اسلام ایک ینوورسل﴿تمام عالم کا مذھب ھے اور اس مذھب کو اللہ نے ھم تک جس محترم ھستی کے توسط سے پھنچایا وہ ھمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ھیں، ھمارے ماں ، باپ اور ھم سب پر ان پر قربان، اسلام کا پھلے کلمے کا مفھوم بھی یہ ھے
کوئی نھیں معبود سواے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ کے رسول ھیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری بنی ھیں اور نبوت کا در ر بند ھوچکا ھے، جس طرح اسلام ینوورسل مذھب ھے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ینوورسل نبی ھیں۔
یہ باتیں ھر مسلمان جانتا ھے اور کسی کو اس سے انکار نھیں ھوسکتا۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اتنا بڑا ھے اور ھم اتنے اھم اور ینوورسل نبی کے پیروکار ھیں اور ان پر نازل قران اور سنتوں کی پیروی کرنے والے ھیں۔
اور ھمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے آنے
والے لوگوں کے نبی ھیں اور آج کرہ ارض پر 56 سے زیادہ مسلم ممالک ھیں جو مسلمان ھونے کے ناتے اللہ کی واحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبویت پر یقین کامل رکھتے ھیں۔
تو کیا وجہ ھے جو آے دن دنیا عالم میں رسول برحق کی شان گستاخی کے واقعات ھوتے ھیں۔ جس پر مسلم قوم سواے جلنے کڑنے کے سوا کچھ نھیں کرپاتی۔ کیا چند تنظیموں یا ملکوں میں احتجاج کرنا اس گھناونے جرم سدباب ھے۔
کیا ھم مسلم ممالک اتنے کمزور ھیں جو اتنی تعداد اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود اپنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
ناموس کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی کورٹ میں جاکر کوئی ایسی قانون سازی بھی نہ کرسکیں
تاکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی مذھب کے نبی کے خلاف کوئی مجرمانہ اقدام نہ کرسکے۔ جب ھم یہ
مانتے ھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
تمام عالم کے لیے تاقیامت رسول ھیں تو ایسے میں تمام اسلامی
ممالک کی یہ ذمہ داری ھے کہ اقوام متحدہ کے
پلیٹ فارم سے اپنا کیس جو دنیا کے تمام مسلمانوں کی دل کی آواز ھے اس کو بین الاقوامی کورٹ میں دائر کریں اور ایسا قانون اور نظام مرتب کریں جس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اور تمام مذھب کے رسولوں کی ناموس کی حفاظت ھوسکے۔
جب رسول ھمارہ ینوورسل ھے تو اس کی ناموس کی حفاظت بھی ینوورسل طریقے سے انکی شان کے مطابق ھونی چاھیے۔
پاکستان کے تمام قابل قدر علما سامنے آئیں بین الاقوامی مباحیثیں مباھلے مجادلے کریں اور علم کی طاقت سے دنیا کو اصل روشنی دیکھائیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کامیاب زندگی کے اسباق؛
جو ہم دوسری مخلوقات سے سیکھ سکتے ہیں
بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو بڑے بڑے کام کرتے ہیں، بلکہ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو چھوٹے کاموں کو بڑے انداز میں کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے یوتھ ٹرینرز (Youth Trainers) دیگر مخلوقات سے سیکھنے کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟
اس لیے کہ یہ درندے اور پرندے ، چوپائے اور دوپائے فطرت سے ہم رنگ ہیں۔ اور ہم آج مجموعی طور پہ فطرت سے بیگانہ ہیں۔ لہذا یہاں سے ہمیں وہ خالص مثالیں مل جاتی ہیں جو زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ لوگ اس نام نہاد مصروف زندگی کے جھمیلوں سے کٹ کر سکون کی
تلاش میں کہیں پہاڑوں پہ جا بسیرا کرتے ہیں، یا جن کے گائوں ہوتے ہیں، وہ اُدھر کا رخ کرتے ہیں۔کوئی ساحل کی ریت کو ٹٹولتا، ہوا کے جھونکوں کو اپنے اندر دخل اندازی کی اجازت دیتا ہے اور پرسکون شور کو دم سادھے سنتا ہے۔
بھیڑیا کی چند ایسی صفات جو یقینا آپ کے
لیے حیران کن ہوں گی اور ایسی صفات جو جانوروں میں تو کیا انسانوں میں بھی نایاب ہوتی جارہی ہیں
بھیڑیا ترکی کا قومی جانور ہے
اور ترک لوگ بھیڑئیے سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنے بچوں کوبھیڑیا سے تشبیہ دے کر باہمت بناتے ہیں
ترکی میں بھیڑئیے کو ابن البار کہا جاتا ہے یعنی نیک بیٹا کیونکہ بھیڑئے کے والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو بچہ ان کے لیے شکار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال رکھتا ہے بھیڑیا اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا
بھیڑیا واحد جانور جو کسی کا غلام نہیں بنتا
جب کہ شیر سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بھیڑیا واحد جانور ہے جو جنات کو بھی قتل کر سکتا ہے بھیڑیاکی تیز آنکھوں میں جنات کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر اسے کوئی جن نظر آ جائے تو
خسارہ یا فایدہ
انسان کے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان فقط ایک موھوم ساعت ھے اور اس ساعت کا شمار کایناتی وقت کی ادنی اکای سے بھی نھیں کیا جاسکتا۔ جب حیات و ممات کا مامعلہ ھو تو عجز کے سواہ انسان کے پاس کوی چارہ نھیں رہ جاتا۔لیکن بدنصیب ھیں وہ لوگ جو عجز کی لطافت سے اشنا نھیں ھوسکتے
۔ نادان ھیں وہ جو اپنے قدموں سے زمین کا سینہ کوٹتے ھیں اور اپنی زبان سے کوڑے کا کام لیتے ھیں، صرف ایک بار وہ سر اٹھاکر اسمان کو دیکھ لیں تو شاید انھیں اپنی بے وقعتی کا اندازہ ھوسکے گا۔ زرا دیکھیے تو،
بیکراں کاینات میں لاکھوں، کروڑوں اوارہ کھکشاییں اور ان میں موجود ایک درمیانے درجے کی کھکشاں میں موجود ایک معمولی ستارے کے گرد چکراتی ھماری زمین۔ جس کی حقیقت بقول ایاین اسٹایین کے ساحل کی ریت پر موجود ذروں میں سے ایک ذرے سے زیادہ نھیں۔
انسان اس سیارہ پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کا ڈی این اے (DNA)اور جینس (Genes)کی تعداد اس سیّارۂ زمین پر پائے جانے والے دوسرے تمام جانداروں سے بہت مختلف ہے۔
انسان کو زمین پر رہنے کے لیے بہت ہی نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ زمین کے اصل باشندے یعنی جانوروں کو اس طرح کے نرم بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیّارہ پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق
تھی ۔انسان زمین کے سارے دوسرے رہنے والوں سے بالکل الگ ہے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور بندر یا چمپینزی وغیرہ کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ کسی اور سیّارہ سے اسے زمین پر کسی نے پھینک دیا ہے ۔انسان کو جس اصل سیّارہ پر خلق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا ماحول نہیں تھا ۔
یہ سائنسدان، محقق، مصنف ، امریکہ کے نامور ماہرِ ماحولیات Environmentalist اور ایکولوجسٹ Ecologistڈاکٹر ایلیس سِلور Ellis Silverہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کرۂ ارض یعنی زمین انسان کا آبائی سیارہ نہیں ہے، انسان اس سیارے یعنی زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے
بلکہ انسان اس زمین کے لیے ایلین یا مسافر ہے ۔ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ اسے کہیں اور تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے انسان اپنے اصل مسکن سے اس زمین پر آگیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ الفاظ کسی مذہبی عالم کے نہیں بلکہ ایک سائنس دان کے ہیں ۔
ڈاکٹر ایلس سلور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ماحولیات کے ماہر ہیں۔
اپنی کتاب Humans are not from earth میں ڈاکٹر ایلس سلور نے لکھا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔