یہ ستمبر 1948 کی بات ہے
جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر
یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ
ریاست کا حکمران
(نواب مہابت خان)
لاکھ مسلمان سہی مگر
ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے
جب کہ اس استعماری ریاست نے
جموں و کشمیر پر قبضہ کرتے ہوئے
یہ دلیل دی تھی کہ ریاست کا
جاری ہے 👇
حکمران ہندو ہے
اور
اُس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیا ہے
خیر قصہ مختصر یہ کہ
جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد
نواب مہابت خان بروقت تمام اپنی
اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر
اور مختصر ضروری سامان لے کر
کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے
یہاں انہوں نے اُس
جاری ہے 👇
وقت کے دارالحکومت
کراچی کے مشہور علاقے
کھارادر میں قیام کیا
یہ وہی علاقہ ہے
جہاں کی ایک سڑک پر
وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے جسے قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں
48 من سونا چھوڑ آئے تھے
اور
وہ ایسی جگہ پر
جاری ہے 👇
محفوظ تھا
جس کا علم نواب صاحب کے سوا
کسی کو نہیں تھا
اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انہیں سونا نہ ملتا
نواب صاحب کی خواہش یہ تھی
کہ
وہ سونا کِسی طرح پاکستان لایا جاسکے
تو وہ اُس کا نصف حصہ
سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے
جاری ہے 👇
اِس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے
کہ
اُن دِنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا اگر چند محب وطن لوگ
اِس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو
خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا
نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ
پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے
اگر وہ 24 من سونا
جاری ہے 👇
پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے
تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہوسکتی تھی مگر سوال یہ تھا کہ
اُسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے؟
ہندوستان جیسا کمینہ ملک
شرافت کے ساتھ تو ریاست کی
امانت اُس کے حکمران کے حوالے نہ کرتا
اب تو ایک ہی صورت باقی بچی تھی
غیر قانونی ذریعہ
جاری ہے 👇
مگر حقیقتا سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا
ہندوستان کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا
مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لئے نہیں
کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا
اب کردار شروع ہوتا ہے
کھوٹے سکے کا
وہ تھے اُس دور کا مشہور سمگلر
حاجی عبد اللّٰه بھٹی
جاری ہے 👇
جو سمندر پار بستی
صالح آباد
میں رہائیش پذیر تھے
یہ بستی کراچی کی بندرگاہ کیماڑی
سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے
عبد اللہ بھٹی
اُس وقت اَسی برس کے تھے
اور
اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھے
نواب مہابت خان کو جب اِس بارے میں علم ہوا تو انہوں نے پاکستان
جاری ہے 👇
کی ایک نہایت قابل احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی
کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سےعبد اللّٰه بھٹی
کو اِس بات پر راضی کرلیں کہ
وہ کسی بھی صورت اُن کا سونا
جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے
اُس محترم ہستی نے
عبد اللّٰه بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے
ملک و قوم کی خاطر
جاری ہے 👇
یہ کام کرنے پر آمادہ کر لیا
جونا گڑھ سمندر کے راستے
کراچی سے تین سو میل دور ہے
عظیم شخصیت کے حکم پر
بوڑھے مگر پر عزم عبد اللّٰه بھٹی
اپنے بیٹوں قاسم بھٹی
اور
عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر
تیز رفتار لانچوں کے ذریعے
جونا گڑھ روانہ ہوگئے
پاکستانی فوج کے چند کمانڈوز بھی
جاری ہے 👇
اُن کے ساتھ تھے
اِن لوگوں نے ایک بجے دوپہر کو
بحری سفر شروع کیا
اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے
جونا گڑھ کےساحل پر پہنچ گئے
اُس وقت شب کے10بجے تھے
شاہی محل ساحل سمندر سے
کچھ زیادہ دور نہ تھا
پاکستانی کمانڈوز نے
محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران
اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا
جاری ہے👇
اب دیکھئے سمگلر کا حسن کردار
جب اُنہوں نے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی
میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو
جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا
وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں سے
4 من سونا حاجی عبد اللّٰه بھٹی کو بطور
جاری ہے 👇
اِنعام پیش کیا
حاجی عبد اللّٰه بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کردیا
اور زار و قطار روتے ہوئے بولے
"بابا"
میں نے ساری زندگی سمگلنگ کی
مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا
اب میں نے سمگلنگ نہیں کی
بلکہ
پاکستان کا حق حاصل کیا ہے
میں سمگلر ضرور ہوں
مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا
جاری ہے👇
پھر دوبارہ رونے لگ گئے
کچھ دیر بعد خاموش ہوئے اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے
میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں
اِس کے علاوہ میرے پاس ذاتی
3 من سونا ہے جو اِس مقدس
دیس کی نذر ہے
جاری ہے 👇
پھر اُس عظیم ہستی
اور
نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے
فخر و انبساط کے آنسو
"کھوٹا سکہ"
از پروفیسر محمد ظریف خان
اور ایک ہمارے اِس دور کے کھوٹے نہیں بلکہ
گندے سکے جو پاکستان کی دولت
لوٹ کر دوسرے ملکوں لے گئے
اُن کو کیا نام دیا جائے ؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بچوں کی کثیر تعداد
ساس سسر کے ساتھ ساتھ
نندوں اور دیوروں کی کفالت
اُس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا
اُوپر سے ایک عجیب الفطرت مرد
بطور مجازی خدا اُسے برداشت کرنا پڑتا تھا
مگر
اِس سب کے باوجود
وہ محفوظ تھی
پر سکون تھی
اور
ڈھلتی عمر کے ساتھ
جاری ہے 👇
وہ ایک رہنما
اور سرپرست کے عہدے تک پہنچ جاتی تھی
سارا دن گھر داری میں گزارنے والی
کو محلے کی عورتوں کے علاوہ
کسی سے تعلق نہ ہوتا تھا
پھر زمانہ جدید ہوا
عورت کو اپنے مقام کا احساس ہوا
اور
وہ آزاد ہونے لگی
سسرال تو بہت بعید
اُسے خاوند کی خدمت بھی
ایک بوجھ لگا
جاری ہے 👇
اور پرائیویسی کے نام پر علیحدہ گھر کے مطالبات ہونے لگے
پھر اِس دور میں دو بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار
عاشق کے کہنے پر اپنے بچوں کو قتل کرنے والی عورت
شوہر کے مظالم کی شکار عورت
منظر عام پر آنے لگیں
پھر زمانے نے مزید ترقی کر لی
اور اِس سے بھی چند قدم آگے
جا کر اب
جاری ہے 👇
بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم
کر کے اُس کے سامنے کیوں پیش کئیے گئے
قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی
آج بھی اُسکی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں
کیوں
پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں
جاری ہے 👇
تباہی و بربادی ایک دن میں نہیں آتی ہے
صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں
زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہے
وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے
سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے
پچاس سالہ کپتان رابرٹ
اور
اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں
جاری ہے 👇
ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں
دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت
انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر
ورزش کر رہے ہیں
انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں
اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں
ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر
سر تھامس مٹکاف
دوپہر تک کام کا
جاری ہے 👇
" بدمعاش اور غنڈے "
ہم نے الفاظ کے معنے اور مفہوم ہی بدل دئے ہیں
اب بدمعاش صرف اُسے سمجھا جاتا ہے
جو گلی
محلے اور شہر میں لوگوں کو اپنی زور زبردستی سے پریشان کرتا پھرے
دہونس دھاندلی سے اپنا رعب جمائے
حالانکہ یہ شخص غنڈہ ہے
بازاری ہے
بد خصلت ہے
قابلِ تعظیم ہر گز نہیں
جاری ہے 👇
اور بدمعاش نہیں کہ سکتے
غنڈے اور بدمعاش میں فرق ہے
بدمعاش
دو لفظوں کا مرکب ہے
بد
اور
معاش
یعنی وہ شخص جس کے ذرائع آمدن
" بد "
ہوں
وہ بدمعاش ہے
کوٹھے پہ بیٹھی طوائف بھی بد معاش ہے رشوت لینے والا ہر افسر بدمعاش ہے
خواہ وہ کسی بھی محکمے سے ہو
مسجد کا چندہ کھانے والا مولوی
جاری ہے👇
بھی اسی فہرست میں آئے گا
سیاست کو خدمت کہہ کر
اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے والا بھی بدمعاش ہے
وہ جج بھی بدمعاش ہے
جو تنخواہ تو عدل کرنے کی لے رہا ہے
اور عملی طور پر اپنے فرائض کو
کما حقہہ پورا نہیں کر رہا
مزدور کی اجرت میں ڈنڈی مارنے والا
کارخانہ دار بھی بدمعاش ہے
جاری ہے 👇
صبح صبح چائے کی دکان پہ
میرا دوست میرے پاس آ بیٹھا
مجھے سلام کیا
اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے
میرا ہاتھ پکڑا روتے ہوئے بولا
فارس میں آج خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا ہوں
میں حیران تھا اُس کی کمر پہ تھپکی دی
ارے ایسا کیا ہوا گیا شیر کو
جاری ہے 👇
وہ مجھ سے نظریں نہ ملا رہا تھا
پھر زور زور سے رونے لگا
سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے
میں نے اُس کو چپ کروایا
ارے پاگل سب دیکھ رہے ہیں
میرے سینے سے لگ گیا
روتے ہوئے بولا
فارس بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں
میں سوچ میں گم
کیا ہو گیا تم کو ایسا کیوں بول رہے ہو
کہنے لگا
جاری ہے 👇
فارس پتا ہے
بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں
میں کبھی اُس کے گھر نہیں گیا
عید شب رات
کبھی بھی میں ابو یا امی جاتے ہیں
میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی
آپ کی بہن جب بھی آتی ہے
اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں
خرچ ڈبل ہو جاتا ہے
اور تمہاری ماں
ہم سے چھپ چھپا
جاری ہے👇
بلے آج چکڑ چھولے اور تلوں والا کلچہ کھانے کو جی چاہ رہا ہے
ابا جی نے سالوں بعد فرمائش کی
ابا مجھے پیار سے بلا کہتےہیں
میری خوشی کی انتہا نہ رہی
فجر کی نماز ادا کی جوگر پہنے مارنگ واک
کے بعد چکڑ چنے والے کے اڈے پر جا دھمکا ابھی وہ
جاری ہے 👇
اپنی ریڑھی سجا رھا تھا
میں نے چنے پیک کرنے کو کہا
وہ بولا
باو جی اتنی صبح ؟
چنے 7 بجے سے پہلے نہیں ملیں گے
میں گاڑی میں بیٹھ گیا اور بے قراری سے چنوں کا انتظار کرنے لگا
چنے والے سے ہر دو منٹ بعد دریافت کرتا بھائی اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا ؟
وہ بس تھوڑی دیر باؤ جی
جاری ہے 👇
کہ کر تسلی دے دیتا
میری بے قراری بڑھتی جارہی تھی
بار بار موبائل پر وقت دیکھتا
چنے والا جو مجھے نوٹ کررہا تھا
میرے پاس آیا اور بولا
باؤ جی آپ پہلے بھی چنے لے جاتےہو
پر اتنی سویرے اور اتنی بےقراری
پہلے نہیں دیکھی خیر تو ہے؟
میں تو جیسے سوال کا منتظر تھا
میں نے سر اٹھا کر
جاری ہے 👇