براعظم جنوبی امریکا کے مُلک پیرُو میں نازکا نام کا ایک صحرا موجود ہے، جو بظاہر عام سا دکھائی دیتا ہے۔ مگر اس "عام" سے صحرا کو دُنیا بھر میں شہرت اُس وقت ملنا شروع ہوئی جب 1930ء میں یہاں سے گزرنے والے جنگی طیاروں اور ہوائی جہازوں نے دعویٰ کیا کہ اِس صحرا پر
انہیں باقاعدہ پُراسرار شکلیں بنی دکھائی دی ہیں، بعدازاں جن کی تصدیق بقیہ طیاروں نے بھی کی۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اس صحرا کے متعلق عجیب و غریب دعویٰ کیا جارہا ہو، بلکہ سولہویں صدی میں بھی کچھ سیاحوں نے کہا تھا کہ
انہوں نے اس صحرا میں سڑکیں/راستے بنے دیکھے، جوکہ یقیناً یہی شکلیں تھیں جو بلندی سے واضح دکھائی دیتی ہیں۔ دُنیا بھر کے ماہر ارضیات کو صحرا کے سینے پر نقش اِن اشکال نے اپنی جانب متوجہ کیا۔
جس کے بعد اب تک ہونے والی تحقیقات میں ماہرین اس صحرا کے 48 کلومیٹر کے علاقے میں 1170 مختلف شکلیں دریافت کرچکے ہیں، جن میں پودوں، جانوروں اور جیومیٹری پر مبنی مختلف نقوش شامل
ہیں۔ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ شکلیں یہاں بسنے والی Nazca تہذیب نے ڈھائی ہزار سال قبل بنائی تھیں۔ نازکا تہذیب کی جانب یہ اشکال بنانے کی وجہ تاحال معلوم نہیں، لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ نازکا تہذیب خُدا سے رابطے کے
لیے یا خُدا کو خوش کرنے کے لیے یہ اشکال بناتی تھیں، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ کوئی فلکیاتی کیلنڈر ہوسکتا ہے اور نازکا تہذیب نے ستاروں کو دیکھ کر فلکیاتی کیلنڈر ترتیب دیتے ہوئے یہ اشکال بنائی
ہوں۔ جہاں ایک جانب یہ سائنسی توجیہات پیش کی جاتی ہیں، وہیں مرچ مصالحے کا شوقین سازشی تھیوریز پر یقین رکھنے والا طبقہ کہاں پیچھے رہنے والا تھا، اس طبقے کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ لائنز خلائی مخلوق کیجانب سے بنائی گئی ہیں۔
اس دعوے کو سائنسدان یکسر مسترد کرتے ہیں کیونکہ اگر نازکا صحرا کی جیولوجی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحرا ریت کی دو layers پر مشتمل ہے، ریت کی پہلی پرت (layer) تقریباً 6 انچ
میں موٹی ہے اور یہ layer آئرن آکسائیڈ پر مشتمل ہے جس وجہ سے اس صحرا کا رنگ لال اور براؤن ہے جیسے زنگ آلود لوہے کا رنگ ہوتا ہے، پہلی پَرت کو اگر ہٹایا جائے تو اس کے نیچے سے اس کی دوسری layer دکھائی دیتی ہے، جو عام صحرائی ریت پر
مشتمل ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ریت کی پہلی پَرت اتنی ہلکی ہے کہ اس کو محض ہاتھ سے یا کسی جھاڑو وغیرہ کے ذریعے ہٹا دینے سے نیچے سے عام صحرائی ریت دکھائی دینا شروع ہوجاتی ہے یوں ہم
بآسانی ایسی اشکال بنا سکتے ہیں، بلکہ کچھ ماہرین کا یہاں تک دعویٰ ہے کہ بیس انسانوں کا گروپ ایک دن میں ایسا نقشہ بنا سکتا ہے، جسکا مطلب ہے کہ نازکا تہذیب کو ان اشکال کو بنانے میں کسی قسم کی دقت پیش نہیں آئی ہوگی اور نہ
ہی ان اشکال کو بنانے کے لیے کوئی ایسی ٹیکنالوجی چاہیے تھی جو ہمیں معلوم نہ ہو یا جس کی وجہ سے ان اشکال کو خلائی مخلوق کا کارنامہ کہا جاسکے۔ اس متعلق کچھ ریسرچ پیپرز بھی چھپے کہ کیسے
نازکا تہذیب نے پتھروں کی مدد سے نشانات لگا کر ان اشکال کو بنایا۔ یہاں یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ ہوائی جہاز تو سو سال قبل ایجاد ہوا، تو پھر 2500 سال قبل نازکا تہذیب کے باسی جب ان اشکال کو
بناتے تھے تو انہیں دیکھتے کیسے تھے؟ اس کا جواب وہاں کے محل وقوع کو دیکھ کر ملتا ہے، نازکا صحرا میں پہاڑیاں موجود ہیں جن کی چوٹی پر جا کر یہ شکلیں زمین پر بنی دکھائی دیتی ہیں، لہٰذا گُمان ہے کہ وہ نزدیکی پہاڑیوں پر چڑھ کر ان نقوش
کو دیکھتے تھے اور ان میں بہتری لاتے رہتے تھے۔ یونیسکو کی جانب سے 17 دسمبر 1994ء کو اس مقام کو عالمی ورثہ ڈیکلیئر کردیا گیا، جس کے بعد متعدد افراد کو ان لائنز کو خراب کرنے کی پاداش میں
گرفتار کیا جاچکا ہے۔ نازکا لائنز اہرام مصر اور برمودا ٹرائی اینگل کی طرح کے نمونوں میں سے ایک ہیں جن کو بلاوجہ خلائی مخلوق کی کارستانیاں قرار دیا جاتا رہا ہے، مگر جدید تحقیقات ان پر پڑے
پردے اٹھائے جارہی ہے، لہٰذا سائنس سیکھیے اور سکھائیے تاکہ ایسے اوہام سے نجات مل سکے اور ہم حقائق جان سکیں۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
اسلام نے حلال کھانے کا حکم دیتے ہوئے حرام کھانے سے منع کیا ہے اور ایسے جانور کا گوشت استعمال کرنے کا حکم دیا ہے جسے اسلامی طریقے سے ذ-بح کیا گیا ہو۔غیر مسلم ناصرف حرام گوشت استعمال کرتے ہیں بلکہ اسلام کے اس حکم سے
متعلق مچھلی کی مثال پیش کرتے ہوئے
یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اسے ذ-بح نہیں کیا جاتا تو پھر یہ کیسے حلال ہو گئی تاہم اب سائنس نے یہ اس سوال کا جواب دیدیا ہے اور ایسا حیران کن انکشاف کیا ہے کہ
آپ بھی بے اختیار سبحان اللہ کہہ اٹھیں گے۔اللہ تعالیٰ نے دنیا میں موجود ہر چیز بہترین انداز میں بنائی ہے اور ایسا ہی معاملہ مچھلی کے ساتھ بھی ہے جو جیسے ہی پانی سے باہر آتی ہے تو اس کے جسم
متحدہ عرب امارات نے سخت اسلامی قوانين ميں تبديليوں کا اعلان کيا ہے۔ اب وہاں غير شادہ شدہ جوڑے کا ساتھ رہنا سميت شراب خريدنا اور پينا جائز ہے جب کہ غيرت کے نام پر قتل جيسے معاملات کو قابل سزا جرائم ميں شامل کر ليا گيا ہے۔
متحدہ عرب امارات ميں نئے قوانين کے
مطابق اکيس سال يا اس سے زائد عمر والے افراد کے شراب پينے، بيچنے يا شراب ساتھ رکھنے پر اب کوئی رکاوٹ نہيں۔ نئے قوانين کے اعلان سے قبل مقامی افراد کو شراب پينے، خريدنے يا ٹرانسپورٹ کرنے کے ليے
خصوصی پرمٹ درکار ہوتا تھا۔ تاہم اب مسلمان بھی بغير کسی پرمٹ کے شراب اپنے گھروں پر رکھ بھی سکيں گے اور پی بھی سکيں گے۔
اماراتی حکومت نے سخت اسلامی قوانين ميں ان نرميوں کا اعلان ہفتے سات نومبر
مہیش سیوانی کا باپ ہیرے کاٹنے کی مشین پر سوا سو روپے مہینے پر کاریگر تھا، جب اس نے ہیروں کا کاروبار شروع کیا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی، اس نے اپنا سب کچھ بیچ کر ہیرے کاٹنے کی ایک مشین خرید لی. اس کے بعد یہ کاروبار مہیش کے زمے آ گیا، مہیش نے
سخت محنت کی، وہ سچا ایماندار اور زبان کا پکا شخص تھا مارکیٹ میں اس کی سچائی اور ایمانداری کے چرچے ہو گئے. یہ شہرت ہندوستان کے شہر سورت سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی، ہیرا بنانے اور
خریدنے کے لیے مہیش ایک برانڈ ہے، وہ کروڑ پتی سے ارب پتی بن گیا. 2004 میں اس نے ڈیڑھ ارب روپے کا کاروبار کیا اور آج اس کے کاروبار کی مالیت بارہ ارب روپے ہے.
تاریخ میں گدھوں کا استعمال پانچ ہزار سال قبل ہوا۔
۰اب تک ایک اندازے کے مطابق دنیا میں چار کروڑ گدھے موجود ہیں جو زیادہ تر ترقی پزیر ممالک میں نقل و حرکت ساز و سامان اٹھانے کے کام آتے ہیں۔
• نر گدھے کو Jack کہا جاتا ہے،
مادہ کو Jenny جبکہ بچے کو Foal .
۰ گدھے کے گھوڑی سے ملاپ کے بعد پیدا ہونے والے ہئیبر ڈ کو Mule(خچر) کہتے ہیں جبکہ گھوڑے کے گدھی سے ملاپ کے بعد پیدا ہونے والے ہائیبر ڈ کو Hinney(تصویر دیکھئیے) کہتے ہیں۔
۰ گدھوں کے کان کافی لمبے ہوتے ہیں جو
انہیں دور سے آوازیں سننے اور جسم کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
۰گدھی بارہ مہینے تک حاملہ رہتی ہے اور ایک وقت میں ایک ہی بچہ جنتی ہے۔ جڑواں بچوں کی پیدائش انتہائی نایاب ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام! ایک ایسے نوجوان کے قریب سے گزرے جو باغ میں پانی لگا رہا تھا۔
اُس نوجوان نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائیے کہ اللّہ ربّ العزت اپنے عشق کا ایک ذرّہ مجھے عنائیت فرما دے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ذرّہ تو بہت ہے تم اس کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اُس نے کہا کہ،صرف نصف ذرّہ ہی عطا فرما دے۔
اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پروردِ
گارِ عالم سے دعا مانگی:
یا اللّہ! " اسے اپنے عشق کا نصف ذرّہ مرحمت فرما دے۔
یہ دعا مانگنے کے بعد آپ وہاں سے تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد پھر اسی راستہ سے