سال 2019 یعنی آج
سال 2119 یعنی کل.

اب سے صرف سو سال بعد اس تحریر کو پڑھنے والا ہر شخص زیر زمین مدفون ہوگا.

ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوکر رزق خاک ہوچکی ہوں گی.

*تب تک ہماری جنت یا جہنم کا فیصلہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا.*
جبکہ اس دوران سطح زمین کے اوپر ہمارے چھوڑے ہوئے گھر کسی اور کے ہوچکے ہوں گے.

ہمارے کپڑے کوئی اور پہن رہا ہوگا اور ہماری محنت اور محبت سے حاصل شدہ گاڑیاں کوئی اور چلارہا ہوگا۔

*اس وقت ہم کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوں گے.*
بھلا آپ اپنے پڑ دادا یا پڑ دادی کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں کیا....؟

*تو کوئی ہمارے بارے میں کیوں سوچنے لگا؟؟*

آج زمین کے اوپر ہمارا وجود,
جس کی بنیاد پر یہاں ہمارا ہر وقت کا شور و شغب,

ہٹو بچو کی صدائیں اور ان گھروں کو آباد کرنے کے لیے ہماری محنت ومشقت,
یہ سب کچھ ہم سے پہلے کسی اور کا تھا اور ہمارے بعد یقینی طور پر کسی اور کا ہونے والا ہے.

*کوئی ایسا ہونے سے روک سکتا ہے تو روک لے.*

اس دنیا سے گزرنے والی ہر نسل بمشکل اس پر ایک طائرانہ سی محض الوداعی نظر ہی ڈال پاتی ہے.
خواہشات کی تکمیل کا موقع بھلا کسی کو اس دار الفناء میں کہاں مل سکتا ہے؟

*ہماری زندگی درحقیقت ہمارے تصورات و خواہشات کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے.*

سال 2119 میں ہم سب پر اپنی اپنی قبر میں اس دنیا اور اپنی خواہشات کی
حقیقت آشکار ہوچکی ہوگی۔۔۔

*ہائے افسوس!!!*

اس دھوکے کے گھر میں کیسی احمقانہ خواہشات اور کیسے جاہلانہ منصوبے ہم نے بنا رکھے تھے؟؟

تب ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوجائے گی کہ

*اے کاش!*

ہم نے اپنی ترجیحات میں
*اللہ اور اس کے رسول*
کی وفاداری کو سب سے مقدم و راجح رکھا ہوتا تو

آج سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر آنے کے بجائے قبر کا زاد راہ اور اعمال صالحہ کی شکل میں صدقہ جاریہ بھی ساتھ لاسکتے.

تب ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ دنیا
اس لائق ہرگز نہ تھی کہ

اس کے لیے اتنا سب کچھ جان, مال, وقت اور تمام صلاحیتیں داؤ پہ لگادی جاتیں۔۔۔۔

*آج 2019 میں یہ مضمون پڑھنے والے بہت سے لوگ 2119 میں یہ تمنا کر رہے ہوں گے :*

*"رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ "*
اے میرے پروردگار!
مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ میں جو کچھ وہاں چھوڑ آیا ہوں اس میں واپس جاکر نیک اعمال کرسکوں. "

*لیکن اس درخواست کا جواب بہت سخت ملے گا:*

*"كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ"*
(المؤمنون:99-100)

"ہرگز نہیں!
یہ صرف ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے
(قابل عمل سنجیدہ بات نہیں ہے).
اب تو قیامت تک ان کے پیچھے باڑ لگادی گئی ہے. "

*2119 میں قبر میں وہ یہ تمنا بھی کرے گا:*
*"يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي" (الفجر:24)*

ہائے میری ہلاکت وبربادی! میں اپنی زندگی کے لئے کچھ آگے بھیج دیتا. "

موت کا فرشتہ میرے اور آپ کے نیک ہونے کے انتظار میں نہیں ہے.

*آئیے!*

موت کے فرشتہ کے
انتظار کے بجائے موت کی تیاری کریں اور اعمال صالحہ والی زندگی اختیار کرلیں۔۔۔

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇👇
bit.ly/2FNSbwa

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with دنیــــائےادبـــــــ

دنیــــائےادبـــــــ Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @AliBhattiTP

24 Nov
کلکتہ کے قریب ہوورا کے غریب محلے میں رہنے والی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی

1526ء کو مغل بادشاہوں شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر سےلیکر 1707ء تک اورنگ زیب عالمگیر جیسےنامور شہنشاہوں نے ھندوستان پر200 سال تک اور پھر انکے نااہل جانشینوں نے 1707ء سے لیکر Image
1857ءتک 100سال اور کل تقریباََ 300سوسال تک حکمرانی کی. لیکن ھندووں کی تنگ نظری اور احسان فراموشی دیکھیں کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررھی ھیں سلطانہ بیگم شائن انڈیا میں روزی روٹی
کمانے کیلیے چائےاور سموسے پکوڑے فروخت کرکے گزر اوقات کرتی ھیں انکو کچھ وظیفہ سرکار کیطرف سے بھی ملتا ہے جو کہ بلکل ہی نا کافی تھا.

( سلطانہ بیگم )

حکومت کیطرف سے انہیں تقریباََ 6000 ہزار روپے تک وظیفہ ملتا رہا ہے جس سے بمشکل گزارا
Read 14 tweets
22 Nov
نوے 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کے دکھ عجیب

آج 2020 میں تقریباً ہر وہ شخص جس نے اپنا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ ۹۰ میں گزارا ، عجیب سی جذباتی تنہائ یا اداسی کا شکار ہے ، ہم وہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ وقت کی رفتار کو جھیلا ہے ،
ٹیکنالوجی ، جذبات اور اشیاء اس قدر تیزی سے بدلی کہ ہم کئی چیزوں کی انتہااور زوال کے گواہ ہیں
جیسے دادی ، نانی کے ہاتھ کی چوری سے پیزا تک کا سفر ، وہ چوریاں کب ماضی کا حصہ بنی ، سوچو تو ہوک اٹھتی ہے
کب چولہے کے گرد بیٹھ کر ، کوئلوں پر پیالی رکھ کر سالن کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ، توے سے روٹی اترنے کا انتظار آڑدر سرو ہونے کے انتظار سے جگہ بدل گیا
رات کو کپاس کے ٹینڈوں سے کپاس نکالتے
Read 9 tweets
21 Nov
یاد رکھیں جس کی کوئی فریاد نہیں سنتا اس کی خدا سنتا ہے

بابا جی:
"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی"برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک
منچلے نے استہزائیہ کہا.ساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا.
"اللہ بخشے اسے،بہت اچھی عورت تھی."بنا ناراض ہوئے،بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
مسکراہٹیں سمٹیں،ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "
لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی.کیا نہیں؟"بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں،وہ عورت واقعی بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی"
"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے،عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟"
Read 24 tweets
20 Nov
لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی

ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہو کر ایک شخص کو یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ھونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اور اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور Image
سورج غروب ھو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔
یہ سن کر وہ شخص چل پڑا ۔ چلتے چلتے ظہر ھوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاھئے، مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور
سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں،، پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاھئے۔
Read 9 tweets
20 Nov
دلچسپ حقائق :

1.نارتھ کوریا اور کیوبا صرف دو ممالک ایسے ہیں جہاں کوکا کولا فروخت نہیں ہوتی۔
2.دنیا میں سب سے زیادہ فرانس کو دیکھنے لوگ جاتے ہیں۔
3. ان ڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں سب سے
زیادہ چھوٹے قد کے لوگ رہتے ہیں۔
4. ایک عام سے بڑے بادل کا وزن تقریباً سو ہاتھیوں کے برابر ہوتا ہے۔
5. دنیا میں ہر سیکنڈ میں چار بچے پیدا ہوتے ہیں ۔
6. دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں
آتے ہیں۔
7. سویڈن ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ جزیرے ہیں تقریباً 221,800
8. دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان چینی ہے۔
9. بھارت کے گائوں پپلانٹری میں جب بھی
Read 7 tweets
19 Nov
ارب پتی صنعت کار، ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران
ہوا جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کنارے سگریٹ سُلگائے بیٹھا تھا۔
صنعت کار۔ تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرے۔ کیونکہ آج کے دن میں کافی
مچھلیاں پکڑ چکا ہوں۔
صنعت کار۔ تو تم مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرا۔ میں مزید مچھلیاں پکڑ کر کیا کروں گا؟
صنعت کار۔ تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو،
پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی جس سے تم گہرے پانیوں میں جاکر مچھلیاں پکڑ سکو گے. تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے۔ اس سے تم زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!