وقت کرتاہےپرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے اسباب کاجائزہ لیں توواضح ہوتا ہےکہ اس میں کئی عوامل نےاہم کرداراداکیاجن میں جغرافیائی
معاشرتی اورثقافتی لسانی تفریق کےعوامل جہاں اھم تھےوہاں کئی دیگرکرداربھی تھےجنھوں نے مشرقی پاکستان کےحالات کواس نہج تک+1/11
پہنچادیاتھا۔سیاستدانوں،بیوروکریٹسں،فوجی افسروں،انتظامی افسروں کی ایک
پوری نسل نےقوم کواس مقام پرلا
کھڑاکیا۔مشرقی پاکستان کا
اقتصادی استحصال سول اور ملٹری سروس میں بنگالیوں سے عدم مساوت مشرقی پاکستان کا اقتصادی استحصال، سول اور ملٹری سروس میں بنگالیوں سے عدم مساوات پرمبنی+2/11
رویہ،آئین سازی میں اختلافات،یہ وہ تمام عوامل تھےجوبالآخر مشرقی پاکستان کےسقوط اور بنگلہ دیش کےقیام پرمنتج ہوئے۔بیوروکریسی کابنگالیوں سےہتک امیز رویہ بھی علیحدگی پسند تحریک کاسبب بنا۔قیام پاکستان کےبعدجوسرکاری آفیسرمشرقی پاکستان گئیےانھوں نےبنگالیوں سےبہتررویہ اختیارنہ کیا۔+3/11
وہ انگریزکےتربیت یافتہ تھے
انہوں نےانگریزوں کےاسی حاکم و محکوم کےطرزعمل کواختیارکیا
جوانگریز مقامی لوگوں سےرکھتے
تھے۔بنگالیوں کویہ بھی گلہ تھاکہ مغربی پاکستان کےحکمرانوں نے بنگال کےوسائل پرمغربی پاکستان
میں سڑکیں بنائیں،اداروں کو کھڑا
کیامگربنگال کونظراندازکردیا۔
بنگالیوں+4/11
کونہ توترقی کرنےدی گئی اورنہ ہی انکی سیاسی قوت کوتسلیم کیاگیا۔ایک اھم معاملہ لسانی شناخت کا بھی تھاپاکستان کی حکمران اشرافیہ،فوجی اور
بیوروکریٹ اشرافیہ بنگالیوں کے
اپنی زبان سےقلبی لگاؤکادرست ادراک نہ کرپائی۔بنگالی قوم
تہذیبی اورثقافتی بنیادپردنیامیں ایک مقام رکھتی ہے۔+5/11
ادب کےمیدان میں بنگالی ادیب رابندرناتھ ٹیگورکونوبل انعام سے
نوازاگیاتھاجبکہ1967میں ریڈیو
پاکستان پربنگالی کےعظیم شاعر،
رابندر ناتھ ٹیگورکےفن پاروں پر
پابندی عائدکررکھی تھی۔مشرقی
پاکستان کےباشندوں کےلئیےزبان
محض جزباتی وابستگی کامعاملہ ہی نہیں تھا۔وہ اپنی مادری زبان کے۔۔+6/11
بجائے کسی دوسری زبان کو
سرکاری زبان کےطورپرقبول کرنا
غلامی کےمترادف سمجھتےتھے۔ان کے لیےبنگالی زبان معاشی امکانات اور سیاسی مواقع کا سوال بھی تھا۔چناچہ جب 1948میں قائد اعظم ڈھاکہ آئےاورانھوں نےاپنی تقریرکےدوران کہاکہ"اردو اورصرف اردوہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی"توان کی۔۔+7/11
تقریر پرمجمعےکی جانب سے فوری اورشدیداحتجاج سامنے آیا۔ایک ایسی زبان مسلط کرنےکے فیصلےکوجوبنگالیوں کے لیےنو وارد تھی سیاسی اور اقتصادی برتری قائم کرنےاوردباؤ کا ایک حربہ سمجھاگیا۔اس وقت کے مغربی پاکستان میں بنگالی ثقافت کوہندومت کاعکس سمجھاجاتا تھا۔لہذاجناح شدیداحتجاج کے۔۔ +8/11
باوجودسرکاری زبان کےحوالے سےاپنےفیصلے پرقائم رہےاوران کےبعدنواب زادہ لیاقت علی خان بھی اس فیصلے پرقائم رہےچناچہ
26جنوری 1952کو پاکستان کی اسمبلی نےاردوزبان کوسرکاری زبان قرار دینےکی حتمی منظوری دےدی،تواس سےبنگالی احتجاج کالاواپھوٹ پڑا۔اگلےدن گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے+9/11
ڈھاکہ میں ایک بڑی ریلی کے دوران اس قرار داد کی حمائت میں تقریر کی تو اس تقریر نے
جلتی پر تیل۔کاکام کیااس تقریر کومستردکرتےہوئےمشرقی پاکستان میں عام ہڑتال اور
مظاہرےشروع ہوگئےان مظاہروں میں طلباکےساتھ سیاستدان، صحافی اوردیگرسول سوسائٹی کےافرادشامل ہوگئے۔مظاہروں کو روکنے۔۔
+10/11
کےلئیےسخت اقدامات کئیےگئے طاقت کا استعمال ہواگولی چلی ہلاکتیں ہوئیں۔مگرہنگامےتب تک کم نہیں ہوئےجب تک چار سال بعدبنگلہ کوسرکاری زبان کےطور
پرتسلیم نہیں کیاگیا۔مگرتب تک اتنی دیر ہوچکی تھی کہ یہ فیصلہ بھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کےدرمیاں پڑجانےوالی دراڑکونہ پاٹ سکا۔۔11/11
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"جس چیز کی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کرسکے،اس کے چھن جانےپرعورتوں کی طرح آنسوبہانےسےکیافائدہ۔"
ابوعبداللہ نےمڑکرغرناطہ پرآخری نگاہ ڈالی اوراسکی آنکھ سے آنسوٹپک کرغرناطہ کی زمین میں جذب ہوگیا۔وہ غرناطہ جس کی چابیاں فرڈینندکےحوالےکرکےاب وہ جلاوطن ہورہاتھا۔لیکن ہمارے +1/15
ابوعبداللہ کےپاس توکوئی ماں نہیں تھی جو اس پسپائی کاطعنہ دےسکتی۔اور ہمارےابوعبداللہ جواپنےغرناطہ کی حفاظت نہ کرسکےانکی آنکھ سے آج تک کوئی آنسو نہیں ٹپکا۔انکاسرِپُرغرورآج بھی اسی طرح بلندہےاوراسی بلندی سےہی آج بھی اپنےزیرنگیں مخلوق کو دیکھتےہیں۔سولہ دسمبرمیرےملک کی تاریخ کا+2/15
بدترین اورمنحوس ترین دن ہے۔دوباراس دن نےہمیں ذلّت رسوائی کےپاتال میں لاپھینکاسن 2014
میں اسی تاریخ کوہماری ہی قوم کےکچھ درندوں،جنہیں ہم نےہی دودھ پلایاتھا،ہمارےننھےپھولوں اور معصوم کلیوں کوخاک و خون میں نہلادیاتھااورایک ایسازخم دےگئےتھےجوسینےمیں آج بھی تازہ ہےاورآج بھی لہو+3/15
پاکستانی عورت کہاں جائے؟
سرکاری اعدادوشمارکےمطابق پاکستان میں70فیصدسےزائد خواتین روزمرہ زندگی میں ہراساں کی جاتی ہیں۔جبکہ ملازمت پیشہ خواتین کےلئیے مسائل بہت سنگین ہیں۔پاکستان جیسےملک میں گھریلوحالات، غربت، تنگ دستی، محرومیوں اور مہنگائی کےہاتھوں مجبورعورت، جب روزگار کی۔۔+1/11
تلاش میں باہرنکلتی ہےتو وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنارہتاہے۔ملازمت کی تلاش سے
ملازمت کےحصول تک ضرورتمند
خاتون کوجن مراحل سےگزرنا
پڑتاہےاسکی ایک جھلک اس وائرل ویڈیومیں دیکھی جاسکتی ہےکہ کیسےکیسےشیطان خواتین کی مجبوریوں کافائدہ اٹھانےکی کوشش کرتےہیں آول توملازمت۔۔۔ +2/11
کےحصول کےلیےبھی سو طرح کےپاپڑ بلینے پڑتے ہیں اور فرض کیجیےکہ ملازمت مل بھی جائے توبھی سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث اسے ہروقت جنسی تفریق کاسامناکرناپڑتا ہے۔خواتین کےگھرسےنکل کر نوکری کرنےکی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔پچھلے دنوں ایک بنک کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک۔۔+3/11
کوٹہ سسٹم سے متعق تاریخی حقائق کاجائزہ اور ذوالفقارعلی بھٹو کا کردار۔۔
شہری سندھ والوں نےکوٹہ سسٹم کوایک جماعت کےنعرےکےطورپر
توسناہےمگرشائداس کی تاریخی حقیقت سےبلکل بےخبر ہیں۔کوٹہ سسٹم سےمتعلق اکثریت کی معلومات محض سنی سنائی باتوں اورپرپیگنڈےتک محدود ہےاور اس کوبنیاد بنا۔+1/16
کرساراملبہ بھٹوصاحب پر
ڈالاجاتارہاہے۔اگرکوٹہ سسٹم کی تاریخ اورحقائق کاجائزہ لیں تو
معلوم ہوگاکہ کوٹہ سسٹم تو
برطانوی دورکےمتحدہ ہندوستان
میں بھی رائج تھابرطانوی دور
حکومت میں ہندوستان کی ان
ریاستوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھےجیسےکہ یوپی،سی پی،
بہاروغیرہ میں مسلمانوں کا+2/16
ملازمتوں میں کوٹہ 30فیصد اورہندوں کاکوٹہ 70فیصدتھا۔ اسی طرح غیرمنقسم ہندوستان کی وہ ریاستیں جہاں مسلمان اکثریت میں اور ہندواقلیت میں تھے،مثال کے طورپر بنگال اور
سندھ ،وہاں مسلمانوں کا کوٹہ 70فیصد اور ہندوئوں کےلئے 30فیصد تھا۔اور یہ صورتحال پاکستان اور ہندوستان کی آزادی تک+3/16
دیہی اور شہری تقسم یعنی کوٹہ سسٹم توبھٹو صاحب سے بھی پہلے پاکستان کےپہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس کوٹہ سسٹم کا پاکستان میں آغازکیاتھا اور 15نومبر 1948میں کوٹہ سسٹم کا پہلا نوٹی فکیشن جاری ہوا۔اس کے مطابق اس میں 15فیصد ان مہاجرین کےلئیے کوٹہ رکھا گیا تھا جو ابھی۔۔+1/4
ہندوستان سے ہجرت کرکےپاکستان آئے ہی نہیں تھے،اس وقت کراچی کی آبادی چند لاکھ تھی اور اس شہر کوبھی دوفیصد کوٹہ دیا گیااور دوسرا نوٹی فکیشن ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت سےبھی پہلےجنرل یحیٰی کےدور میں 16جنوری 1971 میں جاری ہوا۔رخمان گل صاحب نے شہری دیہی کوٹے کانفاذ کیا۔۔+2/4
جِس میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی 40 فیصد نمائندگی اور باقی صوبے کی60 فیصد مقرر ہوئی۔ آگے چل کر اِس کو ذوالفقار علی بھٹو نے1972 میں 10 سال کی مدت کے لئے نافذ کیا۔جسے بعد میں جنرل ضیاءالحق نے 10 سال کے لئیے مزید بڑھا دیا۔اس کے بعد آنے والی سول حکومتوں اور آمر جنرل ۔۔+3/4
ذوالفقارعلی بھٹوسیاست کو خواص کےڈرائنگ رومزسےنکال کرپاکستان کی غریب عوام
مزدوروں کسانوں اورپسےہوئے طبقات تک لےآئے۔عوام کوپہلی بارعلم ہواکہ انکےووٹ کی قدرو قیمت کیاہے۔
جہاں تک جنرل گل حسن کا معاملہ ہےبھٹوسول بالادستی کے قائل تھےمگرفوجی افسران اقتدار کےاس قدرعادی ہوگئےتھے۔+1/8
کہ کسی سویلین کوحاکم تسلیم کرنامشکل ہوگیاتھااوروہ ایک اور فوجی بغاوت کرناچاہتےتھےلیکن بھٹوصاحب کی بروقت حکمت عملی سےناکام و نامرادہوئے۔(وقت ملےتوبلال غوری کےیوٹیوب چینل ترازو پراس واقعے سےمتعلق تمام تفصیلات جانئیے۔👇
)
اسی طرح بھٹوصاحب پر الزام۔۔+2/8
لگایاجاتاہےکہ انھوں نےسینر فوجی افسران کو چھوڑ کرجنرل ضیا الحق کو آرمی چیف کیوں بنایا۔۔بھٹو صاحب کی کوشش تھی کہ ملک و قوم کو فوجی آمریت سے بچایا جائے اور ملک میں جمہوریت پھلے پھولے اور ملک پرعوام کی منتخب حکومت ہو۔اس سلسلے میں بھٹو صاحب جتنی احتیاط کر سکتے تھے کی مگر ۔۔+3/8
استاددامن عوامی اور مزاحمتی شاعرتھےایوب خان کے دور میں نظم لکھی
’’اتوں اتوں کھائی جا
وچوں رولا پائی جا‘‘
اس پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ بھٹو دور میں جب اپنی مشہور نظم ’’
ایہہ کیہ کری جانا ایں،
کدی شملے کدی مری جانا ایں‘‘ کہی تو پنجاب پولیس نےاُن کے حجرےمیں سےدو ریوالور..+1/5
اورتین دستی بم برآمدکرلیے۔
استاددامن نےجیل کاٹی،باہر نکلےتواگلےمشاعرےکوایک ہی شعر سےلوٹ لیا
نہ کڑی،نہ چرس،نہ شراب دامن
تے شاعر دے گھر چوں بم نکلے
ضیاءدورکی بدترین امریت پہ یہ نظم کہی
میرے ملک دے دو خدا
لا الہٰ تے مارشل لاء
اک رہندا اےعرشاں اُتے
اک رہندا اے فرشاں اُتے
۔۔+2/5
اوہدا ناں اےاللہ میاں
ایہداناں اےجنرل ضیاء
واہ بھئی واہ جنرل ضیاء
کون کہنداتینوں ایتھوں جا
اور
ساڈےملک دیاں موجاں ای موجاں
جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں
حکمرانوں کی امریکہ سے"نیازمندی" یاغلامی پراستاد نےکہا
امریکہ زندہ بادامریکہ
ہر مرض نوں ٹیکہ
زندہ بادامریک
استادکورخصت ہوئے
+3/5