محمد کریم مصر کا حکمران تھا اچانک فرانس نے مصر پہ حملہ کر دیا نپولین فرانس کا بادشاہ تھا محمد کریم اپنے ملک کے لیئے جتنا لڑ سکتا تھا لڑا لیکن بدقسمتی سے فرانس نے اس کو ہرا دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا نپولین بونا پارٹ کے فوجیوں نے محمد کریم کو زنجیروں میں
👇
جکڑ کر اس کے سامنے پیش کر دیا نپولین نے کہا تم نے میرے بہت سے فوجی مار دیئے لیکن جس دلیری اور بہادری سے تم نے اپنا ملک بچانے کی کوشش کی ھے میں تمہیں ایک موقعہ دینا چاہتا ہوں تم نے جتنے میرے فوجی مارے ہیں ان کا فدیہ دے دو میں تمہیں چھوڑ دوں گا فرانس کے فوجی محمد کریم کو
👇
زنجیروں میں جکڑ کر مصر کے بڑے بڑے تاجروں کے پاس لے گئے محمد کریم کا خیال تھا کہ وہ اس کی بھرپور مدد کریں گے کیونکہ اس نے ان کی آزادی کے لیئے ایک طویل جنگ لڑی تھی لیکن مصر کے تاجروں نے اس سے منہ پھیر لیا اور فدیہ کے لیئے رقم دینے سے انکار کر دیا شام کو جب محمد کریم کو نپولین
👇
کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا نپیولین نے کہا میں تمہیں سزائے موت اس لیئے نہیں دوں گا کہ تم نے میرے بہت سے فوجی مارے ہیں تمہیں سزائے موت اس لیئے دوں گا کہ تم ایک جاہل قوم کے لیئے لڑتے رھے آج جب میں عمران خان کو دیکھتا ہوں تو مجھے مصر کا محمد کریم یاد آ
👇
جاتا ھے عمران خان بھی ایک جاہل قوم کے لیئے لڑ رہا ھے ایک ایسی قوم کے لیئے لڑ رہا ھے جس کے نزدیک قوم کا سارا پیسہ چوری کر لینا 35 سال حکومت ملنے کے باوجود قوم کو غریب سے غریب تر بنا دینا کوئی جرم نہیں یہاں آج بھی میاں دے نعرے وجن گے اور زرداری سب پر بھاری کے فلک شگاف نعرے لگانے
👇
والوں کی کمی نہیں اور تو اور یہاں دس سال تک کشمیر کمیٹی کا چئیرمین رہنے والا اور کشمیر کا نام تک نہ لینے والا فضل الرحمن کشمیر کے نام پر اپنا نام نہاد آزادی مارچ شروع کرے گا
👇
کیا ہم واقعی اتنے جاہل ہیں کہ اس شخص کو اپنا مسیحا جانے گے جو ہمیشہ اسلام کو اسلام آباد کے لیئے استعمال کرتا ھے اور وہاں پہنچ کر قومی مجرموں کا ساتھی بن جاتا ھے.......
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
1976 میں جب مصر کے صدر انوارالسادات نے امریکی صدر کی آفیشل سیرگاہ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کامعاہدہ کیا تھا۔ تب اُسے بھی امن کی طرف ایک بڑی پیش رفت اور فلسطینیوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے قربانی قرار دیا گیا تھا۔ امت کے غدار اُس وقت بھی اُس تاریخی
👇
خباثت کی سنگینی کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ تب مصر کے ایک ہسپتال میں کینسر سے لڑتے لڑتے نڈھال ہو جانے والے ناتواں شاعر “امل دنقل” کی ایک چیخ گونجی تھی۔ “اَمل ابو القاسم دنقل” کی بستر مرگ پر لکھی نظم “لا تصالح” (صلح مت کرنا) نے عربوں کو..
👇
جھنجوڑ ڈالا تھا۔ بلاد عرب میں “لا تصالح” فلسطین کا نوحہ بن کر بچے بچے کی زبان پر آ گئی۔ ایک نظم نے تمام اخبارات اور ریڈیو پراپیگنڈے پر بھاری پڑ گئی۔ مصر میں سادات کے خلاف بغاوت پر مشکل سے قابو پایا گیا۔ انوار السادات قابل نفرت ٹھہرا اور قتل ہو کر بھی نفرین کا مستحق رہا۔
👇
خلافت کے عظیم ترین منصب پرفائزہونے کے باوجودصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی سادگی اورانکسارکایہ عالم تھا کہ ہمیشہ خدمتِ خلق میں مشغول ومنہمک رہاکرتے،خوداپنے ہاتھوں سے بلاجھجک دوسروں کے روزمرہ کے کام کاج کردیاکرتے،بیکسوں کی دستگیری اور
👇
ضرورتمندوں کی خبرگیری کوانہوں نے تاحیات اپنا شیوہ وشعاربنائے رکھا۔
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران میں ان کے معمولات کا جائزہ لیا کرتاتھا۔ وہ اکثر فجر کی نماز ادا کرنے جے بعد شہر سے باہر نکل جاتے اور سورج طلوع ہونے
👇
کیساتھ واپس آتے مجھے تجسس ہوا چنانچہ ایک روز میں خاموشی سے ان کے پیچھے ہولیا،وہ ایک ویران جھونپڑی کی طرف جا رہے تھے وہاں پہنچنے کے بعدوہ اس معمولی سی جھونپڑی میں داخل ہوگئے، اورپھرکچھ وقت گذرنے کے بعدوہاں سے نکلے اور واپس مدینہ شہرکی طرف چل دئیے…تب میں نے سوچاکہ میں بھی
👇
گزرے زمانے میں ایک شخص ایک گاؤں میں رھتا تھا جو خوب دل لگا کر باقائدگی کیساتھ پنچ گانہ نماز باجماعت پڑھتا تھا اس لئے لوگ اس کو محنت مزدوری کے لئے نہیں بلاتے تھے۔ شکایت یہ تھی کہ ھر گھڑی مسجد کی دوڑ لگاتا رھتا ھے۔
ایک بار زمیندار کے گھر شادی تھی۔ کام کرنے والے کم پڑ گئے تو
👇
اس کو بھی بلا لیا۔ اس نے اس شرط پر آمادگی ظائر کی کہ نماز باجماعت ھی پڑھونگا۔ زمیندار صاحب آمادہ ھو گئے۔ کام جب ختم ھوا تو اس کی مزدوری دس پیسے بنی۔ زمیندار صاحب نے اس کو چونی دی جو سولہ پیسے کی ھوتی تھی۔ وہ غریب بہت خوش ھوا۔ سر شام دکان پر پہنچا۔ گھر کی ضرورت کا سامان لیا۔
👇
ماں کے لئے گڑ بھی لیا تاکہ وہ اپنی پسند کا حلوہ بنا دے۔ دکاندار نے کہا کہ بارہ پیسے ھو گئے۔ اس غریب نے پلے سے کھول کر چونی دی۔ دکاندار نے چراغ کی رشنی میں دیکھا ، پرکھا اور چونی اس کی جھولی میں پھینک دی اور غصہ میں بولا: "ھر دم مسجد کی دوڑ لگاتے ھو اور
👇
“And [mention] Ayyub, when he called to his Lord, ‘Indeed, adversity has touched me, and you are the Most Merciful of the merciful. So We responded to him and removed what afflicted him of adversity.
👇
And We gave him [back] his family and the like thereof with them as mercy from Us and a reminder for the worshippers [of Allah ].’” (Surah al-Anbiya, 21:83-84)
👇
پاکستان میں غداری کا الزام سب سے پہلے فوجی دور میں فاطمہ جناح پر لگا۔ یہ الزام لگانے والی اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں تھیں جن کی اولادیں آگے چل کر ن لیگ میں شامل ہوئیں۔ گوجرانوالہ کا غلام دستگیر (ن لیگ کے سینئر نائب صدر خرم دستگیر کا باپ) تو اپنے جلسے میں کتیا کے گلے میں فاطمہ جناح
👇
کی تصویر لٹکا کر لایا کرتا تھا۔
پھر بھٹو دور میں ولی خان پر غداری کا مقدمہ درج ہوا۔
ضیا دور میں الذولفقار کی دہشتگردی کو بنیاد بناتے ہوئے پیپلزپارٹی سمیت کئی صحافیوں پر غداری کے مقدمات درج کئے گئے۔
بینظیر حکومت میں آئی تو وزیراعلی پنجاب نوازشریف نے اسے سیکیورٹی رسک قرار
👇
دے دیا، اس پر راجیو گاندھی کو علیحدگی پسند سکھوں کی فہرستیں دینے کا الزام لگایا۔
نوازشریف وزیراعظم بنا تو دی نیوز اخبار کے ایک آرٹیکل کی بنیاد پر ملیحہ لودھی پر غداری کا مقدمہ درج کروا دیا۔
زرداری صدر بنا تو نوازشریف نے میمو سکینڈل کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں زرداری پر
👇