بچوں کی شادی میں تاخیر کرنا ہمارے معاشرے کا رواج بنتا جارہا ہے
شادی میں تاخیر کے اصل ذمے دار والدین ہوتے ہیں۔ جو اچھے سے اچھے کی تلاش میں اپنے بچوں کی عمر زیادہ ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ اور کہیں کہیں پر تو خود بچے ذمے دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہماری
نوجوان نسل آج سیٹل ہونے کے چکر میں اپنی جوانی کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں
آج کل شادی کےلئے کہا جاتا ہے کہ لڑکا کچھ کمائے، سیٹل ہو تو پھر شادی کر دیں گے۔ اگر ہماری نوجوان نسل مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو قرآن و سنت
کی روشنی سے بدل لیں اور وقت پر شادی کرلیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل اور اللہ کی عبادت بھی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں جلد ہی سیٹل بھی کر دے گا۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر جب تنگیِ رزق کی
شکایت کی تو حضور نے انہیں نکاح کا مشورہ دیا۔ جیسا اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
” تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل
سے غنی بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔“(سورة النور۔32)
اللہ تعالیٰ نے انکے آرام و سکون کے لئے ان کی بیویاں بنائیں ہیں ان کے پاس سکون محبّت اور رحمت رکھ دی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ہے:
” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ
تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاو ¿ اس نے تمہارے درمیان محبّت اور ہمدردی قائم کر دی, یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔“(سورة الروم۔21)
آج نوجوانوں کے پاس اللہ کی نشانیاں دیکھنے اور غور و فکر کرنے کا وقت ہی
کہاں ہے؟ بائیس پچیس سال تو تعلیم حاصل کرنے میں گزرجاتے ہیں پھراگلے دو چار سال ملازمت کی تلاش اور شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں گزرجاتے ہیں۔ تب تک چہرے کی شوخی رونق کھو کر بڑھاپے کی لکیریں نمایاں ہونے لگتی ہے تب کہیں
جاکر والدین اپنے لڑکے کے لیے خوبصورت دلہن کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ ایسے ہی لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ لڑکیاں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے انہیں ویسے ہی لڑکے کی تلاش ہوتی ہے۔
اور اگر کوئی امیر زادی کم پڑھے لکھے
میڈل کلاس لڑکے سے شادی کرنا چاہے تو یہاں والدین کی انا کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کہیں پر خاندانوں کے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کئی لڑکیاں تو جہیز کی لعنت کی وجہ سے ساجن کے سپنے سجائے بابل کے آنگن میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف اکثر
والدین اپنی بیٹی کے لئے آسمان سے اترے گھوڑے پر سوار کسی شہزادے کی تلاش میں جان بوجھ کر بیٹی کو گھر میں بیٹھائے رکھتے ہیں۔ شادی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے انسان کو مکمل ہونے کے لیے ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔
معاشرے پر غور کرلیں تو پتہ چلے گا دنیا کے آدھے فسادات انسانی کی اسی نفسانی خواہش کے زیر ہوتے ہیں۔
ایسے ماحول میں اتنا عرصہ کنوارہ رہنے کے دوران معاشرے میں جس قدر بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے اسے کون نہیں جانتا۔ ناجائز تعلقات،افیئر اور غیر شرعی طریقوں
سے نوجوان نسل اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اوپر سے بچوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کا بے جااستعمال۔ والدین اس بات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں کہ انکے بچے بارہ پندرہ سال کی عمر سے ہی فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ بنالیتے ہیں لیکن بائیس پچیس
سال کی عمر میں بچوں کا نکاح کرنے میں والدین کی جان جاتی ہے۔
ایسے حالات میں تو نکاح کو آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مجموعی طور پر معاشرہ مثبت سمت میں لے جایا جا سکے۔
خدا کے واسطے اسٹیٹس، خاندان، نوکری،
جہیز وغیرہ کے چکر میں پھنس کر اپنے بچوں کی شادیوں میں دیر نہ کریں۔
آپ کے بچے شرم اور آپ کی عزت کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ پاتے لیکن آپ ان کی شادی میں دیر کرکے نہ صرف ان پر ظلم کرتے ہیں بلکہ ان کی حق تلفی کررہے ہیں۔
انہیں برائی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں اس روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ بیس پچیس سال عمر ہوتے ہی بچے یا بچی کا مناسب رشتہ دیکھ کر یا بچوں کی پسند سے ہی انکا نکاح کردیا جائے اس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں کم ہوں گی بلکہ
موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی دوستیوں نے جو شریف گھرانوں کا سکون برباد کیا ہوا ہے اس کا بھی سدباب ہوسکے گا
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس ایک نامزد گورنر کی شکایت لیکر حاضر ھوئے ۔امیر المومنین نے دریافت کیا کیوں ائے ھو۔ لوگوں نے بتایا نامزد گورنر کی 4 شکایات لیکر آئے ھیں ۔حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کیا شکایات ھیں ۔ایک نے گنوانا شروع کردیا ۔امیر
المومنین ۔ 1- پہلے وہ فجر کے بعد بیٹھکر دین سکھاتے تھے اور دیر تک مسجد میں رھتے تھے ۔اب فجر پڑھا کر چلے جاتے ہیں ۔ 2- پہلے وہ ناغہ نھی کرتے تھے ۔اب ناغہ کرتے ھیں ۔ 3- پہلے وہ رات کو بھی ملتے تھے اب صرف
دن میں ملتے ھیں ۔ 4- اچانک انکو کیا ھوجاتا ھے کہ بھت آہ بکا اور رونا شروع کردیتے ہیں اور دیر تک چپ نھی ھوتے ۔یہ ھمیں مسجد میں اچھا نھی لگتا ۔ بس امیر المومنین ۔۔
گورنر کا نام سعید بن عامر تھا ۔انکو بلوایا
جب جوانی چڑھ گئی تو میں گھر دیر سے آنے لگا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنا دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا اور پھر رات دیر تک جاگنے اور دیر سے گھر آنے کی وجہ سے سارا سارا دن سوئے رہنا معمول بن گیا،
امی نے بہت منع کیا اور بہت سمجھایا کہ بیٹا یہ کام ٹھیک نہیں لیکن میں باز نہ آیا۔ شروع شروع میں وہ میری وجہ سے دیر تک جاگتی رہتی تاکہ دل کو سکون پہنچے کہ میرا بیٹا خیر خیریت سے گھر واپس آ گیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ جب میں اپنے
اس کام سے باز نا آیا تو امی سونے سے پہلے فریج کے اوپر ایک چٹ لگا کر سو جاتی، جس پر کھانے کے بارے میں اور جگہ کے بارے میں لکھا ہوتا تھا۔
آہستہ آہستہ چٹ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا چٹ پر لکھا ھوتا کہ "گندے کپڑے کہاں
سرکاری سرپرستی میں فرانس کی جانِب سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تضحیک آمیز خاکے شائع کروانے کے بعد بھی اگر مسلم ریاستیں بشمول پاکستان فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر
تیار نہیں ہوتے تو جان لینا چاہیے کہ ان ریاستوں کے اقتدار پر قابِض ٹولوں سے نجات اُسی درجے کا جہاد ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے جان مال اور اولاد کے ذریعے کیا کرتے تھے۔
جب تک فرانس کے ساری دنیا میں مفادات کو شدید دھچکا نہ لگے نہ اسے سبق ملے گا نہ اس ناپاک نظریے کے حامل اسکے ساتھیوں کو، فرانس کے اس نفرت انگیز عمل پر مسلمانوں کا غیر مُنظم اور انفرادی ردّعمل کاونٹر پروڈکٹیو ہو گا، منظم ردّعمل
پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی۔
واپس کابل آیا، سوچ رہا تھا اتنا سارا پڑھ لیا ہے اب تو صدر کے بعد سب سے بڑی کرسی مجھے ملے گی!
کافی عرصہ نوکری کیلئے دفتروں کی خاک چھانی، نوکری نہیں ملی۔ کچھ تو کرنا تھا اس لئے ایک کار سروس سٹیشن کھولا۔ رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا مگر میں اپنے آپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہو جائے گا۔
سروس سٹیشن بہت خستہ حال تھا۔
شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا، کابل کی یخ بستہ اور تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتے اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی راحت محسوس ہوتی تھی۔
آئے روز خوبصورت کاریں لاتے اور مجھ سے
فرانس نے اپنے صدر کی توہین کرنے پر ترکی سے اپنا سفیر واپس بھلا کر عمران خان، شاہ سلمان سمیت تمام امت کے منہ پر طمانچہ مارا اور سمجھایا ہے کہ ہم تو اپنے صدر کی توہین برداشت نہی کر رہے اور تم اپنے نبی کی توہین پر سوئے پڑے ہو، تمہاری غیرت ابھی تک نہیں جاگی۔
جبکہ ہمارے ملک ذاتی عزت کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ
سہیل وڑائچ کی کتاب پورے ملک سے اٹھوا لی گئی کہ ٹائٹل سے ایک معتبر ادارے کے چیف کی توہین ہوئی ہے،
قائد کے مزار پر نعرے لگانے سے بانی
مملکت کی توہین ہو گئی،
میں ایک دفتر گیا تو ذمہ دار نے میری بات نہ سنی، میرا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ ممبر قومی اسمبلی
ٹاک شو میں ہمارا مزاق اڑایا گیا، توہین عدالت کا مقدمہ درج ہو گا۔ سپریم کورٹ
ن لیگ،
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ رحمتہ اللہ علیہا بہت ہی دیندار صاحب علم و فضل خاتون تھیں ان کے محل میں ایک ہزار با ندیاں چو بیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں پانی کی شدید قلت ہو گئی اور
پانی کا ایک مشکیزہ دس درہم سے لیکر ایک دینار تک بک گیا۔ حجا ج اکرام کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی ۔ زیبدہ رحمتہ اللہ علیہا کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے اپنے انجنیروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیےپانی کا بندوبست کرو اور پانی کے
چشمے تلاش کرو چنانچہ انہوں نے کافی تگ و دو سے ایک چشمہ طائف کے راستے میں اور دوسرا چشمہ نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکرمہ تک پہنچانا بڑا جان جوکھوں کا کام تھا راستے میں پہاڑیاں تھیں جن کو کھودنا انتہائی