نے میرے میلے کچلے کپڑے دیکھ کر استفسار
کیا کوئی اور کپڑے نہیں ہیں آپ کے پاس؟
میں نے کہا نہیں، مجھے پتہ ہے نوکری کسی نے دینی نہیں یہ تو بس آپ ضد کر رہے ہیں اس لئے تمہارے ساتھ جانے لگا ہوں۔
گیلے کپڑے زیب تن کئے ہوئے میں وی سی آفس کے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ آفس
میں قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا مگر میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ اس پر بیٹھوں۔
وی سی مجھے مستری سمجھا، میں نے ایک کپڑا لیا صوفے پر رکھا اور بیٹھ گیا۔
طالب علم نے میری کہانی انھیں سنائی۔ انھوں نے تمسخرانہ نظروں سے مجھے گھورا۔
جان چھڑانے کی خاطر انھوں نے کہا تم ڈیمو کیلئے تیاری کرو ہم تمہیں کال کریں گے۔
میں نے کہا میں ابھی بھی ڈیمو کیلئے تیار ہوں!
انھیں میرا یہ انداز اچھا نہیں لگا مگر پھر بھی انھوں نے فون اُٹھایا، سب ٹیچرز کو اس کلاس روم میں بلاؤ کہو ڈیمو ہے!
انھوں نے مجھے ایک مارکر پکڑایا میں نے دو مارکر اور مانگے۔
کلاس پوری طرح بھری تھی۔ میں نے سلام کیا۔ میرے کپڑے دیکھ کر تمام طلبہ مسکرا رہے تھے۔ حکم ہوا آپ ڈیمو شروع کریں۔
میں نے کہا کس موضوع پر لیکچر دوں؟
کہا آپ کی مرضی!
میں نے معاشیات کے دس موضوعات بورڈ پر لکھے۔
میری خوبصورت لکھائی بورڈ پر کافی بھلی دکھائی دے رہی تھی،۔
میں نے کہا اس میں کون سے موضوع پر بات کروں؟
انھوں نے کہا دوسرے نمبر والا ٹاپک،
میں نے اس موضوع کو مزید کلاسیفائی
کیا۔ پھر ان کی طرف دیکھ کر کہا اب ان میں کونسا موضوع ٹھیک رہے گا؟
پورا بورڈ بھر دیا. دو ساتھ جوڑے ہوئے بورڈ بھر گئے۔
اچانک تالیاں بجنے لگییں۔ میں نے مڑ کے پیچھے دیکھا پوری کلاس کھڑی تھی اور تالیاں بجا رہی تھی اور ان کے سامنے میں،
میلے کپڑوں میں کھڑا تھا۔
وی سی نے کہا! ہاں بھائی بتاؤ کتنی تنخواہ لو گے؟
اور مجھے نوکری مل گئی
میں نے مشین کی طرح کام کیا۔ ماہ کے آخر میں مجھے یونیورسٹی بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ کے ساتھ اچھی خاصی تنخواہ ملی۔
سب سے زیادہ تنخواہ اس یونیورسٹی میں پچاس ہزار افغانی تھی، پر مجھے ایک لاکھ بیس ہزار پر رکھ لیا گیا۔ اس کے بعد امریکہ یونیورسٹی، فنانس منسٹری ، بین الاقوامی کانفرنسوں اور دنیا میں کئی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے مواقع ملے۔ میری سروس سٹیشن کے ایک سال
کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور میں نے تیس ممالک دیکھ لیے۔ میں آج بھی اپنے چچا زادوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا ہوں
وہ بھی میرا بہت احترام کرتے ہیں اور نام کے ساتھ “صاحب” ضرور کہتے ہیں۔
میں خدا سے خوش ہوں
*زندگی کے سامنے کبھی ہتھیار مت ڈالیں۔ زندگی کے میدان میں اتار چڑھاو آتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیشہ آنے والے کل کیلئے پرامید رہیں۔ کبھی کوئی کام کرتے ہوئے شرماتے نہیں".*
زندگی میں کوئی کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا، البتہ کام کے طریقے چھوٹے اور بڑے ضرور ہوتے ہیں۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
بچوں کی شادی میں تاخیر کرنا ہمارے معاشرے کا رواج بنتا جارہا ہے
شادی میں تاخیر کے اصل ذمے دار والدین ہوتے ہیں۔ جو اچھے سے اچھے کی تلاش میں اپنے بچوں کی عمر زیادہ ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ اور کہیں کہیں پر تو خود بچے ذمے دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہماری
نوجوان نسل آج سیٹل ہونے کے چکر میں اپنی جوانی کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں
آج کل شادی کےلئے کہا جاتا ہے کہ لڑکا کچھ کمائے، سیٹل ہو تو پھر شادی کر دیں گے۔ اگر ہماری نوجوان نسل مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو قرآن و سنت
کی روشنی سے بدل لیں اور وقت پر شادی کرلیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل اور اللہ کی عبادت بھی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں جلد ہی سیٹل بھی کر دے گا۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر جب تنگیِ رزق کی
فرانس نے اپنے صدر کی توہین کرنے پر ترکی سے اپنا سفیر واپس بھلا کر عمران خان، شاہ سلمان سمیت تمام امت کے منہ پر طمانچہ مارا اور سمجھایا ہے کہ ہم تو اپنے صدر کی توہین برداشت نہی کر رہے اور تم اپنے نبی کی توہین پر سوئے پڑے ہو، تمہاری غیرت ابھی تک نہیں جاگی۔
جبکہ ہمارے ملک ذاتی عزت کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ
سہیل وڑائچ کی کتاب پورے ملک سے اٹھوا لی گئی کہ ٹائٹل سے ایک معتبر ادارے کے چیف کی توہین ہوئی ہے،
قائد کے مزار پر نعرے لگانے سے بانی
مملکت کی توہین ہو گئی،
میں ایک دفتر گیا تو ذمہ دار نے میری بات نہ سنی، میرا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ ممبر قومی اسمبلی
ٹاک شو میں ہمارا مزاق اڑایا گیا، توہین عدالت کا مقدمہ درج ہو گا۔ سپریم کورٹ
ن لیگ،
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ رحمتہ اللہ علیہا بہت ہی دیندار صاحب علم و فضل خاتون تھیں ان کے محل میں ایک ہزار با ندیاں چو بیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں پانی کی شدید قلت ہو گئی اور
پانی کا ایک مشکیزہ دس درہم سے لیکر ایک دینار تک بک گیا۔ حجا ج اکرام کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی ۔ زیبدہ رحمتہ اللہ علیہا کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے اپنے انجنیروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیےپانی کا بندوبست کرو اور پانی کے
چشمے تلاش کرو چنانچہ انہوں نے کافی تگ و دو سے ایک چشمہ طائف کے راستے میں اور دوسرا چشمہ نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکرمہ تک پہنچانا بڑا جان جوکھوں کا کام تھا راستے میں پہاڑیاں تھیں جن کو کھودنا انتہائی
سلجوقی سلطنت میں مجاہدین کا یہ ایک گوریلا دستہ تھا جو ' غازی اخوان ' کے نام سے شہرت رکھتا تھا،یہ اپنے بجٹ
پلاننگ اور تمام معاملات میں خود مختار گروپ تھا،حتی کہ یہ بادشاہ وقت کو بھی جواب دہ نہ تھا.
غازی اخوان'کے ٹھکانے موجودہ دور کی
انٹلی جینس ایجنسیوں کے سیف ہاوسز کی طرح خفیہ ہوتے تھے کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ کہاں سے آپریٹ کرتے ہیں.
'غازی اخوان ' کا مشن تب کی دنیا میں کمزور اور ضعیف مسلمانوں کی مدد اور دفاع کرنا تھا.
سلجوقی عہد میں غازی اخوان کے کارنامے زبان زد عام و خاص تھے،صلیبیوں پر ان کا خوف سوار تھا.
ان کے خوف سے کوئی بادشاہ بھی کسی غریب پر ظلم کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچتا تھا.
انطاکیہ کے صلیبی بادشاہ کے بیٹے نے کسی
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ آسمانی بجلی ضرور ٹکراتی ہے لیکن پھر ان جہازوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ یا پھر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند مخصوص جہازوں میں خفیہ کمرے بھی بنائے جاتے ہیں؟ جی ہاں
ایسا ہوائی جہازوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ان جیسی بہت سے باتوں سے انجان ہوتے ہیں۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو کچھ ایسے ہی 9 انجان حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں-
1۔ ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی- آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی-
جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی
دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی
سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں