ایک سنار کے انتقال کے بعد اس کا خاندان مصیبت میں پڑ گیا. کھانے کے بھی لالے پڑ گئے.
ایک دن اس کی بیوی نے اپنے بیٹے کو نیلم کا ایک ہار دے کر کہا 'بیٹا، اسے اپنے چچا کی دکان پر لے جاؤ.
کہنا یہ بیچ کر کچھ پیسے دے دیں.
بیٹا وه ہار لے کر چچا جی کے پاس گیا.
چچا نے ہار کو اچھی طرح دیکھ اور پرکھ کر کہا بیٹا، ماں سے کہنا کہ ابھی مارکیٹ بہت مندا ہے. تھوڑا رک کر فروخت کرنا، اچھے دام ملیں گے.
اسے تھوڑے سے روپے دے کر کہا کہ تم کل سے دکان پر آکر بیٹھنا.
اگلے دن سے وه لڑکا روزانه دکان پر جانے لگا اور وہاں ہیروں و جواہرات کی پرکھ کا کام
سیکھنے لگا.
ایک دن وه بڑا ماہر بن گیا. لوگ دور دور سے اپنے ہیرے کی پرکھ کرانے آنے لگے.
ایک دن اس کے چچا نے کہا، بیٹا اپنی ماں سے وه ہار لے کر آنا اور کہنا کہ اب مارکیٹ میں بہت تیزی ہے، اس کے اچھے دام مل جائیں گے.
ماں سے ہار لے کر اس نے پرکھا تو پایا کہ وه تو جعلی ہے.
وه اسے گھر پر ہی چھوڑ کر دکان لوٹ آیا.
چچا نے پوچھا، ہار نہیں لائے؟
اس نے کہا، وه تو جعلی تھا.
تب چچا نے کہا جب تم پہلی بار ہار لے کر آئے تھے، اسوقت اگر میں نے اسے جعلی بتا دیا ہوتا تو تم سوچتے کہ آج ہم پر برا وقت آیا تو چچا ہماری چیز کو بھی جعلی بتانے لگے.
آج جب تمہیں خود علم ہو گیا تو پتہ چل گیا کہ ہار نقلی ہے.
سچ یہ ہے کہ علم کے بغیر اس دنیا میں ہم جو بھی سوچتے، دیکھتے اور جانتے ہیں، سب غلط ہے. اور ایسے ہی غلط فہمی کا شکار ہو
کر رشتے بگڑتے ہیں.
ذرا سی رنجش پر، نہ چھوڑ کسی بھی اپنے کا دامن
زندگی گزر جاتی ہے، اپنوں کو اپنا بنانے میں
آج سے بیس ہزار سال قبل افریقہ کے ایک دور دراز علاقے میں ایک گھنے جنگل کے بیچ ایک آدم خور قبیلہ رہتا تھا، کہتے ہیں کہ اس وقت تقریباً آدھی دنیا کے انسان وہ کھا چکے تھے اور جو انسان بقا کی جنگ لڑ رہے تھے ان میں اس قبیلے کو لے کے شدید خوف ہراس پایا جاتا تھا اور لوگ چھپ کر رہنے پر
👇
مجبور تھے، بچے کھچے انسانوں نے بہت سوچ بچار کی کہ آخر کیسے اس آدم خور قبیلے سے انسانوں کو بچایا جائے، مگر ساری کوششیں بےکار گئیں، آدم خور پوری دنیا میں گھومتے اور جو انسان نظر آتا پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور آگ کا بڑا آلاو جلا کر اس پر زندہ بھونتے اور ساتھ میں رقص کرتے، پھر
👇
اختتام پہ انسانی گوشت سے ضیافت اڑائی جاتی۔ کچھ لوگوں کا ایک گروہ چھپتا چھپاتا عرب کے صحرا میں پہنچا تو آدم خوروں کی ایک ٹولی بھی ان کے تعقب میں ادھر نکل آئی، سب کو جان لے لالے پڑھ گئے اچانک ان کو کچھ درخت نظر آئے جو کہ بہت عجیب تھے سب نے پر چڑھ کر جان بچانے اور چھپنے کا فیصلہ
👇
کوئی کالی قمیض ہوندی
دل نہیں رج سکدا
تھرک انج دی چیز ہوندی
یہ ماہیے کے الفاظ ہر طرف گونج رہے تھے۔ جب ہم ٹھرکی بابا کے آستانے پر پہنچے۔ کیونکہ ایک معتبر دوست کے حوالے سے ملاقات کا وقت متعین تھا، اس لیے ملاقات اور گفتگو میں دشواری پیش نہ آئی۔ ہمارا
پہلا ہی سوال تھا، آپ کو ٹھرکی بابا کیوں کہا جاتا ہے؟ اور پھر علم کے وہ روشن نقطے انھوں نے ہمیں بتائیے جو ہم آج آپ کے لئے قلم بند کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں کتابوں میں پڑھا تھا: جتنا ہو سکے پیار بانٹو، جب عمل شروع کیا تو سب ٹھرکی سمجھنے لگے۔ شروع شروع میں برا لگا لیکن
جب تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ٹھرکی ایک فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خواتین کا خیر خواہ اور مزید تحقیق سے پتا چلا ٹھرکی وہ واحد مکتبہ فکر ہے، جو رنگ و نسل، مذہب و فرقے اور ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچتا ہے شاید اسی لئے عموماً ٹھرکی کی پہلی محبت اس
ایک آدمی سڑک پہ جا رہا تھا ، پیچھے سے آواز آئی، رْک جا ورنہ مارا جائیگاوہ آدمی رْک گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ایک آئل ٹینکر اچانک الٹا اور اس میں آگ بھڑک اْٹھی- وہ آدمی بال بال بچ گیا۔
ا گلے ہی وہی آدمی اگلے روز باغ کی سیر کر رہا تھا کہ آواز آئی رْک جا ،
👇
ورنہ مارا جائیگا- وہ آدمی اً فور جہاں تھا وہیں رْک گیا-عین سامنے ایک درخت کڑکڑاتا ہوا اس کے چند قدموں کے فاصلے پرگرا اور وہ آدمی صاف بچ گیا اس کے جسم سے پسینہ پانی بن کر بہنے لگا اس نے خداکا شکرادا کیا۔ وہی آدمی اگلے روز پچاس روپے کی دہی لینے دودھ کی دکان پہ جارہا تھا کہ
👇
آواز آئی رْک ، ورنہ مر جائے گا- وہ رْک گیا- اسی وقت سامنے والے کھمبے سے ایک تار ٹوٹ کر گری ایک بھینس پر گری اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی ، اور وہ پھرآدمی صاف بچ گیا۔
چند دنوں وہی آدمی موٹر سائیکل پر اپنے دفتر سے گھرجانے کے لئے نکلا ابھی کچھ دورہی گیا ہوگا و ہی آوازگونجی
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تا زندگی کریں گے
ہے کس کی گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے ، یہی خطا کل سبھی کریں گے
#MushahidullahKhan
وظیفہ خواروں سے کیا شکایت ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر وہ لوگ تو نوکری کریں گے
لئے جو پھرتے ہیں تمغہء فن ، رہے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے
#MushahidullahKhan
نہ خوفِ زنداں نہ دار کا غم یہ بات دہرارہے ہیں پھر ہم
کہ آخری فیصلہ وہ ہوگا جو دس کروڑ آدمی کریں گے
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
شعارِ صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے
کیا آپ جانتے ہیں مشاہد اللہ خان کون ہے؟ نہیں آپ میں سے سب لوگ نہیں جانتے، زیادہ تر صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ سینیٹر ہیں ، مسلم لیگ (ن) کا لیڈر ہے، سابق وزیر ہے، ٹی وی پر جو چند لوگ بہت خوبصورت گفتگو کرتے ہیں مشاہد اللہ ان میں سرفہرست ہے۔ سیاستدان ہونے کے باوجود اس کا شعری ذوق
بہت اعلیٰ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس مشاہد اللہ کو صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو جمہوریت کے ساتھ اس کے عشق اور اس عشق کے لئے دی گئی اس کی قربانیوں سے واقف ہیں، آئیں میں آج آپ کو اس ضدی شخص کے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں۔
بارہ اکتوبر1999ء پاکستان کی مارشل لائوں
کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن تھا، جب پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور خود حکمران بن بیٹھا۔ اس وقت پورا پاکستان ایک سکتے کے عالم میں تھا۔ ان بدقسمت سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کی خوشی میں مٹھائی بانٹی جنہیں
سکندرِاعظم دنیا فتح کرنے کے لیے جگہ جگہ پھر رہا تھا ۔ اس نے ایک بہت بڑے ملک پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ وہاں کا بادشاہ سکندر کی فوج سے بڑا لشکر رکھتا تھا۔ مگراس نے جنگ کے بجاے صلح کے لئے پیش قدمی کی۔ سکندر نے اس کا بھاری لشکر دیکھ کر کہا :”
اگر توصلح کے لیے آیا ہے تو اتنی بڑی فوج لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ معلوم ہوتا یے، تیرے دل میں دغا یے”۔ بادشاہ ے کہا: “سکندر! دغا کم زورں کا شیوا یے ۔ مقدر والے کبھی دغا نہیں کرتے۔ اپنی فوج ساتھ لانے کا مقصد یہ جتانا یے کہ کسی خوف کی بنا پر اطاعت
نہیں کر ریے، بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ فی زمانہ تیرا اقبال بلند ہے”۔ سکندر نے صلح کا ہاتھ بڑھا دیا۔ بادشاہ نے سکندر کے اعزاز میں ایک پر تکلف دعوت کا انتظام کیا، پھر اسے ایک وسیع و عریغ خیمے میں لایا گیا اور بیش بہا لعل و جواہر قیمتی برتن میں بھر کر اس