کوٹہ سسٹم سے متعق تاریخی حقائق کاجائزہ اور ذوالفقارعلی بھٹو کا کردار۔۔
شہری سندھ والوں نےکوٹہ سسٹم کوایک جماعت کےنعرےکےطورپر
توسناہےمگرشائداس کی تاریخی حقیقت سےبلکل بےخبر ہیں۔کوٹہ سسٹم سےمتعلق اکثریت کی معلومات محض سنی سنائی باتوں اورپرپیگنڈےتک محدود ہےاور اس کوبنیاد بنا۔+1/16
کرساراملبہ بھٹوصاحب پر
ڈالاجاتارہاہے۔اگرکوٹہ سسٹم کی تاریخ اورحقائق کاجائزہ لیں تو
معلوم ہوگاکہ کوٹہ سسٹم تو
برطانوی دورکےمتحدہ ہندوستان
میں بھی رائج تھابرطانوی دور
حکومت میں ہندوستان کی ان
ریاستوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھےجیسےکہ یوپی،سی پی،
بہاروغیرہ میں مسلمانوں کا+2/16
ملازمتوں میں کوٹہ 30فیصد اورہندوں کاکوٹہ 70فیصدتھا۔ اسی طرح غیرمنقسم ہندوستان کی وہ ریاستیں جہاں مسلمان اکثریت میں اور ہندواقلیت میں تھے،مثال کے طورپر بنگال اور
سندھ ،وہاں مسلمانوں کا کوٹہ 70فیصد اور ہندوئوں کےلئے 30فیصد تھا۔اور یہ صورتحال پاکستان اور ہندوستان کی آزادی تک+3/16
برقراررہی۔
قیام پاکستان کےبعدکوٹہ سسٹم سب سےپہلےلیاقت علی خان نے 1948میں نافذکیا۔یہ بھی یاد رہےکہ صرف سندھ میں نہیں بلکہ پورےپاکستان میں اسکا نفاذ تھا۔(مگراس وقت موضوع صرف سندھ ہےلہذا اسی سےمتعلق زیادہ تفصیلات بیان ہونگی)
1950میں جو کوٹہ سٹم معتارف کرایا گیاتھااس کےمطابق +4/16
کراچی2فیصد،سندھ،خیرپوراین ڈبلیو ایف پی اورفرنٹیئرکی
ریاستیں اورقبائلی علاقے
بلوچستان اوراس کےقبائلی علاقوں کےلئے15فیصدکوٹہ مقرر کیاگیااس میں اب آزادکشمیرکو بھی شامل کیاگیابعدمیں1958
میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین نافذ کیاگیاتواس میں واضح کیاگیاکہ کسی بھی علاقےسےتعلق+5/16
رکھنےوالےافرادکےلئےایک مخصوص عرصےکےلئےملازمتوں کاکوٹہ مخصوص کیاجائےگا۔ 1973کےآئین میں ملازمتوں میں مختلف علاقوں کےلئےجوکوٹہ سسٹم مقررکیاگیاوہ اس طرح ہے۔1-(میرٹ کوٹہ10فیصد(2۔)پنجاب
(جس میں اسلام آبادکاوفاقی علاقہ بھی شامل ہے50فیصد(3۔سندھ بشمول کراچی19فیصد)
سندھ کےلئے مخصوص+6/16
کوٹےکوسندھ کےشہری علاقے
جوکراچی،حیدرآباداورسکھر پر
مشتمل ہیں کےلئے7.6فیصداور
سندھ کےدیہی علاقوں کےلئے 11.4فیصد کوٹہ مقررکیاگیا
اسکےنتیجےمیں سندھ کےلئے
مخصوص19فیصد کوٹہ میں سے
سندھ کےشہری علاقوں یعنی
کراچی،حیدرآباد اورسکھرکے
لئے40فیصداوردیہی علاقوں کے
لئے60فیصدمقررکیاگیاجو +7/16
کہ سندھ میں ان شہری علاقوں اوردیہی علاقوں کاحصہ سندھ کی کل آبادی کےفیصدکےبنیاد
پرمقررکیاگیا۔سندھ کےکوٹہ سسٹم پرسیاست کرنےوالےاوربھٹوصاحب سےخداواسطےکابیررکھنےوالےجو
بھٹوصاحب کوکوٹہ سسٹم کا
ذمہ دارسمجھتےہیں اور یہ اعتراض کرتےہیں کہ بھٹوصاحب نےسندھ میں شہری اوردیہی آبادی کے+8/16
لئیےالگ الگ کوٹہ مقررکیااور سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کردیانہیں جانتے کہ اس کوٹہ سسٹم کاآغازنہ تو بھٹو صاحب نےکیااورنہ ہی یہ صرف سندھ میں رائج ہے بلکہ اس کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہےاور یہ 1973کےآئین کاحصہ ہےاوریہ آئین صرف بھٹو نےپاس نہیں کیاتھا
بلکہ یہ آئین +9/16
قومی اسمبلی نےاتفاق رائےسےمنظور کیاتھا۔اس۔متفقہ طورپر منظور ہونےوالےآئین پر جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے پاکستان کےممبران کی منظوری اوردستخط بھی شامل تھے۔(واضح رہےکہ اس وقت سندھ کےان شہری علاقوں سےیا توجے یوپی یاجماعت اسلامی کے امیدوارکامیاب ہوتےتھے)بات صرف یہاں تک ہی +10/16
ختم نہیں۔ہوتی۔۔بھٹو صاحب کو کوٹہ سسٹم کا بانی اور ذمہ دار سمجھنے والےآگے کی کہانی بیان نہیں کرتےکہ ان کے مربی جنرل ضیاالحق نےاس کو جاری و ساری رکھا۔پھر ان کےمحسن جنرل پرویزمشرف نےمزید دس سال کےلئیےاس کوٹہ سسٹم کو برقرار رکھا۔سول حکومتوں کے بعد
خانصاحب کی سلیکٹیڈ حکومت نے+11/16
تواس سلسلےمیں وہ کارنامہ انجام دیاجس کی جرات نہ تو کسی آمر
کوہوئی اورنہ کسی سول حکومت کو ہوئی۔حیرت کی بات تو یہ ہے
اسکاذکر نہ تومیڈیا پر ہوا اور نہ کسی شہری سندھ کےہمدرد نے کوئی آواز نکالی۔
اس کی تفصیل یوں ہےکہ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے
خاموشی سےرات کی تاریکی میں..+12/16
19اگست 2020 کو ایک ایس آر او747ون جاری کیا۔اس ایس آر او کےمطابق وفاقی ملازمتوں میں جوکوٹہ سسٹم نافذہےاس میں لامتناہی توسیع کردی گئی ہے۔(یہ بھی یادرہےکہ آئین کےمطابق
2013 میں کوٹہ سسٹم ختم ہوگیاتھااور 2013
سے202 تک اس کوٹہ سسٹم کو
خلاف قانون قائم رکھا گیا)مگر
19اگست 2020کو+13/16
سلیکٹیڈ وزیر اعظم نےجو کارنامہ انجام دیااس کی تونظیرآج تک کہیں نہیں ملتی۔انہوں نےجوایس آر او جاری کیااس میں سول سروس پوائنٹ کے جورول یعنی ٹرانسفراورپروموشن کےرول تھےانہوں نےان میں بھی ترمیم کرنےکی کوشش کی ہےکہ وہ کوٹہ سسٹم جس کےلئے آئین میں ترمیم بہت ضروری ہےاسے ایک طرف +14/16
رکھتےہوئےکہاکہ اس کی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہےاوراب یہ لامتناہی ہوگااوراسکا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوگابلکہ غیرمعینہ مدت تک نافذ العمل ہوگااور اسی طرح چلتارہےگا۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس پر بات کرنےکےبجائےآج تک ذوالفقارعلی بھٹوکےپیچھےپڑے
ہیں اورہوش نہیں کہ انکےساتھ کیاکھیل +15/16
کھیلاجارہاہےآپ جیسے تمام لوگوں کےلئیے شاہ دین ہمایوں کےکچھ اشعار یاد آگئے ہیں۔
پیٹوگےکب تلک سر رہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کرنکل گیا
اٹھووگرنہ حشرنہیں ہوگاپھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اک تم کہ جم گئےہوجمادات کی طرح
اک وہ کہ گویاتیرکماں سےنکل گیا
16/16
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دیہی اور شہری تقسم یعنی کوٹہ سسٹم توبھٹو صاحب سے بھی پہلے پاکستان کےپہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس کوٹہ سسٹم کا پاکستان میں آغازکیاتھا اور 15نومبر 1948میں کوٹہ سسٹم کا پہلا نوٹی فکیشن جاری ہوا۔اس کے مطابق اس میں 15فیصد ان مہاجرین کےلئیے کوٹہ رکھا گیا تھا جو ابھی۔۔+1/4
ہندوستان سے ہجرت کرکےپاکستان آئے ہی نہیں تھے،اس وقت کراچی کی آبادی چند لاکھ تھی اور اس شہر کوبھی دوفیصد کوٹہ دیا گیااور دوسرا نوٹی فکیشن ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت سےبھی پہلےجنرل یحیٰی کےدور میں 16جنوری 1971 میں جاری ہوا۔رخمان گل صاحب نے شہری دیہی کوٹے کانفاذ کیا۔۔+2/4
جِس میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی 40 فیصد نمائندگی اور باقی صوبے کی60 فیصد مقرر ہوئی۔ آگے چل کر اِس کو ذوالفقار علی بھٹو نے1972 میں 10 سال کی مدت کے لئے نافذ کیا۔جسے بعد میں جنرل ضیاءالحق نے 10 سال کے لئیے مزید بڑھا دیا۔اس کے بعد آنے والی سول حکومتوں اور آمر جنرل ۔۔+3/4
ذوالفقارعلی بھٹوسیاست کو خواص کےڈرائنگ رومزسےنکال کرپاکستان کی غریب عوام
مزدوروں کسانوں اورپسےہوئے طبقات تک لےآئے۔عوام کوپہلی بارعلم ہواکہ انکےووٹ کی قدرو قیمت کیاہے۔
جہاں تک جنرل گل حسن کا معاملہ ہےبھٹوسول بالادستی کے قائل تھےمگرفوجی افسران اقتدار کےاس قدرعادی ہوگئےتھے۔+1/8
کہ کسی سویلین کوحاکم تسلیم کرنامشکل ہوگیاتھااوروہ ایک اور فوجی بغاوت کرناچاہتےتھےلیکن بھٹوصاحب کی بروقت حکمت عملی سےناکام و نامرادہوئے۔(وقت ملےتوبلال غوری کےیوٹیوب چینل ترازو پراس واقعے سےمتعلق تمام تفصیلات جانئیے۔👇
)
اسی طرح بھٹوصاحب پر الزام۔۔+2/8
لگایاجاتاہےکہ انھوں نےسینر فوجی افسران کو چھوڑ کرجنرل ضیا الحق کو آرمی چیف کیوں بنایا۔۔بھٹو صاحب کی کوشش تھی کہ ملک و قوم کو فوجی آمریت سے بچایا جائے اور ملک میں جمہوریت پھلے پھولے اور ملک پرعوام کی منتخب حکومت ہو۔اس سلسلے میں بھٹو صاحب جتنی احتیاط کر سکتے تھے کی مگر ۔۔+3/8
استاددامن عوامی اور مزاحمتی شاعرتھےایوب خان کے دور میں نظم لکھی
’’اتوں اتوں کھائی جا
وچوں رولا پائی جا‘‘
اس پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ بھٹو دور میں جب اپنی مشہور نظم ’’
ایہہ کیہ کری جانا ایں،
کدی شملے کدی مری جانا ایں‘‘ کہی تو پنجاب پولیس نےاُن کے حجرےمیں سےدو ریوالور..+1/5
اورتین دستی بم برآمدکرلیے۔
استاددامن نےجیل کاٹی،باہر نکلےتواگلےمشاعرےکوایک ہی شعر سےلوٹ لیا
نہ کڑی،نہ چرس،نہ شراب دامن
تے شاعر دے گھر چوں بم نکلے
ضیاءدورکی بدترین امریت پہ یہ نظم کہی
میرے ملک دے دو خدا
لا الہٰ تے مارشل لاء
اک رہندا اےعرشاں اُتے
اک رہندا اے فرشاں اُتے
۔۔+2/5
اوہدا ناں اےاللہ میاں
ایہداناں اےجنرل ضیاء
واہ بھئی واہ جنرل ضیاء
کون کہنداتینوں ایتھوں جا
اور
ساڈےملک دیاں موجاں ای موجاں
جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں
حکمرانوں کی امریکہ سے"نیازمندی" یاغلامی پراستاد نےکہا
امریکہ زندہ بادامریکہ
ہر مرض نوں ٹیکہ
زندہ بادامریک
استادکورخصت ہوئے
+3/5
آج 3دسمبر پنجابی زبان کے عوامی شاعراستاد دامن کی برسی ہے.
استاد دامن کااصل نام چراغ دین تھا۔آپ یکم جنوری 1910کو
چوک متی لاہورمیں پیداہوئے۔والدمیراں بخش درزی تھے۔گھریلوحالات کے پیش نظر
استاددامن نےبھی تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کاکام شروع کر دیا۔انہوں نےساندہ کےدیو سماج سکول سے+1/13
میٹرک کاامتحان پاس کیا۔
شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پر مرثیےسےکی۔مگر باقاعدہ شاعری کاآغاز میٹرک کے بعدکیا۔پہلےہمدم تخلص کرتے
تھےلیکن پھر دامن اختیارکیا۔ جلدہی انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااورانہوں نےسیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغازکیا۔حصولِ آزادی کی۔۔+2/13
جدوجہدمیں وہ نشنل۔کانگریس کے فعال کارکن تھے۔1947 کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے،مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر اس کے بعد+3/13
آج 24نومبرپاکستان کی نامور شاعرہ پروین شاکرکایوم پیدائش ہے۔پروین شاکر1952کوکراچی میں پیداہوئیں۔انھیں بچپن سےہی انھیں علم دوست ماحول میسر
آیاانکےوالدسیدثاقب حسین خود
بھی ایک شاعرتھےاور شاکر
تخلص کرتےتھے۔پروین شاکر نےاپنےوالدمحترم کاتخلص ہی اپنےلئیےمنتخب کیااوع پروین شاکر...+1/7
کہلائیں۔پروین شاکر ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔کراچی یونیورسٹی سےایم اے انگلش اعلی نمبروں سےپاس کیاپھر
لسانیات میں ایم اےکی ڈگری لی۔پی ایچ ڈی کی ڈگری (جنگ میں ذرائع ابلاغ کاکردار)پر مقالہ لکھ کرحاصل کی۔اس کے بعدہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئیں۔اوربنک آف ایڈمنسٹریشن۔۔۔+2/7
میں ماسٹرزکیا۔اس کےبعدعبد اللہ گرلزکالج میں نو سال انگلش لیکچرارکی حیثیت سےملازمت کرنےکےبعد سی ایس پی کاامتحان دیاپروین شاکرکےلیےیہ ایک انوکھا اعزازتھاکہ جب وہ سینٹرل سپیرئیرسروسززکےامتحان میں بیٹھیں تواردوکےامتحان میں ایک سوال انکی ہی شاعری سےمتعلق تھا۔امتحان میں کامیابی۔۔+3/7
ہمارےسب سےبڑےاوراکلوتےمحب وطن ادارےکےایک محب وطن جنرل سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر)اسددرانی کی ایک نئی کتاب’’آنر اَمنگ ڈی اسپائیز‘‘(Honour Among The Spies)بھی بھارت میں شائع ہوچکی ہے۔اس کتاب پرمشہور صحافی بلال غوری نےاپنےمشہور معلوماتی اورپاکستانی تاریخ سےمتعلق پروگرام...+1/7
"ترازو"میں بہت دلچسپ انداز میں تبصرہ پیش کیاہے۔مکمل پروگرام اس لنک پردیکھاجاسکتا ہے۔
جنرل(ر)اسددرانی نےاگرچہ اپنی کتاب میں پاکستانی تاریخ کے مختلف واقعات کوافسانوی انداز اورمختلف فرضی ناموں سے پیش کیاہےمگریہ تمام واقعات افسانوی اندازکےباوجود بھی...+2/7
اتنےواضح اشارےرکھتےہیں کہ کتاب پڑھنے والا عام شخص بھی باآسانی پاکستان کےحقیقی سیاسی واقعات اور اس کے
کرداروں سےاس کی اصل مماثلت کابخوبی اندازا لگاسکتا ہےجنرل اسددرانی نےاپنےلئیے اسامہ بارکزئی نامی ایک پشتون کردار تجویزکیاہےجبکہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کوگلریز شاہ رخ..+3/7