استاد صاحب نے کلاس میں موجود
جسمانی طور پر ایک مضبوط
بچے کو بُلایا
اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا
اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا
اور بولے تگڑا ہوجا
پھر
اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا
یا یوں کہیں دبانا شروع کردیا
جاری ہے 👇
وہ بچہ تگڑا تھا
وہ اکڑ کر کھڑا رہا
استاد محترم نے اپنا پورا زور
لگانا شروع کر دیا
وہ بچہ دبنے لگا
اور
بلآخر آہستہ آہستہ نیچے
بیٹھتا چلا گیا
استاد محترم بھی اُسے دبانے کے
لئے نیچے ہوتاچلا گیا
وہ لڑکا آخر میں تقریباً گر گیا
اور اُس سے تھوڑا کم
استاد محترم بھی زمین پر تھے
جاری ہے 👇
اُستاد صاحب نے اِس کے بعد اُسے
اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہوئے
”آپ نے دیکھا مجھے اِس بچے کو نیچے گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا ؟
دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی
طرف جا رہا تھا
میں بھی اِس کے ساتھ ساتھ
نیچے جا رہا تھا
یہاں تک کہ ہم دونوں
زمین کی سطح تک پہنچ گئے“
جاری ہے 👇
اِس تھریڈ کو سیاسی نہ لیا جائے
میں سیاست اور مسلک پر نہیں لکھتا
یہ ایک تلخ حقیقت ہے بس۔۔
پرانے زمانے کی بات ہے
کہ
ایک بادشاہ سلامت نے رات کو
گیدڑوں
کی آوازیں سنی تو صبح
وزیروں سے پو چھا
کہ
رات کو یہ گیدڑ بہت شور کر رہے تھے
کیا وجہ ہے ؟
اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے
جاری ہے👇
انھوں نے کہا
جناب
کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگئی
اس لیے فریاد کررہےہیں
تو حاکم وقت نے آرڈر دیا
کہ
ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا جائے
وزیر صاحب نے مال اکھٹا کیا
کچھ مال گھر بھجوادیا
اور
کچھ رشتہ داروں
اور
دوستوں میں تقسیم کیا
اگلی رات کو پھر وہیں آوازیں آئیں
تو
جاری ہے 👇
صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا
کہ
کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا؟
تو وزیر نے فوری جواب دیا
کہ
جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا
اس پر بادشاہ نے فرمایا
کہ
پھر شور کیوں؟
تو وزیر نے کہا
جناب سردی کی وجہ سے شور کر رہےہیں
تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا
کہ بستروں کا انتظام کیا جائے
جاری ہے👇
یہ ایک واقعہ نہیں ہے
یہ ایک سبق ہے جو میں اپنا
فرض سمجھ کر یہاں شئیر کر رہا ہوں
واقع عربی مسلم ملک مصر کا ہے
قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں
سوار اُس عمر رسیدہ شخص کی
عمر کم از کم ساٹھ تو ہوگی
اور
اوپر سے اُس کی وضع قطع اور لباس
ہر زاویے سے
جاری ہے 👇
دیہاتی مگر جہاندیدہ
اور سمجھدار بندہ لگتا تھا
ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو
ایک نوجوان جوڑا سوار ہوا
جو اس بوڑھے کے سامنے والی
نشست پر آن بیٹھا
صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں
مگر افسوس کی بات یہ تھی
کہ
لڑکی نے انتہائی نامناسب لباس
برمودہ پینٹس کے ساتھ ایک
بغیر بازؤں کی کھلے
جاری ہے 👇
گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی
جس سے اس کے شانے ہی نہیں
اور بھی بہت سارا جسم دعوت نظارہ
بنا ہوا تھا
مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی
اچھوتا کام نہیں
اور نا ہی کوئی ایسا لباس پہنے کسی لڑکی کو شوہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے
مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ
لڑکی کے خاوند کی حیرت دید
جاری ہے 👇
مدینہ کی گلیوں میں
منادی کرنے والے کی صدا گونجتی ہے
کہ
"پردے کا حکم"
نازل ہو گیا ہے
بازار میں موجود عورتیں
دیواروں کیطرف رخ پھیر لیتی ہیں
کچھ بالوں سے خود کو چھپاتی ہیں
کہ
اب تو چادر کے بغیر گھر نہیں جائیں گی
بچوں کو دوڑاتی ہیں
کہ
گھر سے چادر لے آؤ
جاری ہے 👇
مرد حضرات منادی سنتے ہیں
گھروں کو لپک کر
گھر کی خواتین کو یہ حکم سناتے ہیں
اُن کوخود کو ڈھانپنے کا کہتے ہیں
مگر کوئی بی بی سوال نہیں کرتی
کہ
پردہ کس چیز سے کرنا ہے؟
چادر موٹی ہو یا باریک؟
آنکھیں کھلی ہوں یا چھپی؟
اور بس
خود کو ایسے چھپا لیتی ہیں
جیسے کہ حق تھا
جاری ہے 👇
اگلے دن فجر کی نماز میں
کوئی بھی خاتون
بغیر پردے کے نظر نہیں آتی۔۔
چلیں آج کے دور میں
شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑے
سکیورٹی گارڈ گردن کو خم دیکر
ڈھیلے سے انداز میں
سامنے پردے میں کھڑی لڑکی سے کہتا ہے
’’یہ آپ کی تصویر تو نہیں ہے"
مجھے کیسے پتہ چلے گا
کہ یہ آپ ہی ہیں؟
جاری ہے 👇
درود شریف
میں ایک پورا نظام پوشیدہ ہے
ہم اِسے
"نظام محبت"
اور
"نظام رحمت"
کہہ سکتے ہیں
اور
درودشریف پڑھتے ہی یہ پورا نظام
حرکت میں آجاتا ہے
مختصر طور پر اِس نظام کو سمجھ لیں
درودشریف پڑھنے والے نے
اللّٰه تعالیٰ سے محبت کا ثبوت دیا
کیونکہ
درودشریف پڑھنے کا حُکم
جاری ہے 👇
خود اللّٰه تعالیٰ نے دیا ہے
تو یہ ہوئی
"پہلی محبت"
درود شریف پڑھنے والے نے
حضور اقدس ﷺ سے محبت کا
ایک حق ادا کیا
یہ محبت ایمان کے لئے لازمی ہے
جب تک رسول اللّٰه ﷺ کی محبت
ہمیں ہر چیز سے بڑھ کر حاصل نہیں ہو گی
اُس وقت تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا اعتبار والا ایمان
جاری ہے👇
وہی ہے جس میں
حضور اقدسﷺ سے محبت
سب سے بڑھ کر ہو
اپنے والدین
اپنی اولاد
اپنے مال اور
اپنی جان سے بھی بڑھ کر
انسان کو جب کسی چیز سے
سچی محبت ہوتی ہے تو
وہ اُس کا تذکرہ زیادہ کرتا ہے
آپ بازار چلے جائیں
ہر طرف مال، مال اور مال کی آوازیں سنیں گے
ہمیں حضور اقدس ﷺ کی صحبت
جاری ہے👇
کچھ سال پہلے کی بات ہے
امریکہ کے ایک ٹی وی چینل پر
ایک ریالٹی شو آیا کرتا تھا
جس کا نام
"جیری اسپرنگر شو"
تھا
یہ شو بہت دلچسپ تھا
یہ 1991 میں شروع ہوا
اور ستائیس سال تک مسلسل
چلنے کے بعد 2018 میں ختم ہو گیا
اس شو میں حقیقی زندگی سے
تعلق رکھنے والے کردار حقیقی مسائل
جاری ہے 👇
پر بحث مباحثے کرتے
شو کی ریٹنگ بہت زیادہ تھی
اس وجہ سے چینل کو بہت زیادہ آمدن ہوا کرتی تھی
چنانچہ ایسے افراد جو اس شو میں
آ کر اپنے حقیقی مسائل پیش کرتے
شو کے منتظمین معاوضے کے طور پر
انہیں اچھی خاصی رقم دیا کرتے تھے
یہ لوگ واقعی حقیقی ہوتے
انڈیا پاکستان کے شوز کی طرح
جاری ہے 👇
پیڈ ایکٹرز نہیں ہوتے تھے
نتیجتاً اس شو کی مقبولیت میں
بے پناہ اضافہ کوتا چلا گیا
ان شوز میں ایک ایسا سلسلہ بھی
شروع کیا گیا جسے آپ کہہ سکتے ہیں
کہ وہ امریکہ کے چہرے پر
زوردار تھپڑ تھا
(اگر امریکہ کا کوئی چہرہ ہے)
اس سلسلے کا نام تھا
"اس بچے کا باپ کون ہے"
اس شو میں
جاری ہے 👇