عورت جب پیدا ہوتی ہے تو کوئی اُس کی پیدائش پر زیادہ خوش نہیں ہوتا،،،
لیکن وہ تمام عمر لوگوں کو خوشیاں بانٹنے میں لگی رہتی ہے، جب وہ ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو اُن کی وفادار بن کر رہتی ہے، اُن کے لئے دعائیں کرتی ہے، جب شادی
ہوتی ہے تو شوہر کی وفادار بن کر ساری زندگی اسکی لمبی عمر کے لئے دعائیں مانگتی ہے،
جب وہ ماں بنتی ہے تو باقی زندگی بچوں کو پالنے اور ان کی اچھی تربیت کرنے میں گزار دیتی ہے، اولاد چاہے فرمانبردار ہو یا نہ
ہو لیکن وہ انہیں دعائیں دیتی نہیں تھکتی،،،
اِن ساری حقیقتوں کے باوجود عورت کا اپنا کچھ نہیں ہوتا...
جہاں پیدا ہوتی ہے وہ باپ کا گھر کہلاتا ہے، بیاہی جائے تو شوہر کا گھر، جب بوڑھی ہو
تو بیٹوں کا گھر اور اگر اُس کا اپنا کچھ ہے تو فقط ایک قبر۔۔۔
کیا عورت ڈھیٹ ہے...!!!؟
ہرگِز نہیں...!!!
عورت ایک عظیم ہستی ہے...!!!
جو ہر رشتہ خلوصِ دل سے نبھاتی ہے...!!!
عورت کو آج تک کوئی سمجھ نہیں سکا لیکن وہ ہر کسی کے مِزاج کو سمجھتی ہے، ہر کسی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ عورت بےعقل ہوتی ہے تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اُس کی ماں کی گود ہے؟؟؟
اور ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے؟؟؟
کیوں کیوں کیوں؟؟؟
اس کیوں کا جواب یہ معاشرہ ہے جس نے آج تک عورت کو اُس کا اصل مقام دینے کی کوشش ہی نہیں کی، وہ مقام جس کی وہ مستحق ہے۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ ملک اور قوم ترقی کرنے کے بجائے ہر شعبہِ زندگی میں تنزلی کا شکار ہے۔۔۔
میری اِس معاشرے سے گزارش ہے کہ خُدارا عورت کو اُس کا
اصل مقام دیں
اور ہر عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں تاکہ ہماری قوم ایک بہتر مستقبل پاسکے۔۔!
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
دو تین سال پہلے لندن کے ایک لکھاری بٹلر نے کھانوں کی خوبصورت تصاویر سے مزین ایک ریسٹورنٹ کا پورٹ فولیو بنایا. The shed of Dulwich نام کے اس ریسٹورنٹ کو آن لائن رجسٹر کیا. یہ لندن کے ریسٹورنٹ میں آخری نمبر پر تھا. تب اس
نے دوستو سے اس پر جعلی ریویو لکھوائے. مزید جعلی تصاویر لگائیں اور اس کی درجہ بندی بڑھنے لگی. اس کا فون بجنے لگا. ہر بکنگ کو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ ہم اگلے ڈیڑھ مہینے کیلئے مکمل بُک ہیں. کچھ ہی عرصہ میں ریسٹورنٹ کی درجہ بندی
بڑھتے بڑھتے ٹاپ ٢٠٠ میں پہنچ گئی. مختلف کمپنیوں نے اپنے ریسٹورنٹ کی پراڈکٹس مشہوری کیلئے اس کے ایڈریس پر بیجھنی شروع کر دیں. ایک ایسے ریسٹورنٹ کیلئے جو زمین پر کہیں موجود ہی نہ تھا.
سبزی منڈی سے 50 روپے کلو کے حساب سے بینگن خرید کر 110 روپے کلو بیچنے والا سبزی فروش کہہ رہا تھا چینی کو تو آگ لگی ہوئی ہے،
پھر 350 روپے ریٹ والا بڑا گوشت 500 روپے کلو بیچنے والے قصاب کو کہتے سنا کہ ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے،
40 کلو خالص دودھ میں 20 کلو پانی اور پاؤڈر ملا کر
بیچنے والا بھی شکایت کر رہا تھا کہ اب پورا نہیں پڑتا ...
اور....
جو رکشہ ڈرائیور دن بھر کھڑا رہ کر باری کا انتظار کرتا ہے اور آوازیں لگاتا ہے، وہی
رات کو لیٹ نائٹ بلیک میل کر کہ منہ مانگے پیسے لیتا ہے،
اور....
گورنمنٹ اسپتال میں نوکری کرنے والا ڈاکٹر صرف پیسے بنانے کیلیئے مریض کو اپنے پرائیویٹ کلینک بلوا لیتا ہے،
ترکمان قبیلہ "گارکن" (گورکن، گورکان، کرہان) ایک قدیم ترین ترکمن (اوغوز) قبیلے میں سے ایک ہے اور اس کی ابتدا اوغوز خان گارکن کے پوتے سے ہے بہادر مہاکاوی "اوغوز نامہ" کے مطابق "گورکن" کا مطلب ہے بہت زیادہ کھانا پینا اور لوگوں کی بھوک کو پورا کرنا۔
قدیم زمانے سے یوریشیا مشرق وسطی اور ہندوستان میں رونما ہونے والے تاریخی عمل میں ترکمان قبیلے گارکن کا ایک اہم کردار تھا قدیم مُلک گرکانیہ جو بحیرہ کیسپین کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے جدید دریاؤں گورکن اور اتریک کے بیسن میں اس
کا نام ترکمان قبیلہ گارکن ("گورکان - گارکن") کے نام ہے دریائے گورگن کا نام بھی گارکن قبیلے کے نام سے آتا ہے سلطنت عثمانیہ میں خانہ بدوش ترکمانوں (یوریق) کو یونان کے ذرائع کے مطابق خیرکان (گرکان / گارکن) بھی کہا جاتا ہے جو اس
کلکتہ کے قریب ہوورا کے غریب محلے میں رہنے والی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی
1526ء کو مغل بادشاہوں شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر سےلیکر 1707ء تک اورنگ زیب عالمگیر جیسےنامور شہنشاہوں نے ھندوستان پر200 سال تک اور پھر انکے نااہل جانشینوں نے 1707ء سے لیکر
1857ءتک 100سال اور کل تقریباََ 300سوسال تک حکمرانی کی. لیکن ھندووں کی تنگ نظری اور احسان فراموشی دیکھیں کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررھی ھیں سلطانہ بیگم شائن انڈیا میں روزی روٹی
کمانے کیلیے چائےاور سموسے پکوڑے فروخت کرکے گزر اوقات کرتی ھیں انکو کچھ وظیفہ سرکار کیطرف سے بھی ملتا ہے جو کہ بلکل ہی نا کافی تھا.
( سلطانہ بیگم )
حکومت کیطرف سے انہیں تقریباََ 6000 ہزار روپے تک وظیفہ ملتا رہا ہے جس سے بمشکل گزارا
نوے 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کے دکھ عجیب
آج 2020 میں تقریباً ہر وہ شخص جس نے اپنا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ ۹۰ میں گزارا ، عجیب سی جذباتی تنہائ یا اداسی کا شکار ہے ، ہم وہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ وقت کی رفتار کو جھیلا ہے ،
ٹیکنالوجی ، جذبات اور اشیاء اس قدر تیزی سے بدلی کہ ہم کئی چیزوں کی انتہااور زوال کے گواہ ہیں
جیسے دادی ، نانی کے ہاتھ کی چوری سے پیزا تک کا سفر ، وہ چوریاں کب ماضی کا حصہ بنی ، سوچو تو ہوک اٹھتی ہے
کب چولہے کے گرد بیٹھ کر ، کوئلوں پر پیالی رکھ کر سالن کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ، توے سے روٹی اترنے کا انتظار آڑدر سرو ہونے کے انتظار سے جگہ بدل گیا
رات کو کپاس کے ٹینڈوں سے کپاس نکالتے