پاکستان کا حسن وہ نہیں جو آپ دیکھتے ہیں جیسے پہاڑ ، ریگستان ، جنگلات ، سمندر ، دریا اِن سب کی افادیت اپنی جگہ ہے لاکن پاکستان کا اصل حسن ایسے لوگوں سے جڑا ہے جنہوں نے نیک نامی اور بے لوث ہو کر اپنے لوگوں کے کام آنا ہو جیسے ٹنڈل رام پرشاد
کیا کوئی جانتا ہے ان صاب کو ؟
ٹنڈل رام پرشاد دکن ( بھارت ) کے رہنے والےتھے ایک امیر ترین جاگیردار اپنے وقت کے لیکن ان کی آخری آرام گاہ جہلم میں ہے اور جس جگہ پر یہ آرام فرما ہیں یہ زمین انکی تھی اس زمین کے ساتھ ایک واقعہ جڑا ہے اور یہ واقعہ قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے انکی وفات بھی قیامِ پاکستان سے قبل ہوئی
قیام پاکستان سے قبل جہلم میں ان کی کئی مربع زمین تھی وہاں کسی مسلمان کے گھر فوتگی ہو گئی رشتےداروں کے بائیکاٹ کی بدولت اس عورت کو مقامی قبرستان میں دفن ہونے نہیں دیا گیا وہ لوگ جب ٹنڈل رام کی زمین سے گزرے تو ٹنڈل رام نے پوچھا کیا ماجرا ہے انہوں نے کہا ہم نے میت دفنانی ہے
مگر دشمنی اور ناچاقی کے باعث زمین نہیں مل رہی اب گھر جا کر دفنائیں گے ٹنڈل رام نے کہا میری بات سنو تم اس میت کو یہاں میری زمین پر دفنا دو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ پھر اس عورت کو وہاں دفن کیا گیا وقت گزرتا گیا ۔ ٹنڈل رام کو اللہ کی طرف سے آگاہی ہوئی انہوں نے اسلام قبول کر لیا
مگر اپنا نام نہیں تبدیل کیا اور وصیت کی میں جب مروں تو مجھے اسی زمین پر دفن کیا جائے 1942 میں جب وہ وفات پائے تو ان کو دکن سے جہلم لایا گیا اور یہاں دفن کیا گیا یہ قبرستان کی زمین دنیا میں انکی ملکیت تھی اور آخرت میں بخشش کا وسیلہ بنے گی ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں
اور یہ ہی اصل حسن ہوتا ہے کسی بھی ملک کا جو مرنے کے بعد بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہوتے ہیں اللہ تعالی ٹنڈل رام پرشاد کو جنت عطا فرمائے آمین
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ بات تو طے ہے اس وقت پاکستان نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے کثیر تعداد پاکستانیوں کی چاہتی ہے کہ وہ احتساب کے کھوکلے نعروں کو حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے دیکھے اور جنہوں نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے ان سب کو سزائیں ہو لیکن جب انصاف نہیں ہو گا تو سوال ہو گا
سوال یہ ہے کہ حکومت آخر چاہتی کیا ہے ؟ اگر آپ کے ہاتھوں میں وہ طاقت نہیں تو اپنے سچ بولنے کی روایت کو برقرار رکھیں ۔ عوام کو بتائیں کہ وہ کون سے ایلیمنٹ ہیں جنکی وجہ سے احتساب کا عمل رکا ہوا ہے ؟ آپ عوام کو بتائیں کہ عدالتیں آپکا ساتھ نہیں دے پا رہی یا اسٹبلیشمنٹ پر دباو ہے
آخر کون سے ملک میں چور یوں کھلے عام ریاست کو للکارتے ہیں قانون کا مذاق بناتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کے دعوے کرنے کی بجائے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرے ۔ یہ ملک فٹ بال نہیں ہے کہ جس کا جب دل چاہے اس سے کھیلنا شروع کر دے ۔ ہمیں بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی محاذوں کا سامنا ہے
قرین قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک ملک میں ذرائع ابلاغ کا سسٹم گِدھوں کے پاس تھا ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس ملک کا کنٹرول عقاب کے پاس تھا لیکن وہ خود اونچی اڑانیں بھر رہا تھا اس لیے اسے ذرائع ابلاغ کو ٹھیک کرنے کا کبھی خیال نہیں آرہا تھا حالانکہ وہ گِدھ عقاب کو پہلے دن 👇
سے ٹارگٹ کر رہے تھے عقاب حق پر تھا اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتا تھا مگر اس عقاب کے ساتھی کوے راستے کی رکاوٹ تھے ۔ بہرحال ان گِدھوں کو چونکہ مردہ کھانے کا شوق تھا اس لیے وہ چاہتے تھے جو لاشیں پارسل ہو کر باہر چلی گئی ہیں انکو واپس انکے حوالے کیا جائے تاکہ ان کا پاپی پیٹ
بھر سکے ۔ وہ گِدھ اتنے خونخوار ہو گئے تھے انکے آگے زندہ ہاتھی جو انصاف کا نظام چلاتے تھے وہ بھی بے بس تھے اور تو اور ملک کے محافظ چیتے بھی ان کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے ۔ اب گِدھوں کی فرمائش ہے کہ ان کو بیرون ملک گئی لاشوں کا گوشت دیا جائے کیونکہ وہ لاشیں باہر بیٹھے بھیڑیوں کے
یہ ہی اسٹیفین تھا آج سے نو سال قبل عمران خان سے چبھتے ہوئے سوالات کر رہا تھا موضوع تھا نائن الیون کے بعد کا جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا ۔ اسٹیفن نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ سے فنڈ بھی لے لیتے ہیں اور اسکا کام بھی نہیں کرتے حقانی نیٹورک پر سوال اٹھایا
طالبانوں پر سوال کیے ۔ وہی انداز تھا اسٹیفن کا جو کل اسحاق ڈار کے ساتھ تھا ۔ کپتان نے اس کو دو باتیں کی جس کو وقت نے درست ثابت کر دیا ۔ کپتان نے کہا دیکھو اسٹیفن جب کوئی تمھارے گھر زبردستی داخل ہو جائے تو تم کیا کرو گے ؟ یا لڑو گے یا پھر ہتھیار پھینک دو گے ۔ امریکہ کو سمجھنا ہوگا
کہ افغانستان لڑائی کر کے نہیں جیتا جا سکتا ۔ ساری دنیا میں سب سے قیمتی علاقہ ہے افغانستان بھی اور ہمارے شمالی علاقہ جات بھی وہاں ملینز فیملیز رہتی ہیں اور وہ سب کے سب آرمڈ ہوتے ہیں ان کو لڑائی سے ڈر نہیں لگتا روس کا حال سامنے رکھو اور رہی بات پاکستان کی تو میں کچھ نہیں ہوں
شاید آپ کو یاد ہو نون لیگ کے دور میں سوشل میڈیا خصوصاً یو ٹیوب بند ہوئی تھی کچھ عرصہ کے لیے ۔ لوگوں نے بڑی واہ واہ کی تھی میں نے بھی چوئی نثار کو داد دی تھی کہ اس نے اچھا کام کیا لیکن ☝
لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے
ن لیک اور اخلاقیات ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے میں نے تحقیق شروع کی ۔ میں نے پراکسیز کے زریعے یو ٹیوب کو چالو کیا اور pakistan politician scandal کو سرچ کرنا شروع کر دیا ۔ اور میرا اندیشہ درست ثابت ہوا کیونکہ اس وقت یو ٹیوب پر آل شریف اور آل زرداری سمیت ہر اس سیاستدان 👇
کی اصل ویڈیوز غائب تھی اکا دکا ویڈیوز سرچ ہو رہی تھی ۔ شاید آپکو یادہو ان دنوں میں سوشل میڈیا پر موجود ہر دوسرا فرد وہ ویڈیوز شئیر کیا کرتا تھا بلاول کی پارٹی کی ویڈیو آصفہ کی ویڈیو مریم نواز شریف فضلوطیے کی کہانیاں لیکن جب یوٹیوب کو بند کیا گیا تو وہ کوئی توہین رسالت کی وجہ سے
چونکہ پاکستان اس وقت ابھر رہا ہے معاشی طور پر اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دی جائے ان لوگوں کے خلاف جو پاکستان کے خیر خواہ نہیں جن میں صف اول اپوزیشن رہنما ہیں ۔ سب سے پہلے جو کام ہونا چاہیے وہ ہے قانون کی عملداری 👇
اسکے بعد لوگوں میں شعور پیدا کرنا ۔ اور انہیں بتانا کہ آپ آزاد شہری ضرور ہیں مگر کرونا وبائی آفت ہے اس لیے آپ خود ہی اپنی زندگی پر نظرثانی کر لیں ۔ بجائے اسکے آپ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر اپوزیشن کو ٹارگٹ کریں آپ سیدھا عوام سے رابطہ کریں ۔ پاکستان کی نوے فیصد عوام جانتی ہے 👇
کون درست ہے اور کون غلط ۔ اس لیے اپنی توانائی عوام کی خدمت میں لگائیں نہ کہ چوروں اور قانون شکن لوگوں کے پیچھے ۔ میں اس سے قبل بھی @ImranKhanPTI کو لکھ چکا ہوں کہ ترجمانوں کی سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے یہ کام آپ کا ووٹر بخوبی سرانجام دے دیتا ہے سوشل میڈیا پر آپکا ہولڈ ہے 👇
سرمئی شام میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کیلیفورنیا کے ساحل پر موجود تھی یہ ایک کالج گروپ تھا اور چھٹیوں پر کیلیفورنیا آیا ہوا تھا ۔ خوب ہلہ گلہ ہو رہا تھا وہ پنک اسکارف لانگ شرٹ اور جینز میں سب سے الگ دکھائی دے رہی تھی ۔ وہ ایک سال پہلے امریکہ آئی تھی
اس نے امتحانات میں ٹاپ کیا تھا جس پر حکومت نے اس کو وظیفہ دیا تھا ۔ حکومت کی اس مہربانی پر آج وہ امریکہ میں تھی اور باقی کی پڑھائی یہاں کر رہی تھی ۔ وہ آئی ٹی میں ماسٹر کر رہی تھی شکاگو کی ایک اچھی یونیورسٹی سے ۔ وہ ایک عام لڑکی تھی ۔ اسکے والد ایک تاجر تھے دو بھائی تھے
جو باپ کے کاروبار میں اسکا ہاتھ بٹاتے تھے اور اسکی ماں ایک عام گھریلو عورت تھی ۔ وہ چھبیس سال کی ہو چکی تھی آج اسکی سالگرہ بھی تھی اسکی دوستوں نے اسکو پارٹی دی تھی اسی سلسلے میں وہ آج کیلیفورنیا میں موجود تھے ۔ اس گروپ میں لڑکے بھی تھے انہی میں ایک شہروز نامی لڑکا بھی تھا