#SayNoToIsrael
عالمی سازش اور پاکستان
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں،مگر تاریخ کے پہیوں نے انکو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے،دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔⬇️
کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش،⬇️
اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا دنیا اگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔⬇️
بھارت نے 5اگست 2019ء کو جس طرح یکطرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی یکم جولائی کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے 30فیصد علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فکر میں تھے۔⬇️
فی الحال انہوں نے اس منصوبہ کو التوا میں رکھا ہے، کیونکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں 1993ء اور 1995 ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں⬇️
ایک فلسطینی اٹھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے ،⬇️
وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حمص بر سر اقتدار ہے۔جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014ء اور2019ء کے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، کچھ اسی طرح نیتن ہاہو نے بھی⬇️
یہودی انتہا پسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کیلئے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقہ کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں 65ہزار فلسطینی اور 11ہزار یہودی آباد ہیں۔اوسلو اکارڈ کی رو سے مغربی کنارہ کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارہ کا⬇️
60فیصد علاقہ آتا ہے اسمیں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ مغربی ایشیا میں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی اس بازی کا ایک مثبت پہلو یہ رہاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے،عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں⬇️
تو مسئلہ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت اور کشمیر کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہی ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتہ 270سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ ادراروں موساد و شین بیٹ کے⬇️
افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ انکو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اسکو کنٹرول کرنے میں مصروف رہیگا، اور زیادہ تر وقت لا اینڈ آرڈر ڈیوٹیاں دینے⬇️
سے اسکی جنگی کاردگری متاثر ہوگی۔ اندرون خانہ ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان آن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلہ پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔⬇️
کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان یعنی ڈیل آف دی سنچری ترتیب دیا ہے، کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلہ سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاوس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے،⬇️
تو سامعین میں عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی شامل تھے۔ جس کا یہی مطلب لیا گیا کہ اس پلان کو ان عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔کوشنر کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مصر، سعودی عرب اور اردن کو بھی اس پلان پر راضی کروائیگا۔ حال ہی میں امریکہ کی طاقتور یہودی لابی نے⬇️
کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہی اپنا ایک اعلیٰ سطحٰ وفد ان ممالک کے دورہ پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کو حمایت نہیں دے پائیں گے۔ اردن نے بھی خبردار کر دیا کہ نیتن یاہو کے منصوبہ سے خطے میں حالات انتہائی⬇️
خراب ہوسکتے ہیں۔ ان ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ ان ممالک میں اس کے کئی منصوبے پھنسے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو کا یک طرفہ پلان اس کے کئی منصوبو ں پر پانی پھیر سکتا ہے۔⬇️
حال ہی میں امریکہ میں متحدہ امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامہ میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی تھی کہ تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب⬇️
ممالک کا وقتی ابال ہے اور اسرائیل سے زیادہ ،خطے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کیلئے انکو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے جب امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا اور ڈیل آف دی سینچر کو مشتہر کیا ، تو اس وقت بھی کچھ اسی طرح کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔⬇️
اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کیلئے اردن ، اسرائیل پر منحصر ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے 85ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5بلین ڈالر کماتا ہے۔⬇️
فریڈ مین اسرائیلیوں کو یہ بھی باور کرارہے ہیں کہ اگر ٹرمپ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکرٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کرینگے۔ دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن، جو ایک طرح سے اسرائیل⬇️
کے بازو کے بطور کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان سے خائف ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اسوقت 6.8ملین یہودی رہتے ہیں، وہیں 7.2ملین یہودی دنیا کے دیگر 99ممالک میں آباد ہیں، جن میں 5.7ملین امریکہ کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکہ میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں⬇️
کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ اوسلو اکارڈ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولہ کو تسلیم کیا گیا تھا، اسلئے⬇️
یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پائیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہ راست امریکہ سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکہ کی 27ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کئے ہیں، جن کی رو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم ⬇️
چلانے والے اداروں کے ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو اس وقت ایک مخلوط حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے⬇️
معاہدے کی رو سے نیتن ہاہو کو اگلے سال وزارت عظمیٰ کی کرسی بنی غانز کیلئے خالی کرنی پڑے گی۔ مودی کی طرح نیتن یاہو بھی غیر روایتی اور خطرات مول لینے والے سیاستدان ہیں۔جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح یہودی انتہا پسندو ں کیلئے بھی⬇️
نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کیلئے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا ،اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انہوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں500 قبل مسیح⬇️
زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اسپر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انہوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے⬇️
عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں ابھی اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اسکے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔⬇️
اس کا اندازہ تو 1973ء کی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر 2006ء میں جنگ لبنان اور 2014ء میں غزہ جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اسلئے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے⬇️
کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اسکا وجود تسلیم کرایا جائے۔اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے،⬇️
وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت، بھارت کیلئے ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کیلئے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی ا ور نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔
(افتخار گیلانی)🔄🇵🇰🔄
عرب اسرائیل تعلقات کی آڑ میں امریکہ، اسرائیل اورہندوستان نے مشترکہ طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشو ں کو تیز کیا ہوا ہے اور ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملک میں پہلے سے موجود ان کے مقامی ایجنٹوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
نام نہاد امن معاہدہ صدی کی ڈیل و عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات، فلسطین کو ختم نہیں کر سکتے ہیں
ایسی خبریں گردش ہے جس وقت UAE و بحرین نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کیا،اسی دوران پاکستان کی کچھ مذہبی قیادتوں کو ایک سو ملین ڈالرز کی فنڈنگ بذریعہUAE اور دیگر عرب ملک سے ہوئی ہے

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Anwar Ahmad Khan

Anwar Ahmad Khan Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @AAK1958

30 Nov
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟​😂
یہ کہانی ہماری ملکی سیاست پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے۔
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کرکے خود کو بادشاہ سلامت یا بہت بڑا حاکم اعلی سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی⬇️ Image
کیوجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اسکی سمجھ میں نہ آئے۔ اسکی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحبزادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔⬇️
یہ حضرت بھی ساتھ ہو لئے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحبزادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ⬇️
Read 8 tweets
29 Nov
پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا دوبارہ زور پکڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں سہلاکتوں کی تعدادبڑھ گئی ہے اگرملک میں سوشل ڈسٹینس کے اصولوں کو نہ اپنایا گیا تو اگلے چند ماہ میں یہ وائرس اسی طرح ہر اس علاقوں میں مریضوں کی تعداد بڑھاتا چلا جائیگا جہاں نہیں ہے۔🙏🇵🇰
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوسرے طریقہ ہائے کار کے علاوہ سوشل آئسولیشن کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے- اسی وجہ سے دنیا بھر میں سکول اور آفسز بند کیے جا رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ طلباء کو کیمپس پر نہ جانا پڑے،🙏🇵🇰
پبلک ٹرانسپورٹ محدود کیجا رہی ہے، ریسٹورانز پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، پرائیویٹ فنکشنز میں مہمانوں کی تعداد محدود کیجا رہی ہے، اور حکومتیں اپنے شہریوں کو سوشل آئسولیشن پر پابند کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں
آپ سب سے بھی درخواست ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے سوشل🙏🇵🇰
Read 4 tweets
27 Nov
علامہ اقبال رح
ایک واقعہ، ایک سبق
علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال رح کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
" کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہودی ہوں"-
" میں یہودی ہوں "
یہ الفاظ اور یہ عزم،
Read 5 tweets
14 Nov
ایک سبق آموز واقعہ
چیونٹی کی سزا
ایک دن علامہ ابن قیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک چیونٹی کو دیکھا جو ایک ٹڈی کے پَر کے پاس آئی اور اس کو اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی مگر نہیں لے جا سکی، کئی بار کوشش کرنے کے بعد اپنے کیمپ (بل) کی طرف دوڑی تھوڑی ہی دیر میں وہاں⬇️
سے چیوٹیوں کی ایک فوج لے کر نمودار ہوئی اور انکو لے کر اس جگہ آگئی جہاں پَر ملا تھا، گویا وہ ان کو لے کر پر لے جانا چاہتی تھی. چیونٹیوں کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے ابن قیم نے وہ پر اٹھا لیا تو ان سب نے وہاں اس پر کو تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلے گئے۔مگر ایک چیونٹی وہیں رہی⬇️
اور ڈھونڈنے لگی جو شاید وہی چیونٹی تھی۔ اس دوران
ابن قیم نے وہ پر دوبارہ اسی جگہ رکھ لیا جبکہ اس چیوونٹی کو دوبارہ وہی پر مل گیا تو وہ ایک بار پھر دوڑ کر اپنے کیمپ میں چلی گئی اور پہلے کے مقابلے میں کچھ کم چیونٹوں کو لے کر آئی گویا زیادہ تر نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔⬇️
Read 10 tweets
14 Nov
نومبر، دسمبر میں کراچی، لاہور، پشاورمیں بھارتی دہشت گردی کا خطرہ ہے:
حالیہ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجرجنرل بابر افتخاراور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوت کا بیانیہ اور ثبوت و شواہد اورمہزب دنیا کی بے حسی اور ہمارے مفاد پرست سیاست دان⬇️
امریکی جریدے فارن پالیسی نے ہمارے ہمسائے، ازلی دشمن اور ہماری طرف سے تصدیق شدہ دہشت گرد بھارت کی فسادی اور دہشتگرد پالسیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ "فارن پالیسی" دہشت گردی میں بھارت کو سرفہرست رکھتے ہوئے بھارت اور داعش کے باہمی روابط کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ میگزین نے بھارت کی⬇️
انتہا پسند پالیسی کو تباہ کنخطرہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی انتہا پسند پالیسی کا نوٹس نہ لیا گیا تو تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ بھارتی دہشت گردی کی کارروائیاں تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔امریکی جریدکے مطابق مختلف ممالک میں بھارتی سرپرستی میں دہشتگردوں کے
Read 24 tweets
13 Nov
جب کیوبا کے صدر کاسترو سے 1960 میں امریکی انتخابات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نکسن یا کینیڈی کو کس سے ترجیح دیں گے؟ اس نے جواب دیا: دو جوتوں کے درمیان موازنہ کرنا ممکن نہیں ہے جو ایک ہی شخص پہنتا ہے۔ امریکہ میں صرف ایک ہی جماعت کی حکومت ہے ، جو صیہونی جماعت ہے،
اور اس کے دو ونگ ہیں:
ریپبلکن ونگ سخت صہیونی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے،
اور
ڈیموکریٹک ونگ صہیونی نرم طاقت کی نمائندگی کرتا ہے. اہداف اور حکمت عملیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک ان صدور کو ذرائع اور مواقع دینے کی بات ہے تو، وہ ہر صدر کو ایک معمولی فرق کیے ساتھ خاص قسم کی
رازداری اور نقل و حرکت کے لئے مختلف اجازت دیتے ہیں۔
ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں کہ امریکہ میں بیڈن جیتے یا ٹرمپ ہارے، ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنی اجاری داری قائم رکھنے اور اپنے مفاد کو ہر حال اور ہر دور میں مقدم رکھتا ہے۔ ہمارا ملک کے خلاف ماضی میں امریکہ
Read 11 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!