جب کیوبا کے صدر کاسترو سے 1960 میں امریکی انتخابات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نکسن یا کینیڈی کو کس سے ترجیح دیں گے؟ اس نے جواب دیا: دو جوتوں کے درمیان موازنہ کرنا ممکن نہیں ہے جو ایک ہی شخص پہنتا ہے۔ امریکہ میں صرف ایک ہی جماعت کی حکومت ہے ، جو صیہونی جماعت ہے،
اور اس کے دو ونگ ہیں:
ریپبلکن ونگ سخت صہیونی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے،
اور
ڈیموکریٹک ونگ صہیونی نرم طاقت کی نمائندگی کرتا ہے. اہداف اور حکمت عملیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک ان صدور کو ذرائع اور مواقع دینے کی بات ہے تو، وہ ہر صدر کو ایک معمولی فرق کیے ساتھ خاص قسم کی
رازداری اور نقل و حرکت کے لئے مختلف اجازت دیتے ہیں۔
ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں کہ امریکہ میں بیڈن جیتے یا ٹرمپ ہارے، ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنی اجاری داری قائم رکھنے اور اپنے مفاد کو ہر حال اور ہر دور میں مقدم رکھتا ہے۔ ہمارا ملک کے خلاف ماضی میں امریکہ
کے کردار کا تجربہ اور حالیہ 30 برسوں میں مسلم ممالک پر اس کی لشکر کشی اس بات کا ثبوت ہے۔
حال ہی میں 2 دن قبل امریکن ایمبیسی کی ایک ٹویٹ جس میں احسن اقبال کا بیانیہ ری ٹویٹ کیا گیا جبکہ ایمبسی کی پالیسی ریٹویٹ کی نہیں تھی۔ اس ٹویٹ میں بلاواسطہ فوج کے خلاف تحریک تھی
جو ایک جمہوری حکومت اور ملک کی حفاظت کے ادارے کے خلاف امریکہ کی خفیہ کاروائی یا کوشش کی چال اور دلی آرزو کی خواہش کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا۔
انکی اس بات پر جب جواب طلب کیا گیا تو انہوں نے اس طرح معذرت کی کہ ان کا آفیشیئل کمپیوٹرپرکنٹرول کسی نامعلوم وجہ سے موقوف ہو گیا تھا۔
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے امریکہ جیسے جدید ترقی یافتہ ملک کا محفوظ ترین ایمبیسی کا آفیشیئل کمپیوٹر کس طرح کوئی اور انکی مرضی کے بغیر استعمال کرسکتا ہے!
خیر
ہمیں سب معلوم ہے کہ امریکہ کسی اسلامی ملک کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا اور پھر پاکستان کا تو کبھی نہیں۔
یہ بات بھی شاید کسی نے نوٹ نہیں کی ہوگی اور وہ یہ کہ
روس اور چین کے ساتھ کچھ اور ممالک بھی ابھی تک امریکہ انتخابات کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ روس اور چین کی طرف سے ابھی تک جو باٸیڈن کو مبارک باد کا رواٸتی پیغام بھی نہیں بھیجا گیا۔جو بائیڈن موصوف کا ناٸب صدر کے طور پر
دو مرتبہ پاکستان آنا ہوا تھا اس وقت یہاں پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا اور اسے نشانِ پاکستان کا اعزاز زرداری کی صدارت کے دوران دیا گیا تھا۔
ویسے میری ذاتی رائے میں جوبائیڈن سنجیدہ مزاج کا بندہ ہے اور وہ دنیا کے امن کے سلسلے میں وہ اہم فیصلے کرنا ضروری سمجھے گا جیسا کہ انڈیا
اور سعودی عرب کا جو موجودہ کردار ہے۔ خود بھارتی اخبار The Wire کے مطابق صدر جو باٸیڈن نریندر مودی کو تیر کی طرح سیدھا کر دے گا ۔اس کی ہندو انتہا پسندی اور ہندواتا مودی کو لے کر بیٹھ جاۓ گی کہ نیا امریکی صدر اسے برداشت نہیں کرنے کا۔امریکی صدر جو بائیڈن مودی اور مودی کے یار
شاہ سلمان کے معاملے میں نرم ہو نے والا نہیں ہے ۔کشمیر کا معاملہ اب امریکہ کی طرف سے مختلف انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، ا یک بہت سنجیدہ معاملے کے طور پر جس کا حل نکالنا ضروری ہے ۔ اور الحمد للہ پاکستان کو ریجن میں جو لیڈنگ رول ملا ہے، اس رول سےفائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو
امریکہ سے برابری سے تعلقات رکھتے ہوئے اس اہم مسلئہ کا پر امن اور پائیدار حل کرے جو کشمیرکی آزادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
اور یہ صرف عمران خان کی زیر قیادت دور حکومت میں ہی ممکن ہوسکتا ہے
نہ کہ پرچی سرکار یا مشیر فضلانڈو یا پھر بلو رانی کے
پاکستان زندہ باد
پاک فوج زندہ باد🇵🇰
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک سبق آموز واقعہ
چیونٹی کی سزا
ایک دن علامہ ابن قیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک چیونٹی کو دیکھا جو ایک ٹڈی کے پَر کے پاس آئی اور اس کو اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی مگر نہیں لے جا سکی، کئی بار کوشش کرنے کے بعد اپنے کیمپ (بل) کی طرف دوڑی تھوڑی ہی دیر میں وہاں⬇️
سے چیوٹیوں کی ایک فوج لے کر نمودار ہوئی اور انکو لے کر اس جگہ آگئی جہاں پَر ملا تھا، گویا وہ ان کو لے کر پر لے جانا چاہتی تھی. چیونٹیوں کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے ابن قیم نے وہ پر اٹھا لیا تو ان سب نے وہاں اس پر کو تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلے گئے۔مگر ایک چیونٹی وہیں رہی⬇️
اور ڈھونڈنے لگی جو شاید وہی چیونٹی تھی۔ اس دوران
ابن قیم نے وہ پر دوبارہ اسی جگہ رکھ لیا جبکہ اس چیوونٹی کو دوبارہ وہی پر مل گیا تو وہ ایک بار پھر دوڑ کر اپنے کیمپ میں چلی گئی اور پہلے کے مقابلے میں کچھ کم چیونٹوں کو لے کر آئی گویا زیادہ تر نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔⬇️
نومبر، دسمبر میں کراچی، لاہور، پشاورمیں بھارتی دہشت گردی کا خطرہ ہے:
حالیہ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجرجنرل بابر افتخاراور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوت کا بیانیہ اور ثبوت و شواہد اورمہزب دنیا کی بے حسی اور ہمارے مفاد پرست سیاست دان⬇️
امریکی جریدے فارن پالیسی نے ہمارے ہمسائے، ازلی دشمن اور ہماری طرف سے تصدیق شدہ دہشت گرد بھارت کی فسادی اور دہشتگرد پالسیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ "فارن پالیسی" دہشت گردی میں بھارت کو سرفہرست رکھتے ہوئے بھارت اور داعش کے باہمی روابط کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ میگزین نے بھارت کی⬇️
انتہا پسند پالیسی کو تباہ کنخطرہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی انتہا پسند پالیسی کا نوٹس نہ لیا گیا تو تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ بھارتی دہشت گردی کی کارروائیاں تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔امریکی جریدکے مطابق مختلف ممالک میں بھارتی سرپرستی میں دہشتگردوں کے
#مارخورز
پاک فوج کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک ادنی سی کاوش
یہ جو ہم اپنے گھروں میں سکون سے سوتے ہیں
اسکے پیچھے یہ فوجی جوان ہی ہوتے ہیں
پاک فوج، یہ نام سنتے ہی ہر محب وطن کے دل میں عزت و محبت کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بنا کسی دنیاوی مفاد کے ہمارے دفاع کی خاطر جسم⬇️
کو جھلسا دینے والی گرمی اور لہو کو جما دینے والی سردی میں اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرض کی اداٸیگی میں ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ملک کی محبت ہر محبت سے بڑھ کر ان کے دلوں میں رچی بسی ہوتی ہے۔ نہ ہی اپنوں سے الفت اور نہ ہی زندگی کی چاہت ان کو اپنے مقصد سے⬇️
دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا اس میں کتا سے مراد "کُتا" "dog" ہی لیا، سمجھا، اور پڑھا بھی جاتا ہے، لیکن آج نئی بات علم میں آئی تو ہماری علمیت کا جنازہ نکل گیا یہ لفظ کُتا نہیں بلکہ کَتا ہے جس سے مراد کپڑے دھونے کا وہ ڈنڈا ہے جسے دھوبی ساتھ لیے پھرتا ہے۔😂
"وضاحت" اصل لفظ کتکہ ہے جو بگڑ کر کتا بن گیا۔ پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے اور کپڑوں کو صاف کرنے کیلئے دھوبی اک بھاری بھرکم ڈنڈے کا استعمال کیا کرتا تھا، جس کو کتکہ کہا جاتا تھا۔ وہ کتکہ گھاٹ پر نہیں رکھا جاتا تھا کیوں کہ کوئی اور اٹھا لے گا😂😂
اور گھر لانے میں بے جا مشقت کرنی پڑتی ۔ اسلئے دھوبی وہ کتکہ راستے میں مناسب جگہ چھپا دیتا اور اگلے دن نکال کر پھر استعمال کر لیتا۔ اس طرح کتکہ نہ گھر جا پاتا اور نہ گھاٹ پر رات گزارتا۔ دھوبی کا کتکہ ۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جو نئے دور میں بگڑ کر کتا بن گیا۔😂😂😂
موت ہر آدمی کے گهر دستک دیتی ہے، کبهی ایسا ہوتا ہے کہ موت پہلی دستک کے بعد ہی گهر میں داخل ہو جاتی ہے اور آدمی کی روح کو قبض کر لیتی ہے. وه اچانک دنیا کے امتحان گاه سے نکال کر آخرت میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وه اپنے اعمال کا انجام پائے.⬇️
اچانک موت کا یہ معاملہ مختلف صورتوں میں پیش آتا ہے. مثلا دل کا تیز دوره پڑا اور فوری طور پر آدمی کی موت واقع ہو گئی. سڑک پر سخت حادثہ پیش آیا اور ایک لمحہ کے اندر زنده انسان مرده انسان میں تبدیل ہو گیا- کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان صحت کی حالت میں رات کو سویا اور صبح ہوئی⬇️
تو بستر پر صرف اس کی بے جان لاش پڑی هوئی تهی. اچانک موت بلاشبہ بے حد سنگین موت ہے. کیونکہ آدمی کو اس میں یہ موقع نہیں ملتا کہ وه موت سے پہلے اپنی غلطیوں کی تلافی کر سکے.
دوسری صورت وه ہے جب کہ موت بار بار ایک آدمی کے گهر دستک دیتی ہے لیکن اندر داخل هونے سے پہلے ہی⬇️
سابق امریکی نائب صدر مسٹر بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل انکشاف کیا تھا کہ دو سال قبل جب اس کے جواں سال بیٹے کو کینسر کے مرض نے گھیر لیا تو وہ اس کے علاج کیلئے پیسے پیسے کا محتاج ہوگیا۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنا واحد اثاثہ جو کہ 4 ہزار سکوائر فٹ گھر تھا،⬇️
اونے پونے داموں بیچنے کا فیصلہ کرلیا۔ قرض وہ اس لئے نہ لے سکا کیونکہ ایک تو اس کی شرائط بہت سخت تھیں، دوسرا اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ اپنی مدت ملازمت کے بعد بھی قرض کی قسطیں ادا کرسکتا۔
گھر کا سودا تقریباً ہو چکا تھا کہ صدر ابامہ کو کسی طرح پتہ چل گیا اور اس نے اپنے ذاتی⬇️
بنک اکاؤنٹ سے جو بائیڈن کی مدد کرکے اس کا گھر بیچنے سے بچا لیا۔ جنوری 2015 میں لیکن بائیڈن کا بیٹا کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ نہ کرسکا اور دنیا سے چلا گیا۔ اوباما کی الوداعی تقریب کے دوران یہ انکشاف کرتے ہوئے جو بائیڈن آبدیدہ ہو گئے تھے⬇️