ایک انجینئرنگ کالج کے تمام اساتذہ کو سیر پر لے جانے کے لیے ایک جہاز میں بٹھایا گیا- جب تمام اساتذہ بیٹھ گئے تو پائلٹ نے خوشی اور جوش بھرے لہجے میں اعلان کیا- ’’آپ تمام محترم اساتذہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جس جہاز میں آپ بیٹھے ہیں اسے آپ ہی کے کالج کے
⬇️
ذہین طالبعلموں نے بنایا ہے-
بس پھر کیا تھا، اتنا سنتے ہی تمام اساتذہ اس خوف سے نیچے اتر گئے کہ کہیں جہاز حادثے کا شکار نہ ہو جائے- لیکن پرنسپل صاحب بیٹھے رہے یہ دیکھ کر پائلٹ ان کے پاس گیا اور دریافت کیا سر ..! تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کا نام سنتے ہی ڈر کر اتر گئے لیکن آپ کیوں
⬇️
نہیں اترے ..؟
کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا..؟
پرنسپل نے دل کو چھو جانے والا جواب دیا:
مجھے اپنے کالج کے اساتذہ سے بھی زیادہ اپنے طالب علموں پر اعتماد ہے
دیکھ لینا
"یہ جہاز سٹارٹ ہی نہیں ہوگا"
🤪
نئے پاکستان کے جہاز میں بھی ہر وزیر باتدبیر اپنی کرسی سے اتارا گیا ماسوائے ایک نیازی کے
⬇️
جو سکون سے کرسی پہ بیٹھا ہے کیونکہ وہ اور اسے بٹھانے والے اچھی طرح جانتے ہیں یہ جہاز کبھی سٹارٹ ہی نہیں ہوگا تو گرنے کا ڈر کس بات کا
کرتب دکھائی جاؤ لوگوں کو ہنسائی جاؤ.
تے نالے کھائی جاؤ تے کھائی جاؤ.
جہاز کہیں نہیں جارہا ریٹویٹ کرتے جائیں
فالو کریں اور فالو بیک لیں @Arshe530
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جب تابعدار نیازی نے گوشت مارکیٹ کا دورہ کیا انتہائی صاف و شفاف مارکیٹ میں چہل قدمی کرتے ہوئے وزیراعظم ایک قصائی کے پاس جاکر کھڑے ہوئے اور ان سے بات چیت کے بعد ان کے پاس موجود صاف و شفاف گوشت دیکھ کر تعریف کی اور پوچھا گوشت تو خوب بکتا ہوگا؟
⬇️
قصائی: گوشت تو واقعی اچھا ہے لیکن آج ابھی تک صبح سے ایک کلو بھی فروخت نہیں ہوا۔
وزیراعظم: فروخت نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
قصائی: کیونکہ آپ کے آنے کے سبب خریداروں کو مارکیٹ آنے ہی نہیں دیا گیا۔
وزیراعظم: اوہو پھر تو میں چار کلو خرید لوں گا۔
قصائی: میں آپ کو گوشت نہیں دے سکتا۔
⬇️
وزیراعظم: کیوں؟
قصائی: کیونکہ آپ کی حفاظت کے لئے ہم سے چھریاں لے لی گئی ہیں۔
وزیراعظم: تو تم بغیر کاٹے بھی مجھے دے سکتے ہو۔
قصائی: نہیں میں نہیں دے سکتا۔
وزیراعظم: کیوں؟
قصائی: کیونکہ میں سیکیورٹی ادارے کا آفیسر ہوں، قصائی نہیں۔
⬇️
کچھ دیر قبل بیٹھے تاریخ اسلام پڑھ رھا تھا کہ پڑھتے پڑھتے ذہن میں اچانک خیال آیا دُنیا کے اندر بڑے بڑے لوگ آئے,
کوئی جرنیل بنا، کوئی سپہ سالار بنا تو کوئی حکمران، فلاسفر، ڈاکٹر اور سائنسدان بنا، کوئی قاضی یا جج بنا تو کوئی دین سے رغبت کی وجہ سے عالم فاضل بن گیا
⬇️
ان سب نے دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا، اور خوب منوایا، کسی نے سائنس کے میدان میں، کسی نے شاعری اور فلاسفی کے میدان میں تو کسی نے ادب و لغت کے میدان میں تاریخ پہ ان مٹ نقوش چھوڑے، لیکن جب ان کی زندگیوں کو پڑھتا ھوں تو ان سب میں ایک بات یکساں نظر آتی ھے-
⬇️
اور وہ بات یہ ھے کہ اگر ھم نے کسی فاتح کی حالات زندگی کا مطالعہ کیا
تو آخر میں یہ بات پڑھنے کو ملتی ھے کہ صاحب نے تو اور بھی علاقوں کو فتح کرنا تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یوں مزید علاقوں کو فتح نہ کرسکے ... سکندر اعظم کی صورت میں اس کی بہترین مثال آپ کے سامنے ہے..
⬇️
مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ہے اس کے برعکس سِلور، سٹیل، اور پریشر کُکر میں کھانا جلدی جلدی تیار ہوتا ہے لیکن یہ کھانا پکتا نہیں بلکہ گلتا ھے
تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں جن لوگوں نے برتن بدل لیے اُن کی زِندگی بدل گئی۔
⬇️
2- کُوکِنگ آئل
کوکنگ آئل وہ استعمال کریں جو کبھی نہ جَمے دُنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں وہ زیتون کا تیل ہے،لیکن یہ مہنگا ھے ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لیے سرسوں کا تیل ہے سرسوں کا تیل جمتا نہیں، یہ وہ واحد تیل ہے جو ساری عُمر نہیں جمتا اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ہے
⬇️
ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات بھی اسی لیے کی جاتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے اس کو جمنے نہیں دیتا، اس کی زندہ مثال اچار ہےجو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ہے اس کو جالا نہیں لگتا
اور اِن شاءالله جب یہ
⬇️
ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو والد نے حقہ گودام میں رکھوا دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ھو گئی انھیں دنوں ایکسچینج کی اپ گریڈیشن بھی شروع ھو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ھو گئی
⬇️
وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ھوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ھو گئے ھم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے جو لوگ ھمارے چاچا جی ھوتے تھے جو گلی میں داخل ھو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں
⬇️
ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے وہ سب بھی غائب ھو گئے ھم ان کی شکلیں تک بھول گئے میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا
میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا؛ "ابا جی آپ
⬇️
ایک جنازے سے فارغ ہوتے ہی ایک بابا جی قبر کے قریب آکر کھڑے ہوگئے اور پوچھنے لگے؛ بیٹا بتاؤ اگر یہ شخص ابھی دنیا میں واپس آجائے تو کیا کرے گا..؟
بابا جی کے اس سوال پر ایک دفعہ تو سب کو جھٹکا لگا کہ کیا بات بابا جی کہنے والے ہیں بابا جی مسکرائے
⬇️
اور بولے میں انسان ہی ہوں سوال کا جواب کوئی دینا چاہے گا- ایک دو شخص ہم آواز ہو کر بولے نیک کام کرے گا اچھائی کے کام کرے گا اتنے میں پیچھے سے آوازیں گونجنے لگ گئیں جیسے عموماً ہوتا ہے کہ ایک آدمی بولا تو سب ہی اپنی اپنی رائے
دینے لگے ایک آواز بابا جی کہ کان میں
⬇️
پہنچی دین کا کام شروع کر دے گا- ایک آواز آئی قرآن و سنت کو پکڑ لے گا- ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ بابا جی کہنے لگے ساری باتوں کا خلاصہ ایک ہی ہے کہ یہ اللہ کی نافرمانی سے دور ہو کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمانبردار بن جائے گا لیکن پتر بات یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں آئے گا،
⬇️
عالم اسلام کا ایک نایاب اور نامور سلطان جو ان گنت زبانوں پر عبور رکھتا تھا عربوں سے عربی میں منگولوں اور تاتاریوں سے تاتاری میں یونانیوں سے یونانی میں حبشیوں سے ان کی زبان میں اور اس طرح دوسری اقوام سے ان کی زبان میں گفتگو کرنے کی مہارت رکھتا تھا سلطان
⬇️
بننےسے پہلے وہ جگہ جگہ ایک غلام کی حیثیت سےدھکے کھاتا پھرتا تھا لہذا اس نے اس دوران میں مختلف زبانیوں میں مہارت حاصل کر لی تھی وقت کی آنکھ نے اسے کبھی ایک گڈریے کی صورت میں "دشت قپچاق" میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دیکھا آسمان نے اسے کبھی دمشق شہر میں برده فروشوں کی منڈی میں ایک
⬇️
غلام کی حیثیت سےبکتےدیکھا کبھی اس نےدمشق اور مصر کےامراء کی نوکری و چاکری کرتےہوئےوقت گزارا اورکبھی رزمگاہ میں ایک صف شکن لشکری کےسنگ میں بھی دیکھاگیا اور کبھی وقت کی تیز آنکھ نے اسے اسلامی لشکر کےسالار اعلی کی حیثیت سےبھی دیکھا مشہور امریکی مؤرخ ہئیر لڈیم اس کے متعلق لکھتا ہے
⬇️