لاہور جہاں بادشاہوں کی اور ان کے فن تعمیر کی ثقافتی تاریخ کا الٰم بردار ہے وہیں اللہ نے اس شہرِ بے مثال کو بہت سے بلند پایا بزرگوں اور اولیاءاللہ سے بھی نوازہ اور یہ شہر انکے مدفن ہونےکا شرف بھی رکھتا ہے۔
Picture credit: Wasif Hassan
محترم @asadjaffery371 صاحب نے اس طرف توجہ دلائی کہ لاہور کے صوفیوں کا بھی کچھ تذکرہ ہونا چاہیے تو آئیے چند ایسے مزارات پر جواندرون لاہور کا تاریخی ورثہ ہیں، پر نظر ڈالتے ہیں۔
عبادت گزاری تو صرف اللہ کے لئے ہی ہے اور ہر ولی اپنی عبادت و ریاضت و زہد و علم و فضل کے حوالے سے ہی
ولی اللہ کا درجہ پاتا ہے اور اپنی کسی کرامت کے ظہور سے ایک خاص لقب سے عوام میں مشہور ہوتا ہے لیکن ایک ایسے بزرگ بھی ہیں جو کسی کرامت کی بجائے صرف اپنی شیریں زبانی کے حوالے سے سّید مِٹھا کہلائے۔۔۔ حضرت معین الدین رحمة اللہ ( پنجابی زبان میں مِٹھا،شیریں کو کہتے ہیں)۔
اللہ نے کیا خوش الحانی اور شیریں زبانی نوازی ہو گی اس کا اندازہ لگانا آج ممکن ہی نہیں۔
کتاب"حدیقتہ الاولیا" میں انکا مختصر تعارف کچھ یو ں بیان ہوتا ہے کہ وہ خوارزم کے رہنے والے تھے۔آپ کا اصل نام معین الدین ولد جمال الدین تھا۔ جب چینگیز خان کے تاتاری مغلوں نے خوارزم کو فتح کیا
اور شہر کے شہر تاراج ہو گئے تو آپ اپنے والد کے ساتھ غزنی چلے گئے۔
جب غزنی بھی چینگیز خان کے قدموں میں روندا گیا تو وہ لاہور آ گئے اور پھر اسی شہر کے ہی ہوگئے۔علم و فضل کا سلسلہ جاری رہا اور اپنی شریں کلامی سے"سید مِٹھا" کا خطاب پایا۔
آپ 661 ہجر ی میں فوت ہوئے۔
آپ کا مزار سید مِٹھا بازار اندرون لاہور میں ایک مسقّف حجرے میں زمانہ قدیم سے واقع ہے۔
سید مٹھا ولی باصفا آنکہ شیریں بودنز خاص و عام
ہست سالِ ارتحال آنجانب صاحب نعمت دگر شیریں کلام
اس شہر کے کیا کہنے جسے ایسے بزرگوں نے بھی اپنا مسکن بنایا۔
سوال کیا جاتا ہے لاہور میں ایسا کیا ہے ایک شہر ہی تو ہے، یہ محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب کا بھی نام ہے
اندرون ِلاہور تہواروں کو منانے کےاپنے ہی طور طریق ہیں آپ کسی بھی فقہہ کو مانتے ہوں جتنے دل و جاں سے محرم کا احترام و اہتمام کیا جاتا ہے
Insets Muhala Muhammadi Inside Delhi Gate
اتنے ہی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے ربیع اول کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج عید میلادالنبی ﷺ ہے آئیے اندرون چلتے ہیں
یہ اندرون دہلی دروازہ ہے۔۔ محمدی محلہّ
بمشکل 6 سے 8 فٹ چوڑائی کی گلی ہے جس میں 20 سے 25 گھر ہونگے۔گلی ایک مسجد پر جا کر بند ہوجاتی ہے۔ ہر گھر کم و بیش 10 ایک فٹ
چوڑائی رکھتا ہے اور اسکے دو دروازے ایک ڈیوڑھی اور دوسرا بیٹھک کا گلی میں کھلتا ہے۔ اس جشن کے موقع پر ہر دروازہ وا ہے۔
ساری گلی کو تازہ شوخ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی کونا رہ گیا ہو جس کو سجایا نہیں گیا اور یہ ساری محنت محلے کی خواتین کی ہے۔گھروں کی اگر کوئی فصیل تھی
کہا جاتا ہے قیام ِ پاکستان کے وقت میں لاہور کے انارکلی چوک سے چیرنگ کراس تک لگ بھگ 150 کے قریب چائے اور کافی ہاوس ہوا کرتے تھے۔ یہ فاصلہ کم و بیش محض دو کلومیٹر کا ہے.
Image credit to: Pak Tea House, Google , Lahore Achieve ، Pakistan today
آج سے قریب ستر برس پہلے کے لاہور کی تہذیب اور کلچر کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے۔
اتنے چائے خانوں میں سے کوئی ایک وہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر اس شہر کی عمومی تاریخ اور خاص کر ادبی تاریخ تو کسی طور مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا نام " پاک ٹی ہاوس " ہے ۔
مال روڈ نیلا گنبد کے پاس وائے ایم سی اے سے متصل ایک پچاس ساٹھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش والا، بیس گز چوڑائی والا چائے خانہ۔۔۔۔ بقول عطاالحق قاسمی کے" ادیبوں کا ویٹی کن سٹی" ہے۔
لاہور کے عوامی شاعروں کا زکر ہو اور استاد دامن کا زکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وہ ان سب کے استاد تھے۔
لیکن پہلے سمجھیئے عوامی شاعر ہوتا کون ہے۔وہ چاہے کسی بھی زبان سے متعلق ہو، کسی بھی علاقے سے تعلق ہو وہ عام عوام کا شاعر ہوتا ہے خواص کا نہیں ۔
Insets: Header Courtesy Nadeem Sb
زبان و ادب کا شاعر نہیں ۔ پھر اسکا دکھ غمِ جاناں نہیں ہوتا غمِ روزگار کے مارے لوگ ہوتے ہیں، سڑکوں پر چلتے پھرتے ریٹرھیاں لگاتے، ملوں میں مزدوریاں کرتے عوام ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی اُنہیں میں سے ایک ہوتا ہے اُنہیں کی زبان میں بات کرتا ہے بس قدرتی طور پر شاعر ہوتا ہے
نہ کہ علم کے بِنا پر شعر کہتا ہے اس لئے بہت سے عوامی شاعر واجبی تعلیم یافتہ یا سرے سے ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں
لاہور میں پیدا ہوئے اور خاندانی طور پر درزی پیشے سے منسلک تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیوں سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا
لاہور۔ مسجد صالح محمد کمبوہ۔۔۔ مسجد وزیر خان کی سگی بیٹی۔۔۔ ثانی مسجد
اندرونِ لاہور کا تاریخی حسن حوادثِ زمانہ کی نظر جو ہوا سو ہوا مگر بدہیت اور بے ہنگم پلازوں کی بھرمار اس کے خوبصورت چہرے پر بدنما داغ ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔
اعلیشان حویلیاں برباد کی گیئں
مگر مذہب اور اسکا احترام چونکہ ہماری گھٹی میں شامل ہے اسلئے اس مجرمانہ شکست و ریخت و غفلت سے کچھ مساجد بچیں رہیں۔
انہیں مساجد میں ایک نام "مسجد صالح محمد کمبوہ" کا بھی ہے۔ ایک مختصر سی مسجد جو بمشکل سو دو سو افراد کے لئے ہو گی مگر خوبصورتی میں کئی بڑی بڑی مساجد پر بھاری ہے۔
اندروں موچی گیٹ میں داخل ہوتے ہی جہاں ایک دوراہا بنتا ہے جو ایک طرف لال کوہ اور مبارک حویلی اور چوک نواب کی طرف جاتا ہے اور دوسری طرف ورق کوبوں کی گلی سے ہوتا ہوا رنگ محل کی طرف نکلتا ہےاسی سنگم پر یہ عظیم فراموش ہوتی یادگار ۔۔۔ مسجد صالح محمد کمبوہ ہے۔
نواز شریف اور اسکی گورنمنٹ کے خلاف کی جاتی ہے اور عملاً سی پیک روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی رک جاتی ہے مگر کچھ افراد کی ذاتی ترقی جاری رہتی ہے۔
پچھلے ہفتے انٹرنیشنل میڈیا پر ایک خبر آئی کہ HSBC ہانگ کانگ شنگھائی بینک کارپوریشن جو کہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے
اور نام سے ظاہر ہے کہ چائنا کی ملکیت ہے۔ روس کا بھی بڑا اشتراک ہے اس میں۔ اس بینک کی لیکس کی گئی کہ چھ کھرب ڈالر کی غیر قانونی رقوم گذشتہ بیس سالوں میں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور ان تمام کاروئیوں میں پاکستان کے چھ بینک بھی استعمال ہوئے جن کے نام نہیں بتائے گے۔ اب پیسہ اور منصوبہ