خطرناک عورت
سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہاساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا
اللہ بخشے اسے بہت اچھی عورت تھیبنا ناراض ہوئےبغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیامسکراہٹیں سمٹیںایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی کیا نہیں بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے کہتے تو ٹھیک ہی ہیں وہ عورت واقعی
بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے نوجوان جوشیلے انداز میں بولا
میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا میں تو اس سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی پرسکون جواب جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا ایسی عورتوں
کو تو جہنم میں ہونا چاہیئے لا حولا ولا قوہ کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت اچھا کیا چھوڑ دیا نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا تجسس ختم ہوا اب سب باری باری منتشر ہونے لگے جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا کہانی خود بنانی تھی
جو رہ گئے تھے وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے
میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا میری ماں چاہتی تھی کہ میری
شادی ہوجائے رشتہ ڈھونڈا گیا ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی سلیقہ مند خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے تربیت کی نہیںتربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس
آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہامیری بیٹی سیدھی سادھی ہے اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا
نہیں اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا یوں ہے بڑے دل والی اپنےسائیں کو خوش رکھے گی وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا سلیقہ مند سگھڑ اور تابعدار بابا جی کی وہی گھسی پٹی بابوں والی داستان ہوگی یہ سوچ کر دو نوجوان اٹھ کر چلے گئےمیری باہر دوستوں کے ساتھ صحبت کوئی
اچھی نہیں تھی ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا دوستوں میں بیٹھتا رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا وہ کیا کھاتی تھی کیا پیتی تھی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہارا
گھر آیا تو کہنے لگی آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں مجھے بھوک لگتی ہے ہوسکے تو ایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے روز روز بازار سے خریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی کیا اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے مجھے طیش آیا ہو ناں تم کسی بہت بڑے
باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے اپنی اوقات دیکھی ہے غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی مار برداشت نہیں کرسکتی تھی پشیمانی تھی یا
کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی مجھے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا یوں اس کی روٹی کا انتظام ہوگیا اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ
کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیںمیرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی غصہ حد سے سوا تھا بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے ماردوں لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی چاندی رات میں صحن
میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی میں اٹھ کر دروازے تک آیا اب آواز زیادہ واضح تھی وہ کہ رہی تھی
سائیں صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی جب
تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی مجھے اب روٹی تو ہی دے تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا وہ میری شکایت کررہی تھی لیکن کس سے کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر ہاتھ میں سوئی دھاگہ اور فریم
لئے خود سے باتیں کررہی تھی وہاں کوئی بھی نہ تھا میرے پیروں سے زمین نکل گئی وہ الله سے میری شکایت کررہی تھی وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی آج مجھے سمجھ آیا تھا وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے
بھی خدا شناس تھی میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا یہ بڑی خطرناک عورت ہے بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہےمجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے حقیقت
یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا میرے پلٹنے پر کہنے لگا میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی وہ تو بس سائیں کو خوش رکھنا جانتی ہےاس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ
رات اس نے یہی تو مانگا تھا تو خود مجھے روٹی دے تیرا نائب تو خائن نکلا اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا میں بے تحاشہ رویا اس ک سائیں بہت بڑا تھا اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا میں
واقعی ڈر گیا تھا میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو ٹھیک کہتے ہیں لوگ کہاں میں کہاں وہ بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی میں کور چشم اسے پہچان نہیں سکا میں نہیں ڈرتا تھا حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا
اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو کہانی کے اختتام تک ایک جوان باباجی کے پاس بیٹھا تھا
کہانیاں بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن حقیقت تک پہنچنے والا کوئی ایک ہی ہوتا ہے
😢😓
ہالی ووڈ کے مشہور اداکار سلویسٹر سٹالون نے صرف 25 ڈالر میں اپنا عزیز کتا ایک شرابی کو بیچ دیا تھا یہ سٹالون کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا وہ بے گھر تھا اس کی جیب خالی تھی اُس کے پاس کام نہ تھا وہ اپنے کتے کو کیا خود کو بھی نہیں کھلا پا رہا تھا
بات سلویسٹر سٹالون کے دکھ بیان کرنے
کی نہیں بلکہ زندگی کیلئے طے کئے ہوئے آپ کے سکرپٹ کی ہے کیونکہ سٹالون نے تب لیجنڈ باکسر محمد علی اور چک ویپنر کا میچ دیکھا اور اس نے راکی کا سکرپٹ لکھ لیا یہ سکرپٹ لے کر وہ فلم پروڈیوسرز کے پاس بس ایک ڈیمانڈ کے ساتھ گیا اس سکرپٹ میں مجھے ہیرو کاسٹ کر لو سکرپٹ بہت اچھا تھا اسے
سوا لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ ڈالرز تک کی آفر ہوئی لیکن کوئی اسے ہیرو لینے کو تیار نہیں تھا سٹالون نے ہر آفر کا خالی جیب انکار کیا ڈیمانڈ ایک ہی تھی ہیرو تو میں ہی ہوں گا آخر ایک فلم ساز نے اسے 35 ہزار ڈالر اور ہیرو کا کردار آفر کیا اور یہ بلاک بسٹر فلم بن گئی اس شرابی سے سٹالون نے
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا قابلیت پوچھی گئ کہا سیاسی ہوں (عربی میں سیاسی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا لیا جو
حال ہی میں فوت ھو چکا تھا چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا اس نے کہا نسلی نہیں ھے بادشاہ کو تعجب ھوا اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا اس نے بتایا گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی یہ ایک گائے کا دودھ پی کر
اس کے ساتھ پلا ھے مسئول کو بلایا گیا تم کو کیسے پتا چلا اصیل نہیں ھے اس نے کہا جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا مسئول کے گھر اناج گھی بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور
خدا کی پہچان کا مادی ذریعہ
اللہ پاک نے سلسلہ نبوت تو ختم فرما دیا مگر یہ وعدہ کیا کہ اب قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ آفاقی آیات لوگوں کو اللہ سے متعارف کرائیں گی کیونکہ قرآنی آیات اللہ پاک کا قول ہے اور کائنات اللہ کا فعل ہے اور بقول کسے action of a man speaks louder than his words
کے مصداق دنیا جس طرح اندھا دھند مادے کی طرف دوڑی چلی جا رہی ہے وہ سائنسی بنیادوں پر خدا کی طرف ہی رخ کیئے دوڑ رہی ہے ایک انسان کے قول و فعل میں بھی تضاد ایک برائی سمجھی جاتی ہے پھر الله کے قول و فعل میں تضاد کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ سائنس اگر حقیقت تک پہنچے تو وہ کبھی بھی الله کے
خلاف دلیل نہیں بنے گی بلکہ الله کے وجود کا ٹھوس گواہ پیش کرے گی جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
[سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (53) الصافات