آج 24نومبرپاکستان کی نامور شاعرہ پروین شاکرکایوم پیدائش ہے۔پروین شاکر1952کوکراچی میں پیداہوئیں۔انھیں بچپن سےہی انھیں علم دوست ماحول میسر
آیاانکےوالدسیدثاقب حسین خود
بھی ایک شاعرتھےاور شاکر
تخلص کرتےتھے۔پروین شاکر نےاپنےوالدمحترم کاتخلص ہی اپنےلئیےمنتخب کیااوع پروین شاکر...+1/7
کہلائیں۔پروین شاکر ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔کراچی یونیورسٹی سےایم اے انگلش اعلی نمبروں سےپاس کیاپھر
لسانیات میں ایم اےکی ڈگری لی۔پی ایچ ڈی کی ڈگری (جنگ میں ذرائع ابلاغ کاکردار)پر مقالہ لکھ کرحاصل کی۔اس کے بعدہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئیں۔اوربنک آف ایڈمنسٹریشن۔۔۔+2/7
میں ماسٹرزکیا۔اس کےبعدعبد اللہ گرلزکالج میں نو سال انگلش لیکچرارکی حیثیت سےملازمت کرنےکےبعد سی ایس پی کاامتحان دیاپروین شاکرکےلیےیہ ایک انوکھا اعزازتھاکہ جب وہ سینٹرل سپیرئیرسروسززکےامتحان میں بیٹھیں تواردوکےامتحان میں ایک سوال انکی ہی شاعری سےمتعلق تھا۔امتحان میں کامیابی۔۔+3/7
کےبعدمحکمہ کسٹم میں کلکٹربن گئیں جہاں ترقی پا کرپرسنل سیکریٹری اوربعدازاں سی آربی آراسلام آبادمقررہوئیں۔
پروین شاکرکی شادی1976میں انکےخالہ زادڈاکٹرنصیرعلی سے ہوئی۔لیکن ذھنی ہم اہنگی نہ ہونے کےباعث1987میں انکی اپنے شوہرسےعلحیدگی ہوگئی۔انکاایک ہی بیٹاتھاجس کانام مرادعلی ہے۔۔۔+4/7
پروین کوشعروشاعری سےکم عمری سےہی شغف تھاوہ اپنے زمانہ طالبعلمی سےہی شعرکہنے
لگی تھیں پروین شاکرکاپہلا
مجموعہ خوشبوجب شائع ہوااس وقت پروین شاکرکی عمرصرف
24برس تھی۔پروین شاکرنےبہت ہی کم عمری میں وہ شہرت پائی جوبہت کم شعراءکونصیب ہوتی ہے۔پروین شاکرکوپانچ بڑےادبی اعزازات سے۔۔۔+5/7
بھی نوازا گیاجن میں آدم جی ایوارڈ،علامہ اقبال ایوارڈ
یوایس آئی ایس ایوارڈ،فیض احمدفیض ایوارڈشامل ہیں۔اس کےعلاوہ پروین شاکرکوحکومت پاکستان نےتغمہ حسن کارکردگی بھی عطاکیا۔پروین شاکرکے مجموعہ کلام میں خوشبو،سد برگ،خودکلامی،انکاراورماہ تمام شامل ہیں یہ ذھین،حساس اورہر دلعزیز۔۔۔+6/7
شاعرہ 26 دسمبر1994کواسلام آبادمیں گاڑی کےایکسیڈنٹ کی وجہ سےصرف42 سال کی عمر
میں ھم سےہمیشہ کےلئیےبچھڑ گئیں۔لیکن اپنی خوبصورت شاعری کی بدولت کبھی بھلائی نہیں جاسکیں گی۔
مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے مرےہونےکی گواہی دیں گے 7/7 #پروین_شاکر
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ہمارےسب سےبڑےاوراکلوتےمحب وطن ادارےکےایک محب وطن جنرل سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر)اسددرانی کی ایک نئی کتاب’’آنر اَمنگ ڈی اسپائیز‘‘(Honour Among The Spies)بھی بھارت میں شائع ہوچکی ہے۔اس کتاب پرمشہور صحافی بلال غوری نےاپنےمشہور معلوماتی اورپاکستانی تاریخ سےمتعلق پروگرام...+1/7
"ترازو"میں بہت دلچسپ انداز میں تبصرہ پیش کیاہے۔مکمل پروگرام اس لنک پردیکھاجاسکتا ہے۔
جنرل(ر)اسددرانی نےاگرچہ اپنی کتاب میں پاکستانی تاریخ کے مختلف واقعات کوافسانوی انداز اورمختلف فرضی ناموں سے پیش کیاہےمگریہ تمام واقعات افسانوی اندازکےباوجود بھی...+2/7
اتنےواضح اشارےرکھتےہیں کہ کتاب پڑھنے والا عام شخص بھی باآسانی پاکستان کےحقیقی سیاسی واقعات اور اس کے
کرداروں سےاس کی اصل مماثلت کابخوبی اندازا لگاسکتا ہےجنرل اسددرانی نےاپنےلئیے اسامہ بارکزئی نامی ایک پشتون کردار تجویزکیاہےجبکہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کوگلریز شاہ رخ..+3/7
کیاواقعی،تم اب بھی نہیں سمجھے؟
تحریر۔۔۔جون ایلیا
ہماری قوم کےبڑوں نےراستی کو بھلادیااورجھگڑےکواس کی حدوں سےبڑھادیا۔
ہمارےخواب اورہماری خواہشیں، اقتدارکےسموں سےروندی گئیں اورہماری خوشیاں حب جاہ کی چکی میں باریک پیسی گئیں۔
ہمارےایوانوں میں دانائی ترک ہوئی اورفراست پسپا۔الزام۔+1/9
کی دلدل نےہمیں نگلااور بہتان کی پچھل پائی نےاپنوں کےخلاف زہراگلا۔
قوموں کےدرمیان ہم پراگندہ ہوئے اورہمسایوں کی ملامت نےہمارا پیچھاکیا۔
چاروں طرف سےہم پردشنام کے تیربرستےہیں اورہم دل جوئی کے چندبولوں کوترستےہیں۔
ہم مصیبت کےٹاٹ پربیٹھےاور پشیمانی کی خاک ہم نےاپنےسروں پرڈالی۔+2/9
اپنےبڑوں کی طرف ہم نےدیکھا اورچاہاکہ وہ اپنی پرنخوت اناکے زرہ بکتر اتاریں اورعجزوانکساری کالبادہ پہنیں۔
ہم نےچاہاکہ وہ حاکمیت کےچوک میں کھڑےہوں توان کےہاتھوں میں انسان پرستی اورخرد دوستی کانصاب ہواورآنکھوں میں عدل و انصاف کےخواب۔
وائےہوان پرجنہوں نےہماری خواہشوں کوببول۔۔..+3/9
اردوزبان کےباغی اورمنفرداسلوب کےشاعرجون ایلیاکوبچھڑے18
برس بیت گئے14دسمبر1931کو
بھارتی ریاست اترپردیش کےشہر
امروہہ میں ایک علمی اورادبی
گھرانےمیں پیداہونےوالےجون ایلیا
نے1957میں پاکستان ہجرت کی
اورکراچی کواپنامسکن بنایاانہوں
نےشاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور+1/7
اپنےمنفرداندازکی بدولت ہرصنف میں اپنےگہرےنقوش چھوڑے۔جون نےرومانوی مضامین کواپنی غزلوں کاموضوع بنایالیکن انہوں نےاسےایک منفرداندازمیں پیش کیا۔وہ ہربات کوایسی بےساختگی سےکہہ جاتےتھےجیسے وہ اپنے محبوب سےروزمرّہ کی گفتگوکر
رہےہوں۔جون ایلیاعربی،فارسی، عبرانی اوردیگرکئی زبانوں+2/7
پردسترس رکھتے تھے،جون ایلیا
نےمعروف شاعر، صحافی اور
دانشوررئیس امروہی اورسید
محمدتقی جیسےبھائیوں کےساتھ ادبی ماحول میں پرورش پائی،
اس علمی ماحول نےجون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پرکی۔8 سال کی عمرمیں اپناپہلا شعرکہا۔جون کی شاعری ان کےمتنوع مطالعے +3/7
1981میں جب وائیجر1اپنا بنیادی مشن مکمل کرکےسیّارہ زحل کےپاس سےگزر رہاتھا،توناسا کےماہرِفلکیات،کارل سیگن نےیہ آئیڈیاپیش کیاکہ اس طیارےکارُخ گھماکرزمین کی ایک تصویراتاری جائے۔سیگن کاکہناتھاکہ یہ تصویر
سائنسی مطالعےکےلیےنہیں ہوگی۔لیکن اس تصویرکےذریعےکائنات میں زمین کی موجودگی+1/13
کادرست تناظر(perspective) میں اندازہ لگایاجاسکےگا۔کم وکم و بیش نوسالوں تک تصویر
کھینچنےکایہ معاملہ مختلف وجوہات کی بناپرتاخیرکاشکار ہوتارہا،لیکن آخرکار14فروری
1990میں تقریباًساڑھےچھ ارب کلومیٹرکےفاصلےسےزمین کی تصویراتارلی گئی۔اس تصویرکو دیکھیں توایسالگتاہےکہ ایک گہرے بھورے+2/13
اورسیاہ رنگ کاکینوس ہے۔جس پر روشنی کی۔کچھ لہریں رقصاں ہیں۔یہ سورج کی قربت کی وجہ سے تھا۔ارب ہاارب پرپھیلا
خلائےبسیط اس تصویرمیں
سمٹ آیا ہےاس تصویر میں بھورے رنگ کے بینڈ پر ایک اعشاریہ 12پکسل کامدھم نیلا نقطہ دکھائی دیتاہے۔ یہ مدھم نیلا نقطہ ہماری زمین ہے۔کارل سیگن نےاس ۔۔+3/13
علامہ اقبال اچھے شاعر ہیں۔ان کا ذاتی کلام کسی طرح بھی کم درجے کا نہیں۔مگر اقبال کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے چکر میں وہ کلام بھی اقبال کے کھاتے میں ڈال دیا گیاجو اقبال نے دیگر شعراء سے ترجمہ کیا۔البتہ کہیں کہیں اقبال نے خود بھی یہی کام کیا کہ دوسرے شعراء کے +1/11
اشعار کا ترجمہ کرکے اپنے ذاتی کلام میں شامل کر لیا ۔جیسے کہ مشہورشاعرفخرالدین عراقی کا یہ شعرہے
بہ زمیں چوسجدہ کردم،ززمیں ندا برآمد
کہ مراپلیدکردی،ازیں سجدۂ ریائی
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال
یا +2/11
پھر خوشحال خان خٹک
کا کچھ کلام ۔۔۔
یہاں خوشحال خان خٹک اور اقبال کچھ مشہور اشعار شئیر کرتی ہوں آپ خود ہی اندازہ لگا لیں۔ 1. د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے
کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي
خوشحال
1. محبت مجهے ان جوانوں سے هے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقبال+3/11
جناب رفیع رضاکےتحقیقی مضمون کایہ حصہ اقبال کی شاعری سےمتعلق ہے۔اقبال کی بہت سی نظمیں اوراشعار دراصل فارسی ہندوپشتواورانگریزشعراء
کےکلام کےتراجم ہیں۔مگرقوم کی اکثریت اسےاقبال کی ذاتی تخلیق سمجھتی ہےاس حصےمیں ان تراجم سےمتعلق جانتےہیں۔
اقبال،قومی شاعر یا زبردستی کاھیرو؟؟؟+1/23
تحریر رفیع رضا(چھٹا حصہ)
اقبال کافی حدتک ایک اچھے شاعرمترجم تھےانھیں اسی حثیت سےجاناجائےتوسچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں شاعری پڑھنےوالےاس بات سےبلکل واقف نہیں ہیں وہ سمجھتےہیں یہ اشعاراورنظمیں خود اقبال کی ذاتی فکرکاپھل ہیں۔جبکہ ایساہرگزنہیں،بےشماراشعاراور
نظمیں مختلف ۔۔+2/24
مشہوراوراہم شعراءکی اصل
کاوش ہیں تاریخی سچائی کو
عین پوری سچائی سے بیان کیا جائے۔اس سےاقبال سےمنسوب بہت سےجھوٹےدعوےختم ہونگےاور ہم ایک اچھےشاعرکی شاعری کاماخذجان کراس کی شاعری کےھنرکی تعریف کرسکیں گے۔لیکن عجیب قصہ ہےکہ وہ نسل جواقبال کاسرکاری الاپ الاپتی رہتی ہےکچھ سننے۔۔+3/23