سوال کیا جاتا ہے لاہور میں ایسا کیا ہے ایک شہر ہی تو ہے، یہ محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب کا بھی نام ہے
اندرون ِلاہور تہواروں کو منانے کےاپنے ہی طور طریق ہیں آپ کسی بھی فقہہ کو مانتے ہوں جتنے دل و جاں سے محرم کا احترام و اہتمام کیا جاتا ہے
Insets Muhala Muhammadi Inside Delhi Gate
اتنے ہی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے ربیع اول کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج عید میلادالنبی ﷺ ہے آئیے اندرون چلتے ہیں
یہ اندرون دہلی دروازہ ہے۔۔ محمدی محلہّ
بمشکل 6 سے 8 فٹ چوڑائی کی گلی ہے جس میں 20 سے 25 گھر ہونگے۔گلی ایک مسجد پر جا کر بند ہوجاتی ہے۔ ہر گھر کم و بیش 10 ایک فٹ
چوڑائی رکھتا ہے اور اسکے دو دروازے ایک ڈیوڑھی اور دوسرا بیٹھک کا گلی میں کھلتا ہے۔ اس جشن کے موقع پر ہر دروازہ وا ہے۔
ساری گلی کو تازہ شوخ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی کونا رہ گیا ہو جس کو سجایا نہیں گیا اور یہ ساری محنت محلے کی خواتین کی ہے۔گھروں کی اگر کوئی فصیل تھی
بھی تو وہ اس ہنگامے میں گم ہے۔ سو یوں لگے ہے جیسے کسی ایک ہی گھر کے مختف کمرے ہیں اور کسی شادی کا منظر پیش کرتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد بہترین و شوخ لباس پہنے گلی میں ہی موجود ہے۔ ہر ڈیوڑھی میں پکوان پک رہے ہیں۔ گلی کے آغاز میں نسبتاً کھلی جگہ پر پٹھورے تیار کئے جا رہے ہیں۔
پیچھلی جانب خواتین حلوہ پوڑیاں تل رہی ہیں۔
اگرچہ آپ یہاں بلکل اجنبی ہیں اور محض گھومتے پھرتے اس گلی میں آ نکلے ہیں پھر بھی آپ کسی بھی بیٹھک میں اجازت لے کر بیٹھ سکتے حسب ِ توفیق آپ کو چائے اور نیاز پیش کی جائے گی۔ سب آوازیں دے رہے ہیں کہ ہمارے گھر بھی آیئے اور کچھ کھایئے۔
باہر کی دنیا سے یکسر غافل انکی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ اس وقت فی مربع فٹ زندگی سے سرشار خوشیوں میں نکھرے چہرے شاید ہی اور کہیں ملیں۔
شاید یہی جذبہ لاہور کہلاتا ہے ورنہ اور کیا ہے۔
کہا جاتا ہے قیام ِ پاکستان کے وقت میں لاہور کے انارکلی چوک سے چیرنگ کراس تک لگ بھگ 150 کے قریب چائے اور کافی ہاوس ہوا کرتے تھے۔ یہ فاصلہ کم و بیش محض دو کلومیٹر کا ہے.
Image credit to: Pak Tea House, Google , Lahore Achieve ، Pakistan today
آج سے قریب ستر برس پہلے کے لاہور کی تہذیب اور کلچر کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے۔
اتنے چائے خانوں میں سے کوئی ایک وہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر اس شہر کی عمومی تاریخ اور خاص کر ادبی تاریخ تو کسی طور مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا نام " پاک ٹی ہاوس " ہے ۔
مال روڈ نیلا گنبد کے پاس وائے ایم سی اے سے متصل ایک پچاس ساٹھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش والا، بیس گز چوڑائی والا چائے خانہ۔۔۔۔ بقول عطاالحق قاسمی کے" ادیبوں کا ویٹی کن سٹی" ہے۔
لاہور کے عوامی شاعروں کا زکر ہو اور استاد دامن کا زکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وہ ان سب کے استاد تھے۔
لیکن پہلے سمجھیئے عوامی شاعر ہوتا کون ہے۔وہ چاہے کسی بھی زبان سے متعلق ہو، کسی بھی علاقے سے تعلق ہو وہ عام عوام کا شاعر ہوتا ہے خواص کا نہیں ۔
Insets: Header Courtesy Nadeem Sb
زبان و ادب کا شاعر نہیں ۔ پھر اسکا دکھ غمِ جاناں نہیں ہوتا غمِ روزگار کے مارے لوگ ہوتے ہیں، سڑکوں پر چلتے پھرتے ریٹرھیاں لگاتے، ملوں میں مزدوریاں کرتے عوام ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی اُنہیں میں سے ایک ہوتا ہے اُنہیں کی زبان میں بات کرتا ہے بس قدرتی طور پر شاعر ہوتا ہے
نہ کہ علم کے بِنا پر شعر کہتا ہے اس لئے بہت سے عوامی شاعر واجبی تعلیم یافتہ یا سرے سے ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں
لاہور میں پیدا ہوئے اور خاندانی طور پر درزی پیشے سے منسلک تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیوں سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا
لاہور۔ مسجد صالح محمد کمبوہ۔۔۔ مسجد وزیر خان کی سگی بیٹی۔۔۔ ثانی مسجد
اندرونِ لاہور کا تاریخی حسن حوادثِ زمانہ کی نظر جو ہوا سو ہوا مگر بدہیت اور بے ہنگم پلازوں کی بھرمار اس کے خوبصورت چہرے پر بدنما داغ ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔
اعلیشان حویلیاں برباد کی گیئں
مگر مذہب اور اسکا احترام چونکہ ہماری گھٹی میں شامل ہے اسلئے اس مجرمانہ شکست و ریخت و غفلت سے کچھ مساجد بچیں رہیں۔
انہیں مساجد میں ایک نام "مسجد صالح محمد کمبوہ" کا بھی ہے۔ ایک مختصر سی مسجد جو بمشکل سو دو سو افراد کے لئے ہو گی مگر خوبصورتی میں کئی بڑی بڑی مساجد پر بھاری ہے۔
اندروں موچی گیٹ میں داخل ہوتے ہی جہاں ایک دوراہا بنتا ہے جو ایک طرف لال کوہ اور مبارک حویلی اور چوک نواب کی طرف جاتا ہے اور دوسری طرف ورق کوبوں کی گلی سے ہوتا ہوا رنگ محل کی طرف نکلتا ہےاسی سنگم پر یہ عظیم فراموش ہوتی یادگار ۔۔۔ مسجد صالح محمد کمبوہ ہے۔
نواز شریف اور اسکی گورنمنٹ کے خلاف کی جاتی ہے اور عملاً سی پیک روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی رک جاتی ہے مگر کچھ افراد کی ذاتی ترقی جاری رہتی ہے۔
پچھلے ہفتے انٹرنیشنل میڈیا پر ایک خبر آئی کہ HSBC ہانگ کانگ شنگھائی بینک کارپوریشن جو کہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے
اور نام سے ظاہر ہے کہ چائنا کی ملکیت ہے۔ روس کا بھی بڑا اشتراک ہے اس میں۔ اس بینک کی لیکس کی گئی کہ چھ کھرب ڈالر کی غیر قانونی رقوم گذشتہ بیس سالوں میں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور ان تمام کاروئیوں میں پاکستان کے چھ بینک بھی استعمال ہوئے جن کے نام نہیں بتائے گے۔ اب پیسہ اور منصوبہ
۹۰ کی دہائی میں ہماری طرح کسی بھی لاہوری لڑکے کی یہی کوشش رہی ہوگی کہ کچھ ہوجائے گھر کے بڑوں کے آگے ایک جگہ کا نام منہ سے نہ نکل جائے پایا جانا تو دور کی بات تھی اسکا نام "ہیرا منڈی " تھا۔
Image Courtesy:
Chughtai Museum, Iqbal Hussain
لاہور کا بدنامِ زمانہ طوائف خانہ جو آج اُن طوائفوں سے بے آباد ہوچکا مگرا ٓج بھی کسی بزرگ کے آگے نام لیتے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
لاہور کی ہیرا منڈی ایک سکھ سردار، سردار ہیرا سنگھ سے منسوب ہے۔ 1700 صدی میں یہ ایک مشہور غلّہ منڈی ہوا کرتی تھی.
اگر یہ غلہ منڈی تھی تو یہاں طوائفیں کیسے آباد ہوئیں۔ آئیےتاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اس کی کیا کہانی ہے۔
عہدِ سکھّی میں لاہور میں ایک اہم کردار کا نام ملتا ہے جس کا نام سلطان ٹھیکیدار تھا۔ دلی دروازے میں رہا کرتا تھا۔ سکھّی عہد جاتا رہا اور دولتِ سرکار انگریز کی آمد ہوئی