ارب پتی صنعت کار، ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران
ہوا جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کنارے سگریٹ سُلگائے بیٹھا تھا۔
صنعت کار۔ تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرے۔ کیونکہ آج کے دن میں کافی
مچھلیاں پکڑ چکا ہوں۔
صنعت کار۔ تو تم مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرا۔ میں مزید مچھلیاں پکڑ کر کیا کروں گا؟
صنعت کار۔ تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو،
پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی جس سے تم گہرے پانیوں میں جاکر مچھلیاں پکڑ سکو گے. تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے۔ اس سے تم زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور
زیادہ پیسے کماؤ گے۔ جلد ہی تم ان پیسوں کی بدولت دو کشتیوں کے مالک بن جاؤ گے۔ ہوسکتا ہے تمہارا ذاتی جہازوں کا بیڑا ہو۔ پھر تم بھی میری طرح امیر ہو جاؤ گے۔
مچھیرا۔ اس کے بعد میں کیا کروں گا؟
صنعت کار۔ پھر تم آرام سے بیٹھ کر زندگی کا لُطف اُٹھانا۔
مچھیرا۔ تمہیں کیا لگتا ہے، میں اس وقت کیا کر رہا ہوں؟
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے-
خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوهےدانی تھی-
خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پچھلے حصے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوهےدانی آ گئی ہے-
کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا-
مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ... جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے-
مایوس چوہے نے دیوار میں جا کر بکرے کو یہ بات بتائی ... اور بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا-
"اے سبزی والے ذرا ایک کلو آلو ، آدھا کلو مٹر ، اور ایک کلو ٹماٹر دینا۔ اور ہاں تازہ سبزی دینا۔ گلی سڑی نہیں۔"
"باجی میرا مال بالکل تازہ ہے۔ دیکھیں، گلی سڑی سبزیاں میں پہلے ہی پیٹی میں ڈال دیتا ہوں۔" یہ کہتے ہوئے بخشو نے ٹھیلے کے
نیچے بندھی پیٹی کی طرف اشارہ کیا۔
"ارے بھائی گلی سڑی سبزیاں پھینک کیوں نہیں دیتے ؟ کیا ضرورت ہے سنبھال کر رکھنے کی؟"
"باجی، جانور مویشی کے آگے ڈال دیتا ہوں۔
بے زبان دُعا دیتے ہیں۔"
بخشو دن بھر پھیری لگاتا تھا۔ بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔ اُس نے اپنے دونوں بچوں کو اسکول میں داخل کروا دیا تھا تاکہ پڑھ لکھ کر عزت کی دال روٹی کما
دوکان بند میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا ۔یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی۔اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری ٹکر کر بہت معمولی سا زخمی ہوگیا ۔گھبراہٹ میں سانپ نے پلٹ کر آری
پر پوری قوت سے ڈنگ مارا۔سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہوگیا ۔ اگلی بار سانپ نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپیٹ کر اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی۔دوسری دن جب
دوکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا ۔بعض اوقات غصہ میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک گنہ گار شخص تھا ، جس سے لوگوں نے بیزار ہو کر اس کو اپنے شہر سے نکال دیا ۔ وہ ایک ویرانے میں رہنے لگا تھا اور جب اس کی موت کا وقت ہوا اور وہ انتقال کر گیا ، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر
وحی آئی کہ ہمارے ایک ولی کی فلاں جگہ وفات ہو گئی ہے ، آپ اس کو غسل و کفن دے کر نماز جنازہ پڑھیں اور لوگوں کو بتادیں کہ جس کے گناہ زیادہ ہوں ، وہ لوگ اگر اس کے جنازے میں شریک ہوں ، تو میں ان کی بھی مغفرت کردوں گا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں اعلان کر دیا اور کثیر تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب لوگوں نے اس کی لاش کو دیکھا ، تو اس کو پہچان لیا اور کہا کہ حضرت ! یہ تو بڑا گنہ گار شخص تھا اور ہم نے
غزوہ دومۃ الجندل ان غزوات میں سے ہے جس میں کسی بھی سپاہی کا خون نہیں بہا اور بغیر کسی لڑائی کے مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا،
اور یہ جگہ تاریخ میں کئی مناسبتوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
غزوہ دومتہ الجندل 25 ربیع الاول 5 ہجری
کو پیش آیا۔ دومتہ الجندل اس وقت حکومت روم کی حدود میں صوبہ شام کا ایک سرحدی شہر تھا۔
اس وقت دومة الجندل سعودی عرب کے شمال مغربی حصے صوبہ الجوف میں میں واقع ہے۔
دومتہ الجندل شمال کی جانب اردن کے
ساتھ، جنوب کی جانب سے تبوک کے ساتھ اور شمال مشرق کی جانب سے صوبہ "حدود" کے ساتھ متصل ہے۔
یہ علاقہ شہر "سکاکا" کے جنوب میں واقع ہے اور خشک صحرائی اور صوبے کا گرم ترین علاقہ ہے۔
دومۃ الجندل سے دارالحکومت ریاض کا