دو تین سال پہلے لندن کے ایک لکھاری بٹلر نے کھانوں کی خوبصورت تصاویر سے مزین ایک ریسٹورنٹ کا پورٹ فولیو بنایا. The shed of Dulwich نام کے اس ریسٹورنٹ کو آن لائن رجسٹر کیا. یہ لندن کے ریسٹورنٹ میں آخری نمبر پر تھا. تب اس
نے دوستو سے اس پر جعلی ریویو لکھوائے. مزید جعلی تصاویر لگائیں اور اس کی درجہ بندی بڑھنے لگی. اس کا فون بجنے لگا. ہر بکنگ کو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ ہم اگلے ڈیڑھ مہینے کیلئے مکمل بُک ہیں. کچھ ہی عرصہ میں ریسٹورنٹ کی درجہ بندی
بڑھتے بڑھتے ٹاپ ٢٠٠ میں پہنچ گئی. مختلف کمپنیوں نے اپنے ریسٹورنٹ کی پراڈکٹس مشہوری کیلئے اس کے ایڈریس پر بیجھنی شروع کر دیں. ایک ایسے ریسٹورنٹ کیلئے جو زمین پر کہیں موجود ہی نہ تھا.
آج کا دور ڈیجیٹل دور ہے. انسانی فطرت ہے وہ دیکھا دیکھی اجتماعی بہاو کے ساتھ بہتے بھیڑوں کا وہ ریوڑ بن گئے ہیں جن کو جعلی رپورٹس مصنوعی خبروں اور فلمائے گئے مناظر پر مشتعل بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کو عقیدت مند بھی بنایا جا سکتا
ہے. اگر آپ نے زمینی حقائق کو پرکھے جانے بغیر اور لباس میں ملبوس انسان کو ڈھونڈے بغیر ڈیجیٹل بہاو کے ساتھ اپنی سوچ باندھ لی تو آپ بھی بھیڑوں کے اس ریوڑ کی ایک بھیڑ ہی ہوں گے. وہ بھیڑ جسے کوئی بھی جب چاہے اپنی مرضی کے مقام تک ہانک کر لے جا سکتا ہے
مولانا رومی نے فرمایا میں نے بہت
انسان دیکھے جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتے اور بہت سے لباس دیکھے جن کے اندر انسان نہیں ہوتے.
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
عیسائی کے سوالات اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جوابات
ایک دفعہ ایک عیسائی نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو ارسال کیے آپ رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ان سوالات کے جوابات درکار ہیں عیسائی کے سوالات یہ تھے –
1 – ایک ماں کے شکم سے دو بچے پیدا
ہوے اور دونوں ایک ہی وقت ایک ہی دن میں پیدا ہوے پھر ایک ہی روز دونوں کا انتقال ہوا ایک کی عمر سو سال بڑی دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے یہ دونوں کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟
2 – وہ کونسی زمین ہے جہاں ابتداے
پیدائش سے قیامت تک صرف ایک مرتبہ سورج نکلا اور نہ ہی پہلے کبھی نکلا اور نہ آئندہ کبھی نکلے گا ؟
3 – وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر
سبزی منڈی سے 50 روپے کلو کے حساب سے بینگن خرید کر 110 روپے کلو بیچنے والا سبزی فروش کہہ رہا تھا چینی کو تو آگ لگی ہوئی ہے،
پھر 350 روپے ریٹ والا بڑا گوشت 500 روپے کلو بیچنے والے قصاب کو کہتے سنا کہ ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے،
40 کلو خالص دودھ میں 20 کلو پانی اور پاؤڈر ملا کر
بیچنے والا بھی شکایت کر رہا تھا کہ اب پورا نہیں پڑتا ...
اور....
جو رکشہ ڈرائیور دن بھر کھڑا رہ کر باری کا انتظار کرتا ہے اور آوازیں لگاتا ہے، وہی
رات کو لیٹ نائٹ بلیک میل کر کہ منہ مانگے پیسے لیتا ہے،
اور....
گورنمنٹ اسپتال میں نوکری کرنے والا ڈاکٹر صرف پیسے بنانے کیلیئے مریض کو اپنے پرائیویٹ کلینک بلوا لیتا ہے،
ترکمان قبیلہ "گارکن" (گورکن، گورکان، کرہان) ایک قدیم ترین ترکمن (اوغوز) قبیلے میں سے ایک ہے اور اس کی ابتدا اوغوز خان گارکن کے پوتے سے ہے بہادر مہاکاوی "اوغوز نامہ" کے مطابق "گورکن" کا مطلب ہے بہت زیادہ کھانا پینا اور لوگوں کی بھوک کو پورا کرنا۔
قدیم زمانے سے یوریشیا مشرق وسطی اور ہندوستان میں رونما ہونے والے تاریخی عمل میں ترکمان قبیلے گارکن کا ایک اہم کردار تھا قدیم مُلک گرکانیہ جو بحیرہ کیسپین کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے جدید دریاؤں گورکن اور اتریک کے بیسن میں اس
کا نام ترکمان قبیلہ گارکن ("گورکان - گارکن") کے نام ہے دریائے گورگن کا نام بھی گارکن قبیلے کے نام سے آتا ہے سلطنت عثمانیہ میں خانہ بدوش ترکمانوں (یوریق) کو یونان کے ذرائع کے مطابق خیرکان (گرکان / گارکن) بھی کہا جاتا ہے جو اس
عورت جب پیدا ہوتی ہے تو کوئی اُس کی پیدائش پر زیادہ خوش نہیں ہوتا،،،
لیکن وہ تمام عمر لوگوں کو خوشیاں بانٹنے میں لگی رہتی ہے، جب وہ ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو اُن کی وفادار بن کر رہتی ہے، اُن کے لئے دعائیں کرتی ہے، جب شادی
ہوتی ہے تو شوہر کی وفادار بن کر ساری زندگی اسکی لمبی عمر کے لئے دعائیں مانگتی ہے،
جب وہ ماں بنتی ہے تو باقی زندگی بچوں کو پالنے اور ان کی اچھی تربیت کرنے میں گزار دیتی ہے، اولاد چاہے فرمانبردار ہو یا نہ
ہو لیکن وہ انہیں دعائیں دیتی نہیں تھکتی،،،
اِن ساری حقیقتوں کے باوجود عورت کا اپنا کچھ نہیں ہوتا...
جہاں پیدا ہوتی ہے وہ باپ کا گھر کہلاتا ہے، بیاہی جائے تو شوہر کا گھر، جب بوڑھی ہو
کلکتہ کے قریب ہوورا کے غریب محلے میں رہنے والی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی
1526ء کو مغل بادشاہوں شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر سےلیکر 1707ء تک اورنگ زیب عالمگیر جیسےنامور شہنشاہوں نے ھندوستان پر200 سال تک اور پھر انکے نااہل جانشینوں نے 1707ء سے لیکر
1857ءتک 100سال اور کل تقریباََ 300سوسال تک حکمرانی کی. لیکن ھندووں کی تنگ نظری اور احسان فراموشی دیکھیں کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررھی ھیں سلطانہ بیگم شائن انڈیا میں روزی روٹی
کمانے کیلیے چائےاور سموسے پکوڑے فروخت کرکے گزر اوقات کرتی ھیں انکو کچھ وظیفہ سرکار کیطرف سے بھی ملتا ہے جو کہ بلکل ہی نا کافی تھا.
( سلطانہ بیگم )
حکومت کیطرف سے انہیں تقریباََ 6000 ہزار روپے تک وظیفہ ملتا رہا ہے جس سے بمشکل گزارا