شب برات کے متوالوں سوشل میڈیا پر معافیاں مانگنے والوں کے نام معروف ڈراما نگار نورالہدی شاہ کی پر اثر تحریر
پچھلی رات معافیوں کی رات کے طور پر منائی گئی سب نے سب سے کھڑے کھڑے معافی مانگی اور صبح صبح ہوتے ہلکے پھلکے ہو کر سو گئے سوشل میڈیا نے اسے اور بھی آسان کر دیا ہے خدا کرے روز
ِ محشر بھی وائی فائی کام کرتا ہو اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے یوں ہی رابطے میں ہوں اتنی آسانی سے حقوق العباد کی اگر معافیاں روزِ محشر بھی ہو گئیں تو یقیناً حساب مختصر ہو جائے گا اور جلد از جلد ہم بہشت کے ائرکنڈیشنڈ ہال میں پہنچ چکے ہوں گے
معافیوں کی اُس گزر چکی رات میں
حیدرآباد سے کراچی کا سفر کر رہی تھی۔ اسی سفر کے دوران سوشل میڈیا پر معافیوں کا لین دین پڑھتے ہوئے مجھے ایک ذاتی تجربہ یاد آ گیا تقریباً چھ سال پہلے دبئی کے ہسپتال میں میری نواسی وقت سے بہت پہلے ساتویں مہینے کی ابتدا میں ہی پیدا ہو گئی میرے گھر کا وہ پہلا بچہ تھی شادی کے چار سال
بعد میری بیٹی کے ہاں بچہ ہوا تھا مگر وہ بھی ان حالات میں کہ لگتا تھا کہ مکمل بنی بھی نہیں ہے۔ بالوں بھرا ننھا سا بندر کا بچہ جس کا پورا ہاتھ میری انگلی کی ایک پور پر آتا تھا زندہ رہے گی یا نہیں زندہ رہے گی تو نارمل ہوگی یا نہیں ان سوالوں کا جواب ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں تھا سوائے
اس جواب کے کہ سب اللہ کے اختیار میں ہے ہر روز ڈاکٹرز بتاتے کہ بس ختم ہوا چاہتی ہے فوراً پہنچو بھاگے بھاگے پہنچتے پھر کچھ سانسیں لینا شروع کرتی تو ایک امید کے ساتھ گھر لوٹتے مگر اگلے دن امید پھر دم توڑ دیتی کبھی بلڈپریشر ہائی اور کبھی لو ہائی بھی اتنا کہ ہاتھوں پیروں کی انگلیاں
نیلی پڑ جاتیں پوچھنے پر بتایا جاتا کہ اگر بلڈ سرکیولیشن نارمل ہوگئی تو یہ ٹھیک ہو جائیں گی ورنہ جسم کا ناکارہ حصّہ بن جائیں گی اسی طرح کبھی شوگر لیول ہائی اور کبھی لو ہو جاتا وینٹ پر بے دم پڑی بچی نے ہماری سانسیں پھلا دیں کبھی دماغ کا ٹیسٹ بتاتا کہ دماغی طور پر نارمل نہ ہوگی
کبھی دل میں سوراخ ملتا کبھی آنکھوں کا معاملہ سامنے آ جاتا اوپر سے خرچہ اتنا کہ تین لاکھ درہم پندرہ دن کا بل بن گیا میرا حال یہ تھا کہ میرے سامنے میری اپنی بیٹی کے بھی آنسو تھے اور اس کے بچے کی ناممکن زندگی بھی تھک کر چوُر ہو گئی ایک بار تو ڈاکٹر کو بھی کہہ دیا کہ اس کو بچانے کی
کوشش نہ کریں بچ بھی گئی تو پتہ نہیں کس حال میں ہوگی ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کون ہوتی ہیں زندگی چھیننے کا فیصلہ کرنے والی انہی حالات میں ایک دن نماز میں کھڑے ہوئے میں رو دی اللہ کو بے بسی سے مخاطب کرکے کہا کہ یااللہ مجھ سے ایسا کیا گناہ ہو گیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے بالکل ہی اگلے لمحے
چھپاک سے ایک منظر کی تصویر اور اس میں ایک چہرہ صرف ایک سیکنڈ کے لیے میری نگاہ یا ذہن سے گزر گیا اور حیرت کی بات کہ اگلے سیکنڈ میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کیا دیکھا تھا پوری نماز اسی کشمکش میں گزری پر یاد ہی نہ آیا اگلے دو دن دبئی کی سڑکوں پر ہسپتال اور گھر کے بیچ آتے جاتے
رات کو بستر میں میں اسی کشمکش سے گزرتی رہی پر یاد ہی نہ آیا کہ دیکھا کیا تھا میں نے اپنے جتنے بھی گناہوں اور خطاؤں کی فہرست میرے ذہن میں تھی انہیں گنتی رہی مگر کسی سے اس منظر کا نشان نہیں مل رہا تھا دو دن بعد اچانک یاد آ گیا کہ وہ کیا منظر اور چہرہ تھا
پندرہ برس پرانا وہ واقعہ
مجھے کبھی بھی یاد نہ آیا تھا میری ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار لڑکی شوہر اور حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی دو بچوں کو ساتھ لیے چھوٹے سے ٹاؤن سے حیدرآباد شفٹ ہوئی تھی کہ اس کا تو مستقبل تاریک تھا ہی پر کسی طرح بچوں کا مستقبل سنور جائے اس کے بیٹے بیٹی کو میں نے حیدرآباد کے بہت ہی اچھے
اسکولوں میں داخل کروایا اسے بچوں سمیت تب تک اپنے گھر میں رکھا جب تک ان کی رہائش کابندوبست نہ ہوا اسی دوران اس کی بیٹی کا نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان بھی ہوا اور وہ بچی اے گریڈ مارکس لے کر پاس ہو گئی رزلٹ کے اگلے دن وہ بچی روتی ہوئی اسکول سے لوٹی پتہ چلا کہ کلاس ٹیچر مس حبیب النسا
نے اسے پوری کلاس کے سامنے کہا ہے کہ تم تو اتنے نمبر لینے والی نہیں ہو کس سے سفارش کروائی ہے بھری کلاس میں اس بے عزتی پر وہ بچی بری طرح رو رہی تھی بچی کی حالت دیکھ کر ماں بھی رو رہی تھی اوپر سے بچی نے کہہ دیا کہ اب وہ اس اسکول نہیں جائے گی میں ہمیشہ سے مظلوم کے حق کے لیے لڑنے
مرنے پر تُل جانے والی رہی ہوں اور اس طرح کے جھگڑوں میں خدائی فوجدار کی طرح کوُد پڑنے کی عادت رہی ہے میری فوراً گاڑی نکالی اور پہنچ گئی اسکول حیدرآباد کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے تھے میں سیدھی پرنسپل کے آفس میں گئی اور ہنگامہ مچا دیا کہ ایک بچی اپنی محنت سے پڑھی ہے ایک چھوٹے ٹاؤن سے
مستقبل بنانے آئی ہے اور حالات کی وجہ سے پہلے سے ہی سہمی ہوئی ہے اس کی اس طرح ٹیچر حبیب النسا نے پوری کلاس کے سامنے انسلٹ کی ہے میرے ہنگامے پر مس حبیب النسا کو حاضر کیا گیا سادہ سی خاتون مگر چہرے پر ٹھہراؤ کہنے لگیں ہاں میں نے کہا ہے کیونکہ مجھے وہ بچی اتنی ہوشیار نہیں لگتی جتنے
نمبر اس نے لیے ہیں یقیناً یا سفارش کی ہے یا کاپی کی ہے
مجھے پتہ تھا کہ وہ بچی بچاری سفارش کروانے کی طاقت نہیں رکھتی نہ ہی اپنی سہمی ہوئی شخصیت کی وجہ سے کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے رٹے مار کر اس نے امتحان دیا تھا اور اتفاق سے وہی سوال آگئے جن کے جواب اسے یاد تھےمیں مس حبیب النسا
پر برس پڑی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے آپ صرف چھوٹے شہر کی بچی دیکھ کر اسے کمتر قرار دے رہی ہیں اور اس کا مستقبل برباد کر رہی ہیں میری آواز یوں بھی بھاری ہے اس میں مزید گرج آ گئی مس حبیب النسا اسکول کی باقی ٹیچرز کی بھی ناپسندیدہ تھیں سو ان کی کھنچائی کا تماشہ دیکھنے پرنسپل کے آفس کے
باہر ٹیچرز جمع ہوگئیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی خوش تھیں کہ چلو کوئی تو ہے مس حبیب النسا کو سنانے والا
قصہ مختصر کہ پرنسپل نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہے اور میرے ساتھ میرے گھر آ کر اس بچی کو سوری کہا راستے بھر وہ بھی مس حبیب النسا سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آئیں یوں یہ
معاملہ تمام ہوایہ نیتاً میری ایک نیکی تھی ایک مظلوم ماں اور اس کی بچی کی مدد اس کے بعد کے برسوں میں اُس فیملی کے اور بھی کئی مسائل حل کرتے ہوئے اور دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ واقعہ میرے ذہن سے بالکل ہی اتر گیا یہاں تک کہ بعد میں جب میں خود زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزری اور اسی
فیملی نے میرے ساتھ بُرا رویّہ رکھا تو بھی وہ بات ماضی میں اُن پر اپنے احسان کے طور پر بھی یاد نہ آئی جس طرح انسان اپنے ساتھ برا کرنے والوں پر کیے گئے احسانات فطری طور پر یاد کرتا ہے دبئی میں جب سسک کر نماز میں میں نے اللہ کو کہا کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے جس کی سزا میں مجھ
پر اولاد کی تکلیف آ گئی ہے جواب میں وہ حیات اسکول کی پرنسپل مس بِلو کے آفس کے اس منظر کی ایک سیکنڈ کی تصویری جھلک اور مس حبیب النسا کا چہرہ تھامیں کراچی آئی میری ایک کزن مس حبیب النسا کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھاتی رہی تھیں اور وہ بھی مس حبیب النسا سے ناراض رہا کرتی تھیں اور ان کی
بیٹی سلویٰ مس حبیب النسا سے ان کے گھر پر جا کر قرآن بھی پڑھی تھی اور اسکول میں بھی پڑھی تھی میں نے سلویٰ سے مس حبیب النسا کا نمبر مانگا اور اسے پوری بات بتائی جواب میں اس نے کہا کہ آپ کو صحیح جواب ملا ہے میں نے بچپن مس حبیب النسا کے پاس قرآن پڑھتے ہوئے گزارا ہے وہ حافظِ قران
ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث سنَد کے ساتھ پڑھی ہوئی ہیں اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے اپنے ضعیف والدین کی خدمت میں جوانی گزار دی مگر شادی نہ کی کہ والدین کو ان کی ضرورت تھی اپنے آخری دنوں میں ان کے والد بہت ہی ضعیف اور مشکل ہو گئے تھے مگر وہ کبھی اس مشکل ڈیوٹی میں اُف تک نہ کہتی
تھیں بلکہ والد کے پیچھے پیچھے دوڑی دوڑی پھرتی تھیں ان کے غسل خانے کے کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں مگر وہ لوگوں کو اس لیے پسند نہیں کہ منہ پر صاف صاف اور سچ بولتی ہیں سلویٰ سے نمبر لے کر میں نے مس حبیب النسا کو فون کیا میرا نام سن کر وہ خوش ہو گئیں میں نے کہا کہ میں ایک
ضروری کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں فوراً کہا کہ آ جائیے اگلے دن صبح ہوتے ہی میں کراچی سے حیدرآباد سیدھی ان کے گھر ان کے آگے ایک ہی صوفہ پر بیٹھی تھی وہ کچھ بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں اس بات پر خوش تھیں کہ ایک مشہور رائٹر خاص طور پر ان سے ملنے آئی ہے
خوش ہو کر کہنے لگیں
کہ میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور حیات اسکول چھوڑ چکی ہوں اور ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل ہوں آپ کا فون آیا تو میں نے اپنی ٹیچرز کو بتایا کہ نورالہدیٰ شاہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں میری ٹیچرز نے کہا کہ ان کا بیوہ عورت کے حقوق سے متعلق ایک ڈرامہ چل رہا ہے وہ اس موضوع پر آپ سے شرعی مشورہ
کرنا چاہتی ہوں گی میں نے کہا آپ کو یاد ہے میں حیات اسکول میں آپ کی شکایت لے کر آئی تھی انہوں نے لمحہ بھر سوچا پھر انکار میں سر ہلا دیا کہ مجھے یاد نہیں میں نے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل کے آفس میں میں بہت اونچی آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ آپ سے لڑی تھی آپ کو یاد ہے
ذرا سوچا پھر انکار میں سر ہلا دیا میں نے کہا کہ میں نے تقریباً آپ کی انسلٹ کی تھی آپ کو یاد نہیں کہنے لگیں کہ مجھے ایسا کچھ بھی یاد نہیں پڑتا قریب ہی بیٹھے ہوئے میں نے جھک کر ان کے پیر چھو لیے اور ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں نے ایسا کیا تھا اور میں آپ سے اپنے اس عمل
کی معافی مانگنے آئی ہوں مس حبیب النسا نے ایک دم سے معافی کے لیے جڑے میرے ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا یہ نہیں پوچھا کہ آج اتنے برسوں بعد کیسے یہ خیال آیا اور کس مجبوری نے تمہیں جھکایا ہے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں نے آپ کو دل سے معاف کیا اللہ میری معافی آپ کے لیے قبول
فرمائے اور آپ جس بھی مشکل میں ہیں اسے آسان کرے اور آپ پر آئی ہوئی آزمائش کو معاف کرے اس کے بعد انہوں نے بات بدل دی بڑی دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں بڑے شوق سے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں دعاؤں کے ساتھ مجھے رخصت کیا ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بات کا رُخ اس طرف آنے ہی
نہیں دیا کہ میں اپنی مجبوری کی اصل کہانی انہیں سناتی
چند دنوں بعد میں واپس دبئی لوٹ گئی جہاں اینکیوبیٹر میں ایک ننھی سی جان میں ہماری جان پھنسی ہوئی تھی میری وہ نواسی اس سال ستمبر میں چھ سال کی ہو جائے گی ماشالله بہت ہی شرارتی ہے بہت ہی ذہین اور باتونی گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی
آنکھوں کے ساتھ بالکل ہی گڑیا سی لگتی ہے اللہ نے اسے ہر عیب سے بچا لیا بس ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور نیلی پڑنے کے بعد دوبارہ نارمل حالت میں نہیں آئی اور انگلی سے جھڑ گئی اس ایک پور کی کمی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا معاملہ کیا ہے اور کس کے ہاتھ میں ہے
مس حبیب النسا آج بھی حیات ہیں مگر یہ تجربہ مجھے سکھا گیا کہ معافی دراصل کیا چیز ہوتی ہے اور نیکی کرنے کا تکبر انسان کو کس طرح سزا کا مستحق بناتا ہے اور یہ کہ نیکی خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ نیکی ہے بھی کہ نہیں اسی لیے یہ دریا میں ڈالنے والی چیز ہے اور یہ جانا کہ ہم محض اس
خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم رسمی معافی تلافی کرتے ہوئے پچھلی گلی سے بہشت کی طرف نکل جائیں گے معافی آپ کی انا کے ٹکڑے ٹکڑے مانگتی ہے جو رب کو نہیں چاہیں بلکہ اس انسان کے پیروں میں جا کر رکھنے ہوتے ہیں جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی ہوتی ہے

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with 醫生啊

醫生啊 Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @doc_farqaleet

2 Apr
سمادھی سر گنگا رام
سر گنگارام نے 10 جولائ 1927 کو لندن میں وفات پائی. بی پی ایل بیدی گنگارام کی آخری رسومات کے متعلق لکھتے ہیں ان کے انتقال کی خبر لاہور بذریعہ تار پہنچی 12جولائی 1927 کو بروز جمعہ گنگانواس لاہور میں ان کی کریا کی رسم ادا کی گئی. اس روز غرباء میں کپڑے اور نقدی
تقسیم کی گئی لالہ سیوک رام نے والد کی راکھ کو گنگا میں بہانے کی رسومات ادا کئیں جس میں دس ہزار افراد نے شرکت کی تقریب میں یوں نعرے لگائے گے دھان ویر کی جے,غریبوں کے ولی کی جے,ودھواؤں کے سہارے کی جے اور پنجابی حاتم طائی کی جے
15 اگست کو گنگارام کی وصیت کے مطابق ان کی بچی راکھ
لاہور لائی گئی جہاں بیوہ گھر اور اپاہج آشرم کے قریب واقع مقبرہ میں اسے رکھ دیا گیا گنگاپور کے لوگ درشن کے لیے آئے آخری تقریب میں ٹاون ہال گارڈن بھرا ہوا تھا ڈولا کا جلوس ہزاروں افراد پر مشتمل تھا لوگوں نے دکانیں بند رکھیں جلوس کے شرکاء میں دودھ تقسیم کیا گیا گھروں کی بالکونیوں سے
Read 17 tweets
2 Apr
طائف سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک وضعدار مشرک مطعم ابنِ عدی اور اس کے بیٹوں کی حفاظت میں مکے میں داخل ہوئے مطعم تو مسلمان نہ ہوا مگر بعد میں اس کے بیٹے مسلمان ہو گئے مشرک ہونے کے باوجودِ رسول اللہ صلوات سلام کے دل میں مطعم ابنِ عدی کے اس احسان کا بہت احترام تھا
جب غزوہِ بدر میں مشرکینِ مکہ کے ستر سرخیل قیدی بنے جن میں حضرتِ عباس بن عبد المطلب اور عقیل بن ابوطالب اور رسول اللہ صلوات و سلام کے داماد ابو العاص بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج اگر مطعم ابنِ عدی زندہ ہوتا تو میں اس کی سفارش پر ان تمام بدبودار لوگوں کو رہا
کر دیتا حبشہ کے بادشاہ نے جب مسلمانوں کو پناہ دی تو رسول اللہ صلوات و سلام نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ نجاشی کے دست و بازو بن کر اس کے دشمنوں کے خلاف اس کی مدد کریں دوسری وصیت یہ فرمائی کہ کبھی بھی حبشہ پر چڑھائی مت کرنا ہم ان کے احسان مند ہیں مسلمان فرانس چین اور افریقہ
Read 6 tweets
2 Apr
دعائے کورونا
اگر آپ نے کسی کو کورونا وائرس سے بچنے کی دعا بتائی ہے اور اس کو پڑھنے کے باوجود اس کو کورونا ہو گیا ہے تو اس کو بتا دیجئے کہ ترمذی کے راوی نے جھوٹ بولا ہے رسول اللہ صلوات و سلام نے نہیں
الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ، و فضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا
اس قسم کی فوری اثر دکھانے کے دعوے کے ساتھ پیش کی گئ دعاؤں کے بےاثر نکلنے کے نتیجے میں رسول اللہ صلوات و سلام کی رسالت پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں جس طرح ہم مرزے کی پیشگوئیوں کے جھوٹ ثابت ہونے پر اسکے ماننے والوں کے منہ میں انگلیاں دیتے ہیں
بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء و ھو السمیع البصیر
اگر کوئی یہ دعا پڑھ کر زہر بھی کھا لے تو اثر نہیں کرتا اس کے ساتھ ایک جرنیل کا قصہ بھی نتھی کیا جاتا ہے کہ جس کو دشمن نے زہر دیا اور بس پسینہ نکل کر رہ گیا نہ عمر فاروق کو کچھ ہوا نہ خالد بن ولید کو
Read 6 tweets
2 Apr
بدلے بدلے مرے غَم خوار نظر آتے ہیں
مرحلے عشق کے دُشوار نظر آتے ہیں

کشتی غَیرت‌ِ احساس سلامت یا رب
آج طُوفان کے آثار نظر آتے ہیں

انقلاب آیا نہ جانے یہ چمن میں کیسا
غُنچہ و گُل مجھے تلوار نظر آتے ہیں

جِن کی آنکھوں سے چھلکتا تھا کبھی رنگ خلوص
اِن دنوں مائلِ تکرار نظر آتے ہیں
جو سُنا کَرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شَوق
اَب مری شَکل سے بیزار نَظَر آتے ہیں

اُن کے آگے جو جُھکی رہتی ہیں نظریں اپنی
اس لیے ہم ہی خطا وار نظر آتے ہیں

دُشمن خُوئے وفا رسمِ محبَّت کے حرِیف
وہی کیا اور بھی دو چار نَظَر آتے ہیں
جنسِ نایابِ محبَّت کی خُدا خیر کرے
بُوالہوس اُس کے خَرِیدار نظر آتے ہیں

وقت کے پُوجنے والے ہیں پُجاری اُن کے
کوئی مطلب ہو تو غَم خوار نظر آتے ہیں

جائزہ دل کا اگر لو تو وفا سے خالی
شکل دیکھو تو نمک خوار نظر آتے ہیں
Read 4 tweets
26 Mar
اداکار محمد علی نے مصیبت زدہ شخص کو پچاس ہزار روپے قرض تو دے دیا
لیکن پہلے اس سے تین روپے مانگ لئے
کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی بیٹھے گفتگو کر رہے تھےملازم نے علی بھائی سے آ کر کہا کہ باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے یہ اس کا چوتھا چکر ہے
علی بھائی نے اسے بلوا لیا کاروباری سا آدمی تھا لباس صاف ستھرا مگر چہرے پر پریشانی سے جھلک رہی تھی شیو بڑھی ہوئی سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھہ گیا تو علی بھائی نے کہا جی فرمایئے فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی کچھہ عرض کرنا چاہتا ہوں اس آدمی
نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھہ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا علی بھائی نے اس سے کہا آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیے
اس آدمی نے کہا چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب جی لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے
Read 12 tweets
21 Mar
قیامت کے فیصلے دنیا میں مت کریں
اللہ تعالیٰ سے ڈرا ڈرا کر اس کے ساتھ تعلق کو نفرت کی حد تک لے جانا عذاب قبر کی جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر مسلمانوں کی نیندیں حرام کر دینا اور ذرا ذرا سی خطا پر کروڑوں سال کی سزائیں سنانے والوں کا علاج یہ بابا ہی ہے جس نے مرنے پر ایسے خوشی کا اظہار
کیا ہے جیسے لوگ بچے کی پیدائش پر کرتے ہیں ہم اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں پھر جب اس کی طرف جاتے ہیں تو خوشی منانے میں کیا حرج ہےانا للہ وانا الیہ کا پیغام کیا ہے اللہ نے کیوں فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں یہ مت کہیں کہ یہ
سنت نہیں یہ واقعی سنت نہیں نہ رسول صلوات و سلام نے کیا اور نہ اس کی تلقین فرمائی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا وہ تصور بھی تو نہیں دیا جو مولویوں نے دیا ہے گویا اللہ پاک تنور گرم کیئے بیٹھا ہے اور ذرا ذرا سی خطا پر پکڑ کر تندور میں جھونک رہا ہے
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!