سینگ اور سرگم

عجیب وغریب بچے پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر ریاست کے کسی دور دراز مقام پر بغیر کانوں کے ایک بچے کی پیدائش پر بادشاہ کا پریشان ہونا نہ قابلِ فہم بات تھی۔

اگلے ہی روز وزیر نے ایک اور ایسے ہی بغیر کانوں کے بچے کی پیدائش کی اطلاع دی تو بادشاہ ٹھٹھکا۔
1
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
بادشاہ کو کسی غریب کے گھر ایسے بچے کی پیدائش سے کیا لینا مگر پریشانی یہ تھی کہ مدتوں اور بہت سی دعاوں منتوں کے بعد ملکہ کی گود ہری ہوئی تھی اور بادشاہ کو ولی عہد ملنے والا تھا۔ اگر وہ بھی ایسا ہی پیدا ہوا تو۔۔۔ پھر؟ بادشاہ کو سوچ کر جھرجھری آگئی۔
2
پھر ایسی خبریں روز کا معمول بننا شروع ہوگئی تو بادشا ہ نے اجلاس طلب کر لیا۔ کوئی وزیر مشیر پیر فقیر ان واقعات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ شاہی طبیب نے ملکہ کے لئے کچھ ادویات اور پرہیز بتائے مگر وجہ بتانے سے وہ بھی قاصر رہا۔ بادشاہ کا آرام و سکون غارت ہو گیا۔
3
کیا اس سب کا تعلق نور بانو کے واقعہ سے تعلق ہے؟ بادشاہ کے اندر ہاں اور نہیں کی ایک نئی جنگ چھڑ گئی ۔

نور بانو ایک خانہ بدوش مغنیہ تھی۔ رب نے کمال کی آواز و سوز عطا کیا تھا۔لوگ اس کو سننے کے لئے دیوانے ہوجاتے۔ یہ بارہ برس پہلے کی بات ہے۔
4
بادشاہ کے کانوں میں بھی اس کی شہرت کے چرچوں کی خبر پڑی اور ایک روز حکم دیا کہ اس مغنیہ کو شاہی دربار میں جگہ دی جائے۔ لیکن نور بانو خانہ بدوش تھی ایک مقام پر ایک شخص کے لئے گانا اسکی فطرت میں ہی نہیں تھا۔اس نے بادشاہ کا حکم رد کر دیا۔
5
ایک روز شہر سے باہر دورہ کرنے پر لوگوں کا جم ِ غفیر دیکھ کر بادشاہ خوش ہو کہ اس کے استقبال کے عوام کتنی جوش و خروش سے موجود ہے۔ مگر وزیر کے انکشاف پر کہ یہ نور بانو کو سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں بادشاہ کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا۔ وہ عوام کا ہردلعزیز بادشاہ ہر گز نہ تھا
6
تاہم عوام کے پاس بھی اس سے شدید نفرت کرنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں تھی۔ مگر بادشاہ ، بادشاہ ہی ہوتا ہے اور مغنیہ ، مغنیہ ہی۔

حکم دیا اس کو دربار بلاو۔ اب حکم عدولی کرے تو گردن اتار دو۔
پھر حکم عدولی ہوئی۔
اگلے روز اسکی گردن اتار دی گئی

وہ وعوام کی مقبول ترین مغنیہ تھی
7
اس واقعہ کی خبر آناً فاناً سارے ملک میں پھیل گئی۔اس واقعہ نے ملک کے چاروں کونوں میں ایک آگ لگا دی۔ اس کے پرستاروں نے جلسے جلوس نکال مارے۔ اسکا گانا گاتے سینہ کوبی کرتے بادشاہ کے خلاف نعرے لگاتے

بادشاہ نے شاہی افواج کو ان باغیوں کی سرکوبی کا حکم دیا۔ کہیں لوگ امن سے بیٹھ گئے
8
کہیں جھٹرپیں ہوئی اور جانی نقصان بھی ہوا۔ مگر بالاآخر شورش پر قابو پا لیا گیا۔ تاہم عوام کے دلوں سے نور بانو کے نغمے نہ مٹائے جا سکے ۔ اسکا گانا اجتجاج اور بغاوت کی علامت بن گیا۔

فنکار مرنے کے بعد اپنی پوری قوت سے دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔ بادشاہ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا.
9
درباری دانشوروں اور مذہبی رہنماوں کے زریعے موسیقی کو لہو و لعب قرار دیا گیا۔ تقریریں اور واعظ کروائے گے اور بالاآخر پورے ملک میں موسیقی پر پابندی لگا دی گی اور موسیقاروں کو ملک بدر کا حکم دے دیا گیا۔ساز سازندے سب ختم کر دئے گئے۔ موسیقی ناچنے گانے پر پابندی لگا دی گئی۔
10
سارے درباری قوالوں، رقاصاوں اور گوئیوں کی چھٹی ہو گئی۔ساز بجانےاور بنانے پر پابندی اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں رکھ دی گئیں

عوام کی نگرانی کے لئے خصوصی خفیہ پولیس کے دستے بنائے گئے۔لوگوں کو سخت سزائیں دی گئی۔ زبانیں کاٹ دی جاتیں، کھولتے تیل میں ڈال دیا جاتا۔اعضا کاٹ دئے جاتے
11
اس سب کے باوجود بھی چوری چھپے کوئی نہ من چلا حقے کی نے میں سوراخ کر بانسری بجاتے پکٹرا جاتا۔ کوئی خشک گدو سے ساز بنا کر آواز نکالتا دھرلیا جاتا۔ بچوں کو چھوڑ دیا جاتا جو گندم کی بالی سے پیپی بنا کر گلی میں گھومتے پکڑے جاتے۔
12
موسیقی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی تو درباریوں نے شعر و شاعری پر پابندی کی تجویز دے ڈالی کہ شعر ہوگا تو گایا بھی جائے گا۔ بس پھر کیا تھا ادب و ادیب اور شاعر شاعری بھی ختم کر دی گئی۔

کچھ مار دئے گئے باقی ملک بدر کر دیئے گے۔ کتب خانے جلا دئیے گئے۔
13
معاشرے کی روح مرنے لگی ایک عجیب اداسی چھا گئی۔ لوگ بات بات پر قتل و غارت پر اتر آتے ۔

بادشاہ کو خود کو اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوجی۔ نئے لشکر بنائے گئے اور ارد گرد کی چھوٹی ریاستوں پر حملے کرنے شروع کر دئیے۔ ریاست بھی پھیلنا شروع ہو گئی۔
14
لوگوں کے ہاتھ مال ِ غنیمت بھی آیا۔ کچھ عرصہ عیاشی میں گزرتا اور پھر نئی مہم پر روانہ ہو جاتے۔ مگر پھر یہ جیت کی خوشی بھی ماند پڑتی گئی کہ جیت کا جشن کیسے منائیں۔ بادشاہ اس سے بھی تنگ آگیا۔

پھر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ عوام نے نت نئے نشے شروع کر دئے ہیں۔
15
یہاں تک کہ خود لشکروں میں نشہ عام ہو چکا ہے۔ بادشاہ کو ریاست کی دفاع کی نئی فکر لاحق ہو گئی۔ ہر آنا والا دن کوئی ایک نئی بری خبر لاتا۔بادشاہ اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ منڈیر پر ایک پرندہ آ بیٹھا اور گانے لگا

بادشاہ پہلے ہی غم و فکر میں تھا پرندے کی آواز انتہائی ناگواز گزری۔
16
اگلے ہی روز اعلان کر دیا جو گانے والے پرندے مارے گا اس کو انعام ملے گا۔تھوڑے ہی عرصے میں صرف گدھیں اور چیلیں ہی بچھیں۔ مگر سکون پھر بھی نصیب نہ ہوا۔

ریاست میں اب عوام کے چہروں پر راتوں رات جنگلی جانوروں جیسے بال اگنے لگ گئے۔کسی کے سینگ نکل آتے۔
17
لوگوں کی شکلیں بد ہیت ہوتی جا رہی تھی۔ بادشاہ کو اس کی پروا نہیں تھی کہ غلامی اور بدصورتی ساتھ ساتھ ہی چلتی ہے ۔

ولی عہد کی پیدائش کے دن اب بہت قریب تھے کہ اب یہ بغیرکانوں والے بچوں کی پیدائش نے ایک نئی الجھن کھڑی کر دی جس کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔
18
بادشاہ نے سوچا کہ ان سب کا اگر نور بانو والے واقعہ سے کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن ملکہ کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کا انتظام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لہذا حکم ہوا گویئے اور سازندوں کو ڈھونڈا جائے۔ مگر اس سے پہلے کوئی انتظام ہوتا ملکہ نے ولی عہد کو جنم دے دیا۔
19
بادشاہ کے پیروں تلے زمین کسک گئی اور یہ دیکھ ہوش اڑ گئے کہ ولی عہد کے نہ صرف کان غائب تھے بلکہ وہ آنکھوں سے بھی اندھا تھا۔

ماخوذ

@threadreaderapp
please compile

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

27 Mar
اگر آپ ایک حساس دل و روح کے مالک ہیں تو یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی منشا یاد کا ایک شاہکار۔۔۔آپ کے لئے اختصار کے ساتھ۔

راستے بند ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ میلے پر لینے کیا آ یا جب اسکی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔
اس سے سوال پوچھوں تو وہ عجیب سا جواب دیتا ہے
1
"میں میلے میں نہیں آیا۔۔ میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے۔ اور میں اس میں کھو گیا ہوں واپسی کا راستہ ڈھونڈوں تو بھی نہیں ملتا"

مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔ ویسے بھی میں اس کی نگہداشت پرمعمور ہوں اس کی حفاظت میرا ذمہ ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں اس کی حفاظت پر کس نے معمور کیا ہے
2
بس مجھے اس کے ساتھ رہنا ہے اور بھٹکنے سے بچانا ہے۔

وہ انتہائی ندیدہ آدمی ہے۔کسی کھانے کی دکان پراس کے قدم زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑا رہے گا۔ صبح پوڑیوں والے کی کڑاہی کے سر پر کتنی دیر کھڑا جھلستا رہا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیب میں کچھ نہیں ہے
3
Read 16 tweets
24 Mar
شکوہ جواب ِ شکوہ

پنجابی زبان میں اپنی طرز کی ایک الگ چیز!

سید قاسم شاہ

#پنجابی_ماں_بولی
Read 4 tweets
20 Mar
سارنگی

میرے اندر ایک کھلبلی سی مچ گئی۔
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں لطیف جذبات سرد پڑ جاتے ہیں ۔ آدمی کے اندر کا بیل تھک کر تھان پر بیٹھا جگالی کر رہا ہوتا ہے۔ اسے صرف ٹھوکروں سے نہیں اٹھا یا جا سکتا ، تابڑ توڑ ڈنڈے برسانے پڑتے ہیں۔

یہی کچھ میرا حال ہے۔

1
اس کی موت کی خبر مجھ پر تابڑ توڑ ڈنڈوں کی طرح برس رہی تھی

سر پر رکھا دھرتی بوجھ اتار کر پیچھے دیکھو تو سوائے تیز مٹی کے جھکڑوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر اس میں بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جو ابھی دھندلائے نہیں۔کچھ کانوں میں رس گھولتی آوازیں ہیں انہیں میں ایک آواز اسکی ہے۔

2
میں شہر میں رہتا تھا زیادہ عرصہ وہیں پلا پڑھا۔ ہاں گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوں دو تین مہینے ماں کے پاس گزار آتا۔ایسی ہی گرمیاں تھیں جب گاوں میں ہمسائیوں میں شادی تھی۔ ساری رات گیت گائے جاتے۔ خوشی کے گیت ۔ گانے والی تھک جاتیں تو سب بے سرا ہو جاتا۔
3
Read 23 tweets
22 Feb
Inside the last matriarchy in Europe
وسعتِ قلب، توانا ہاتھ۔۔۔ یور پ کی آخری نسواں حکمرانی

انسانی تمدن اور تہذیب اپنے اندر اتنی متنوع ہے کہ خود انسانی عقل و مشاہدہ اسکا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

آئیے آپ کو ایک ایسے معاشرے اور تہذیب کا احوال بتاتے ہیں جسے یورپ کی
آخری نسواں حکمرانی Inside the last Matriarchy in Europe کہا جاتا ہے۔

بالٹک سمندر میں جزائر پر شتمل شمالی یورپ کا ایک ملک ایسٹونیہ کا ایک جزیرہ "کہنو" کہلاتا ہے۔ رقبہ تقریباً 16 مربع کلو میٹر اور آبادی 600 نفوس پر مشتعمل ہے۔ بیشتر نوجوان نسل شہروں کو ہجرت کر چکی ۔
اس جزیرے کے رہن سہن کی خاص با ت یہاں کی ادھیڑ عمر خواتین ہیں جو جزیرے پر عملاً اور کلّی حکمرانی کرتی ہیں۔

تمام مرد ماہی گیری سے وابستہ ہیں اور زیادہ تر سمندر میں ہوتے ہیں انکی غیر موجودگی میں جزیرے کا انتظام و نسق خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ کھیتی باڑی ہو کہ گلہ بانی،
Read 8 tweets
15 Feb
وہ چکلے پر بیٹھتی تھی وہ کیا اس ماں اور نانی بھی اسی پیشے سے متعلق رہیں۔ مردوں کے دل و جسم کے کھیل سے ہی روزی روٹی وابستہ تھی۔ پھر قدرت نے حسن بھی دل کھول کر دیا تھاسو ناز نخرہ تو پھر طبعیت کا جُز لازم ٹھہرا۔

مردوں کے دلوں کو کھیل بنا کر کھیلنے والی خود کسی کو دل دے بیٹھی
اور وہ بھی بھائی کے بچپن کے جگری دوست کو

وہ پہلوان تھا دن رات اکھاڑے میں کسرت کرنے والا خوبرو جوان، علاقے میں اس کی ڈھاک ایک رعب تھا وہ آج تک کشتی نہیں ہارا تھا۔دوست کو سگے بھائی سے عزیز رکھتا میری ماں کو اپنی ماں زیادہ عزت و احترام دیتا۔
کبھی گھر کی دہلیز پار کر کے اندر نہیں آیا۔

وہ اسے اپنے عشق کا اظہار برسوں پہلے کر چکی اور وہ بھی ایسا عزت والا تھا کہ صاف انکار کر دیا کہ دوست کی بہن ہو تو میری بھی بہن ٹھہری محبت کا سوچنا بھی نہیں۔ اتنا صاف کھرا جواب بھی د ل کی تسلی نہ کر سکا اور عشق کا بوٹا ہر گزرتے دن
Read 8 tweets
1 Feb
لاہور کا قلعہ نما ریلوے سٹیشن اور میاں سلطان ٹھیکیدار!

لاہور کا پُرشکوہ ریلوے سٹیشن جب تعمیر ہوا تو اپنی نظیر آپ تھا۔ اس کا ڈئیزائن ایک قرون وسطی کے قلعہ کی طرز پر رکھا گیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے فورا ً بعد ہی اس کی تعمیر شروع کر دی گئ تھی۔
مگر باقاعدہ سنگِ بنیا د 1859 میں رکھا گیا اور 1860 میں پہلی ریل گاڑی امرتسر کو جاری کی گئی تھی۔

مگر آج ریلوے سٹیشن کا تعارف مقصود ِقلم نہیں۔ بات اس شخص کی کرنی ہے
جس نے اس کی تعمیر کو ممکن بنایا:میاں محمد سلطان مختصر تعارف اس لیئے کروایا تاکہ ذہن میں رہے کہ اس شخصیت کی اہمیت ومقام کیا رہا ہوگا جس کے زمہ انگریز حکومت نے اتنے اہم منصوبہ کی تعمیر لگائی۔ اتنی قلیل مدت میں اتنی شاندار عمارت کی تعمیر بلا شبہ ایک کارنامہ ہائے دیدنی تھا۔
Read 12 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!