✍️ننھی دکان😥
میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔⬇️
میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی⬇️
اسکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی⬇️
دکانوں کے لیے سبزی خرید کر اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو رہا تھا کہ چکر کیا ہے۔ میں اس بچے کو چوری چوری فالو کرنے لگا۔جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ⬇️
سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی اونچی آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دونکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔
دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دوکان سے اٹھا جس کی دوکان کے سامنے اس بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی۔ اس شخص نے⬇️
آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا،ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی⬇️
بھلا ہو اس شخص کا جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہی کہا۔ تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہو گئی۔اور وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا⬇️
کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ بچہ سکول گیا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔ جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔ میں نے جلدی سے جا کر استاد کو منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔ استاد فرمانے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک گھنٹہ⬇️
دیر سے آتا ہے میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔ بچہ مار کھانے کے بعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا⬇️
وہ تو بھول ہی گیا ہوں۔
حسب معمول بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ھو گی۔ ساری رات میرا سر چکراتا رہا۔ اگلے دن صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہر حالت میں منڈی پہنچے۔ جس پر مجھے مثبت جواب ملا۔ سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا⬇️
وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔ میں نے اس کے گھر جا کر اس کی والدہ کو کہا کہ بہن میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ منہ میں یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہی۔⬇️
چھوڑوں گی نہیں اسے آج منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے حسب معمول آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے کپڑے والی دکان کی طرف چل دی⬇️
اچانک میری نظر اسکی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی درد بھری سیسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی اور میں نے فوراً اسکے استاد کی طرف دیکھا تو بہت شدت سے اسکے آنسو بہہ رہے تھے۔دونوں کے رونے میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو⬇️
اور آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو۔
اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔ حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے اور آج اس کو دکان دار نے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا سوٹ لے لو۔ ⬇️
بچے نے اس سوٹ کو پکڑ کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔ آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دیے کہ استاد ڈنڈے سے اس کو مار لے۔استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس قدر زور⬇️
سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے⬇️
ہیں اسکے پاس جسم کو مکمل ڈھانپنے والا کوئ سوٹ نہی ہے اسلیے میں نے اپنی ماں کے لیے یہ سوٹ خریدا ہے۔
میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔ یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو دو گے؟؟؟
بچے کے جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔
بچے نے جواب دیا نہیں انکل جی ⬇️
چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دونگا اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے سلائی دونگا جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گئے تب میں اسے اپنی ماں کو دونگا۔
ہم اب یہ سوچ کر روتے جا رہے تھے کہ ابھی اس معصوم کو اور منڈی جانا پڑے گا،اور ننھی دکان لگانی پڑے گی۔۔۔(بشریٰ عزیز)🔄
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
*تین فطری قوانین جو کڑوے تو ہیں لیکن حق ہیں*
*پہلا قانون فطرت:*
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔⬇️
یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
*دوسرا قانون فطرت:*
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ ۔ ۔
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔⬇️
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔
*تیسرا قانون فطرت:*
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔⬇️
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟😂
یہ کہانی ہماری ملکی سیاست پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے۔
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کرکے خود کو بادشاہ سلامت یا بہت بڑا حاکم اعلی سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی⬇️
کیوجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اسکی سمجھ میں نہ آئے۔ اسکی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحبزادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔⬇️
یہ حضرت بھی ساتھ ہو لئے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحبزادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ⬇️
#SayNoToIsrael
عالمی سازش اور پاکستان
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں،مگر تاریخ کے پہیوں نے انکو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے،دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔⬇️
کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش،⬇️
اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا دنیا اگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔⬇️
پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا دوبارہ زور پکڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں سہلاکتوں کی تعدادبڑھ گئی ہے اگرملک میں سوشل ڈسٹینس کے اصولوں کو نہ اپنایا گیا تو اگلے چند ماہ میں یہ وائرس اسی طرح ہر اس علاقوں میں مریضوں کی تعداد بڑھاتا چلا جائیگا جہاں نہیں ہے۔🙏🇵🇰
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوسرے طریقہ ہائے کار کے علاوہ سوشل آئسولیشن کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے- اسی وجہ سے دنیا بھر میں سکول اور آفسز بند کیے جا رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ طلباء کو کیمپس پر نہ جانا پڑے،🙏🇵🇰
پبلک ٹرانسپورٹ محدود کیجا رہی ہے، ریسٹورانز پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، پرائیویٹ فنکشنز میں مہمانوں کی تعداد محدود کیجا رہی ہے، اور حکومتیں اپنے شہریوں کو سوشل آئسولیشن پر پابند کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں
آپ سب سے بھی درخواست ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے سوشل🙏🇵🇰
علامہ اقبال رح
ایک واقعہ، ایک سبق
علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال رح کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
" کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہودی ہوں"-
" میں یہودی ہوں "
یہ الفاظ اور یہ عزم،
ایک سبق آموز واقعہ
چیونٹی کی سزا
ایک دن علامہ ابن قیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک چیونٹی کو دیکھا جو ایک ٹڈی کے پَر کے پاس آئی اور اس کو اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی مگر نہیں لے جا سکی، کئی بار کوشش کرنے کے بعد اپنے کیمپ (بل) کی طرف دوڑی تھوڑی ہی دیر میں وہاں⬇️
سے چیوٹیوں کی ایک فوج لے کر نمودار ہوئی اور انکو لے کر اس جگہ آگئی جہاں پَر ملا تھا، گویا وہ ان کو لے کر پر لے جانا چاہتی تھی. چیونٹیوں کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے ابن قیم نے وہ پر اٹھا لیا تو ان سب نے وہاں اس پر کو تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلے گئے۔مگر ایک چیونٹی وہیں رہی⬇️
اور ڈھونڈنے لگی جو شاید وہی چیونٹی تھی۔ اس دوران
ابن قیم نے وہ پر دوبارہ اسی جگہ رکھ لیا جبکہ اس چیوونٹی کو دوبارہ وہی پر مل گیا تو وہ ایک بار پھر دوڑ کر اپنے کیمپ میں چلی گئی اور پہلے کے مقابلے میں کچھ کم چیونٹوں کو لے کر آئی گویا زیادہ تر نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔⬇️