27دسمبر2007کی شام پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیربھٹولیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بہت بڑےجلسےسے خطاب کرکے اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہو رہی تھیں کہ دہشت گردی کی واردات میں شہیدہوگئیں۔یہ اتنا بڑاسانحہ تھاکہ پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی۔انکی شہادت صرف پیپلز پارٹی کانہیں پورے+1/10
ملک کانقصان تھا۔
اس میں کوئی دورائےنہیں کہ محترمہ بےنظیربھٹوجرأتمند بےخوف اورنڈرسیاسی رہنما تھیں۔ ملک و قوم اورجمہوریت کی خاطر بڑی سےبڑی قربانی دینےکو تیاررہتی تھیں۔وہ جلاوطنی میں تھیں توصدرمشرف کی طرف سے انہیں برابر پیغام مل رہےتھےکہ عام انتخابات سے پہلےوطن لوٹنے کی کوشش+2/10
کی تو نتائج کی وہ خود ذمہ دار ہونگی۔لیکن محترمہ ایسی دھمکیوں کوکب خاطرمیں لانے والی تھیں۔18اکتوبر 2007ءکو وہ دبئی سےکراچی پہنچ گئیں۔ان پرپہلا قاتلانہ حملہ 18اکتوبرکو ان کےجلوس پرخودکش حملے کی صورت میں ہواجس میں پیپلز پارٹی کے149کارکن جاں بحق اور 402 زخمی ہوئے۔کوئی اور +3/10
ہوتا تواتنے بڑےسانحہ کےبعدحوصلہ ہار بیٹھتا۔لیکن محترمہ کاعزم ذرا بھی متزلزل نہ ہوا۔وہ پہلےسےزیادہ جوش و خروش سےمیدان عمل میں سرگرم ہوگئیں۔محترمہ بےنظیر بھٹوکاتعلق ایک وڈیرےخاندان سےتھاساری تعلیم باہرہوئی اس کےباوجودوہ ایک غریب پروراور مشرقی روایات کی حامل خاتون تھیں۔جب ۔۔+4/10
ذوالفقارعلی بھٹوپھانسی چڑھ کرمزاحمت کی علامت بن گئےتو
انکا’’علم‘‘بیگم نصرت بھٹو اور بےنظیربھٹونےاٹھالیا۔بےنظیراور
بیگم بھٹوپرجب قذافی اسٹیڈیم میں لاٹھی چارج ہواتو انتظامیہ کو یقین تھاکہ وہ خوف زدہ ہو
جائیں گی مگراسکاردعمل الٹاہوا۔
بےنظیربھٹوکی سیاسی زندگی کا
آغازاس مزاحمت+5/10
سے ہوا۔انھوں نےبدترین جیل دیکھی،لاٹھیاں کھائی،ان پرٹارچر کیاگیاایک بار بےنظیربھٹونےکہاکہ میں پہلےموت سے ڈرتی تھی مگر
اُس آخری ملاقات نے،جوڈیتھ سیل میں دواورتین اپریل 1979
کوبھٹوصاحب سےہوئی،یہ خوف بھی ختم کردیا۔
27دسمبر2007کولیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سےکچھ دیرپہلے۔۔+6/10
محترمہ بےنظیرنےکہا کہ
"پی پی کی تاریخ جدوجہدسے بھری ہوئی ہے،میرےوالدجابر
قوتوں کےسامنےسرنگوں نہ ہوئے
اورتختہ دار پرچڑھادیئےگئے۔میرے
دوبھائی قتل ہوئے۔میری ماں کا
لاٹھیوں سےسرپھاڑدیاگیا۔مجھے
قدم قدم پراذیتیں دی گئیں۔میں جیلوں کےاندررہ کربھی جمہوریت کے لئیےلڑتی رہی۔آمروں نے+7/10
ہمیشہ جمہوریت کاراستہ روکا۔میرےکراچی کےجلسےمیں دھماکے
کرائےگئے،ہم نےاپنےسینکڑوں کارکنوں کےلاشےاٹھائے۔سیاسی یتیم کہتےتھےکہ بےنظیراب کبھی واپس نہیں آئےگی لیکن میں تمام خطرات کوایک طرف رکھ کے واپس آئی ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتی اوراپنےوطن کےلوگوں کےساتھ جینامرناچاہتی ہوں"۔+8/10
بےنظیربھٹوخطاب کےبعدجب واپس روانہ ہوئیں تو،ملک اور جمہوریت دشمن قوتوں نے محترمہ بےنظیربھٹوکوشہیدکر دیا۔بی بی کی شہادت کی خبرملتےہی ملک بھرمیں قیامت برپاہوگئی۔کراچی سےخیبر تک پوراملک سوگ میں ڈوب گیا،
ہرآنکھ اپنی اس عظیم لیڈرکی شہادت پرآشکبارتھی۔انکی شہادت صرف پیپلزپارٹی کا+9/10
ہی نہیں بلکہ پورےملک کانقصان تھا۔شہیدبینظیربھٹواب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن انکےنظریات مشن،ویژن اُنکی سوچ اورافکار
کی روشنی آج بھی موجود ہےجن پرعمل پیراہوکرھم پاکستان کو
جمہوری، کامیاب اور روشن خیال ملک بنا سکتےہیں۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کےنہیں نایاب ہیں ھم
10/10
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آخری چنددن دسمبرکے
ہر برس ہی گِراں گزرتےہیں
خواہشوں کےنگارخانے سے
کیسےکیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بےنوا گھنٹی
اب فقط میرےدل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر+1/4
رینگتی بدنُما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرےبناتی ہیں
نام جوکٹ گئے ہیں اُن کےحرف
ایسےکاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کےمقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک سے لائینیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کےآخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
+2/4
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سِمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
اک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے+3/4
کچھ عرصہ پہلےحسین زیدی کایہ کالم پڑھاتھا۔جب بھی کوئی غداریاحب الوطنی کی بات کرتاہے تویہ تحریریادآجاتی ہے۔آپ میں سےاکثرکی نظرسےیہ تحریرگزری ہوگی۔میرےخیال میں ایسی تحریریاددہانی کےلئیےباربارضرور پڑھنی چاہئیے۔اگرچہ ہمارےہاں تاریخ سےسیکھنےکاچلن ہےتو نہیں مگر پھر بھی شاید ۔۔۔+1/16
حسین زیدی
دن نیوز
غداری کاگول چکر
ہرطرف محب وطنوں کی بہارہے۔
شہرکاشہرہی غداربناپھرتاہے۔
ہم 72سالوں سےایک گول چکر میں محوسفرہیں،
میرجعفرکاپڑپوتااسکندرمرزا لیاقت علی خان کاہمرازتھا۔
قائدملت نےحسین شہیدسہروردی کوکتااوربھارتی ایجنٹ کہہ کر اسےپاکستان کےپہلےغداری ایوارڈ سےنوازا۔+2/16
دوسال بعدلیاقت علی خان کو قائدملت سےشہیدملت بنادیاگیا، ایساضرب کاری کہ قاتل کانشان تک مٹادیاگیا،
ایوب خان اسی اسکندر مرزاکا دست بازوتھا،
دونوں نےملکرہرسویلین وزیر اعظم کوغداراورکرپٹ ثابت کیا، آخرکارہمہ یاراں برزخ نےآئین اور جمہوریت کی لکیر ہی ختم کی۔ بیس دن بعداسی لاڈلے۔۔+3/16
آج اسلام آبادہائیکورٹ میں ایک وکیل صاحب نےایک عجیب و غریب کیس دائرکیاہے۔اس کیس میں استدعاکی گئی ہے کہ حکومت کوکروناویکسین کی خریداری سےروکاجائے۔پوچھاگیا کیوں؟کہناتھاکہ یہ ویکسین مسلمانوں اورخاص طورپر پاکستانیوں کیخلاف انگریزوں اور یہودیوں کی۔۔+1/8
سازش ہے۔
اس ویکسیسن کےذریعےہمارے جسموں میں سور اوربندرکا ڈی این اے ڈالاجائےگا۔
کیس کی سماعت کرنےوالے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب صاحب کااس موقع پرکہناتھاکہ بھائی کیااس ویکسین سےصرف ہم ہی بندراورسوربنیں گے؟یہ ویکسین توپوری دنیالگوارہی ہے۔ آپ کوکوئی مسئلہ ہےتوآپ نہ لگوائیں۔۔۔+2/8
وکیل صاحب کاکہناتھاکہ نہ لگوائیں توکہیں سفرنہیں کر سکتے۔بڑامسئلہ ہے۔قوم کوبندراور سوربننےسےبچائیں۔
وکیل صاحب نےاس موقع پر عدالت کوخودتیارکئےہوئےایک نقشےکی مددسےبھی"سمجھانے" کی کوشش کی۔جس میں دکھایا گیاہےکہ کیسےیہ ویکسین لگوانے کےبعد ہم بندربن جائیں گے.میرے ایک دوست کہتےہیں۔+3/8
ریڑھےپرسوارابوالاثرحفیظ جالندھری کی یہ تصویر سوشل میڈیاپرکئی بارایسےریمارکس کے ساتھ لگائی گئی گویاقومی ترانے کےخالق آخرعمرمیں اتنےبدحال تھے۔حقیقت یہ ہےکہ حفیظ جالندھری بہت پریکٹیکل آدمی تھے،خوش حال ہی رہے۔سرکار دربارکے ہمیشہ قریب رہے۔شاہنامہ اسلام لکھ شاعراسلام بنےتوکئی۔۔+1/4
نوابوں اورامرأسےوظائف ملنےلگے۔دوسری جنگ عظیم کےدوران انگریزی فوج میں بھرتی کیلئےپبلسٹی آفیسربن گئے اور”میں توچھورےکوبھرتی کرا آئی رے“ اور’’ ایتھے پھردےاو ننگے پیریں،اوتھےملن گے بوٹ ‘‘ جیسےگیت لکھے۔بعد میں وہ میم سےشادی کرکےانگریزوں کے داماد بھی بن گئے۔پاکستان بنا تو ۔۔+2/4
قومی ترانےکےخالق ہونےکا اعزاز مل گیا۔اس کامول وہ ہمیشہ وصول کرتے رہے۔سو اچھی ہی گزری۔
یہ تصویر اگست 1981کی ہے جب وہ ماڈل ٹاؤن ، لاہور میں اپنی کوٹھی کی مرمت،توسیع یا تزئین کیلئےریت، بجری لےکر جارہےتھے۔ریڑھےوالےکوراستہ سمجھانےکی زحمت سےبچنے کیلئے خود اس کے ساتھ چل پڑے۔+3/4
پاکستانی تاریخ کےساتھ کھلواڑواقعی ہوئی ہےپاکستان کی درست تاریخ جانناپاکستانیوں کا حق تھامگربدقسمتی سےدوسرے حقوق کی طرح یہ حق بھی بری طرح پامال کیاگیااورایک من پسند گھڑی گھڑائی جھوٹی تاریخ
،مطالعہ پاکستان کےنام سےنصاب میں شامل کرکے پاکستانی بچوں کوبچپن سےجھوٹ رٹوایاگیا۔ھم +1/7
پاکستانی وہ بدقسمت قوم ہیں جن سےقدم،قدم پرجھوٹ بولا گیا۔شکست کو فتح بتایا گیا،محب وطن لوگوں کو غدار بتایا گیا اورغداروں کومحب وطن۔یہاں تک کہ جس تاریخ( 15اگست 1947 کے بجائے 14اگست 1947)کو پاکستان ایک الگ مملکیت کی حثیت سے وجود میں آیااسے بھی بدل کردیاگیا۔قائدکاجو وژن تھااور+2/7
جس مقصدکےلئیےپاکستان وجود میں آیاتھااسےبدل دیاگیاقائد کی وہ تقاریر ریکارڈسےغائب کردی گئیں(11اگست1947کی تقریر) جوقیام پاکستان کےاغراض ومقاصدکی وضاحت کرتی تھیں۔اورتواورقائد کی تاریخ پیدائش کےحوالےسےبھی کنفوژن پیدا کیاگیااورکافی عرصے تک 26 دسمبرکوملک میں قائد کےیوم پیدائش کی۔۔+3/7
وقت کرتاہےپرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے اسباب کاجائزہ لیں توواضح ہوتا ہےکہ اس میں کئی عوامل نےاہم کرداراداکیاجن میں جغرافیائی
معاشرتی اورثقافتی لسانی تفریق کےعوامل جہاں اھم تھےوہاں کئی دیگرکرداربھی تھےجنھوں نے مشرقی پاکستان کےحالات کواس نہج تک+1/11
پہنچادیاتھا۔سیاستدانوں،بیوروکریٹسں،فوجی افسروں،انتظامی افسروں کی ایک
پوری نسل نےقوم کواس مقام پرلا
کھڑاکیا۔مشرقی پاکستان کا
اقتصادی استحصال سول اور ملٹری سروس میں بنگالیوں سے عدم مساوت مشرقی پاکستان کا اقتصادی استحصال، سول اور ملٹری سروس میں بنگالیوں سے عدم مساوات پرمبنی+2/11
رویہ،آئین سازی میں اختلافات،یہ وہ تمام عوامل تھےجوبالآخر مشرقی پاکستان کےسقوط اور بنگلہ دیش کےقیام پرمنتج ہوئے۔بیوروکریسی کابنگالیوں سےہتک امیز رویہ بھی علیحدگی پسند تحریک کاسبب بنا۔قیام پاکستان کےبعدجوسرکاری آفیسرمشرقی پاکستان گئیےانھوں نےبنگالیوں سےبہتررویہ اختیارنہ کیا۔+3/11