حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟😂
یہ کہانی ہماری ملکی سیاست پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے۔
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کرکے خود کو بادشاہ سلامت یا بہت بڑا حاکم اعلی سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی⬇️
کیوجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اسکی سمجھ میں نہ آئے۔ اسکی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحبزادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔⬇️
یہ حضرت بھی ساتھ ہو لئے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحبزادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ⬇️
اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔⬇️
میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔⬇️
صاحبزادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔
پریشان ہو کر بولے، "حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟"
اگر اس کہانی کو موجودہ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں اور انکی اولادیں جو ایک واری فیر کی حکمرانی کی جستجو میں جلسے جلوسوں اور وہی پرانی گھسی پٹی اور⬇️
منافقانہ فریب یافتہ تقاریر کے ذریعے عوام کے بچوں کا مستقبل اور ملک کے وسائل کا استحصال کرنے کا ارمان لئے ہوئے ہیں، اس کہانی پر رکھ کر جانچ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی اسی طرح آج کے حالات کے برخلاف نتائج دیکھ کرڈمرا گئے ہیں اور اس روشن حقیقت اور تبدیلی کو ماننے سے انکاری ہیں کہ⬇️
عوام کا شعور بیدار ہوچکا ہے۔
انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ انکے والدین نے جس عوام کو تعلیم دور رکھکر اپنا غلام بنایا ہوا تھا وہ اب بیدار ہوچکی ہے اور انہوں نے چوروں لٹیروں اور انکی اولادوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔عوام اب دوبارہ انکے مکروفریب کے اس جال میں نہیں پھنسیں گے
🔄😂 #مارخورز
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#SayNoToIsrael
عالمی سازش اور پاکستان
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں،مگر تاریخ کے پہیوں نے انکو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے،دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔⬇️
کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش،⬇️
اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا دنیا اگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔⬇️
پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا دوبارہ زور پکڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں سہلاکتوں کی تعدادبڑھ گئی ہے اگرملک میں سوشل ڈسٹینس کے اصولوں کو نہ اپنایا گیا تو اگلے چند ماہ میں یہ وائرس اسی طرح ہر اس علاقوں میں مریضوں کی تعداد بڑھاتا چلا جائیگا جہاں نہیں ہے۔🙏🇵🇰
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوسرے طریقہ ہائے کار کے علاوہ سوشل آئسولیشن کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے- اسی وجہ سے دنیا بھر میں سکول اور آفسز بند کیے جا رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ طلباء کو کیمپس پر نہ جانا پڑے،🙏🇵🇰
پبلک ٹرانسپورٹ محدود کیجا رہی ہے، ریسٹورانز پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، پرائیویٹ فنکشنز میں مہمانوں کی تعداد محدود کیجا رہی ہے، اور حکومتیں اپنے شہریوں کو سوشل آئسولیشن پر پابند کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں
آپ سب سے بھی درخواست ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے سوشل🙏🇵🇰
علامہ اقبال رح
ایک واقعہ، ایک سبق
علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال رح کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
" کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہودی ہوں"-
" میں یہودی ہوں "
یہ الفاظ اور یہ عزم،
ایک سبق آموز واقعہ
چیونٹی کی سزا
ایک دن علامہ ابن قیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک چیونٹی کو دیکھا جو ایک ٹڈی کے پَر کے پاس آئی اور اس کو اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی مگر نہیں لے جا سکی، کئی بار کوشش کرنے کے بعد اپنے کیمپ (بل) کی طرف دوڑی تھوڑی ہی دیر میں وہاں⬇️
سے چیوٹیوں کی ایک فوج لے کر نمودار ہوئی اور انکو لے کر اس جگہ آگئی جہاں پَر ملا تھا، گویا وہ ان کو لے کر پر لے جانا چاہتی تھی. چیونٹیوں کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے ابن قیم نے وہ پر اٹھا لیا تو ان سب نے وہاں اس پر کو تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلے گئے۔مگر ایک چیونٹی وہیں رہی⬇️
اور ڈھونڈنے لگی جو شاید وہی چیونٹی تھی۔ اس دوران
ابن قیم نے وہ پر دوبارہ اسی جگہ رکھ لیا جبکہ اس چیوونٹی کو دوبارہ وہی پر مل گیا تو وہ ایک بار پھر دوڑ کر اپنے کیمپ میں چلی گئی اور پہلے کے مقابلے میں کچھ کم چیونٹوں کو لے کر آئی گویا زیادہ تر نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔⬇️
نومبر، دسمبر میں کراچی، لاہور، پشاورمیں بھارتی دہشت گردی کا خطرہ ہے:
حالیہ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجرجنرل بابر افتخاراور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوت کا بیانیہ اور ثبوت و شواہد اورمہزب دنیا کی بے حسی اور ہمارے مفاد پرست سیاست دان⬇️
امریکی جریدے فارن پالیسی نے ہمارے ہمسائے، ازلی دشمن اور ہماری طرف سے تصدیق شدہ دہشت گرد بھارت کی فسادی اور دہشتگرد پالسیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ "فارن پالیسی" دہشت گردی میں بھارت کو سرفہرست رکھتے ہوئے بھارت اور داعش کے باہمی روابط کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ میگزین نے بھارت کی⬇️
انتہا پسند پالیسی کو تباہ کنخطرہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی انتہا پسند پالیسی کا نوٹس نہ لیا گیا تو تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ بھارتی دہشت گردی کی کارروائیاں تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔امریکی جریدکے مطابق مختلف ممالک میں بھارتی سرپرستی میں دہشتگردوں کے
جب کیوبا کے صدر کاسترو سے 1960 میں امریکی انتخابات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نکسن یا کینیڈی کو کس سے ترجیح دیں گے؟ اس نے جواب دیا: دو جوتوں کے درمیان موازنہ کرنا ممکن نہیں ہے جو ایک ہی شخص پہنتا ہے۔ امریکہ میں صرف ایک ہی جماعت کی حکومت ہے ، جو صیہونی جماعت ہے،
اور اس کے دو ونگ ہیں:
ریپبلکن ونگ سخت صہیونی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے،
اور
ڈیموکریٹک ونگ صہیونی نرم طاقت کی نمائندگی کرتا ہے. اہداف اور حکمت عملیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک ان صدور کو ذرائع اور مواقع دینے کی بات ہے تو، وہ ہر صدر کو ایک معمولی فرق کیے ساتھ خاص قسم کی
رازداری اور نقل و حرکت کے لئے مختلف اجازت دیتے ہیں۔
ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں کہ امریکہ میں بیڈن جیتے یا ٹرمپ ہارے، ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنی اجاری داری قائم رکھنے اور اپنے مفاد کو ہر حال اور ہر دور میں مقدم رکھتا ہے۔ ہمارا ملک کے خلاف ماضی میں امریکہ