ایک پہاڑی سلسلے کے اوپر رن وے بنا ہوا تھا ایک طیارہ مسافروں سے بھر چکا تھا ابھی تک پائلٹ نہیں آیا تھا کہ اچانک مسافروں نے دیکھا کہ دو افراد ہاتھوں میں سفید چھڑی لئے آنکھوں پر سیاہ چشمے پہنے آئے اور کاک پٹ میں چلے گئے مسافروں میں چہ می گوئیاں شروع ہوئیں کہ پائلٹ تو دونوں نابینا
ہیں سپیکر پر آواز آئی کہ میں پائلٹ فلاں صاحب جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں اور میرے ساتھ فلاں صاحب میرے معاون پائلٹ ہیں یہ درست ہے کہ ہم دونوں نابینا ہیں لیکن جہاز کے جدید آلات اور ہمارے وسیع تجربے کو دیکھتے ہوئے فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہم باآسانی جہاز چلا لیتے ہیں بے شمار پروازیں کر
چکے ہیں مسافروں میں بے چینی کچھ کم ہوئی لیکن ان کی تشویش کم نہ ہوئی خیر انجن سٹارٹ ہوا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا دونوں اطراف میں کھائیاں تھیں مسافر سانس روک کر بیٹھے ہوئے تھے جہاز دوڑتا گیا سامنے بھی کھائی تھی لیکن جہاز دوڑ رہا تھا کھائی کے بالکل قریب جاکر مسافروں کی
Great Pyramids of Giza
مصر کے شہر قاہرہ کے قریب ہی دریائے نیل کے مغرب میں یہ تین مثلث نما اونچی پتھر کی عمارتیں ہزاروں سال سے کھڑی ہیں
انہیں دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ مانا جاتا ہے یہ تقریباً بیس لاکھ پتھروں سے مل کر بنائی گئی ہیں اور 146 میٹر اونچی ہیں
آج تک یہی مانا جاتا رہا کہ ان بڑے بڑے ٹنوں کے حساب سے وزنی پتھروں کو کئی سال غلام مزدوروں کے ذریعے اٹھوایا جاتا رہا لیکن 2002 میں فرانس کے ایک ماہر
مادیات Joseph Davidovits نے اپنی کتاب میں Pyramid کے بارے میں حیرت انگیز تحقیق پیش کی
انہوں نے کہا کہ یہ پتھر دراصل اصلی چٹانی پتھر نہیں بلکہ بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے پتھروں کا Nano- Technology استعمال کرتے ہوئے بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ پتھر میں پانی کے انتہائی ننھے سے
سر جیمز جینز کہتے ہیں
فلکیات میں 40 برس غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں خ جیسے ایک مصنف کو سمجھنے کے لے اسکی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے ایسے الله کو سمجھنے کے لئے اسکی کتب یعنی صحیفہ فطرت میں غور لازمی ہے ہم الله کی محیر العقول صناعیوں میں جوں جوں غور کرتے ہیں اسکی عظمت
و حکمت سے پردے اٹھتے جاتے ہیں وہ افق نگاہ کے قریب آتا معلوم ہوتا ہے " ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ " اور جب زیادہ قریب آجاتا ہے تو قلب و نظر اسکی بے کران عظمتوں کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں ہمالیہ دور سے ایک ٹیلہ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ قریب سے شیروں کے کلیجے دھڑکا دیتا ہے
جہالت وہ مسافت ہے جو الله اور انسان میں حائل ہو تو الله چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور علم وہ نردبان ہے جو ہمیں جوار قدس تک پہنچا دیتا ہے قریب پہنچ کر ہم الله کی عظمت و جلال سے سہم جاتے ہیں با دیگر الفاظ الله سے ڈرنے کا امتیاز ایک صاحب علم کو ہوسکتا ہے
سمادھی سر گنگا رام
سر گنگارام نے 10 جولائ 1927 کو لندن میں وفات پائی. بی پی ایل بیدی گنگارام کی آخری رسومات کے متعلق لکھتے ہیں ان کے انتقال کی خبر لاہور بذریعہ تار پہنچی 12جولائی 1927 کو بروز جمعہ گنگانواس لاہور میں ان کی کریا کی رسم ادا کی گئی. اس روز غرباء میں کپڑے اور نقدی
تقسیم کی گئی لالہ سیوک رام نے والد کی راکھ کو گنگا میں بہانے کی رسومات ادا کئیں جس میں دس ہزار افراد نے شرکت کی تقریب میں یوں نعرے لگائے گے دھان ویر کی جے,غریبوں کے ولی کی جے,ودھواؤں کے سہارے کی جے اور پنجابی حاتم طائی کی جے
15 اگست کو گنگارام کی وصیت کے مطابق ان کی بچی راکھ
لاہور لائی گئی جہاں بیوہ گھر اور اپاہج آشرم کے قریب واقع مقبرہ میں اسے رکھ دیا گیا گنگاپور کے لوگ درشن کے لیے آئے آخری تقریب میں ٹاون ہال گارڈن بھرا ہوا تھا ڈولا کا جلوس ہزاروں افراد پر مشتمل تھا لوگوں نے دکانیں بند رکھیں جلوس کے شرکاء میں دودھ تقسیم کیا گیا گھروں کی بالکونیوں سے
طائف سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک وضعدار مشرک مطعم ابنِ عدی اور اس کے بیٹوں کی حفاظت میں مکے میں داخل ہوئے مطعم تو مسلمان نہ ہوا مگر بعد میں اس کے بیٹے مسلمان ہو گئے مشرک ہونے کے باوجودِ رسول اللہ صلوات سلام کے دل میں مطعم ابنِ عدی کے اس احسان کا بہت احترام تھا
جب غزوہِ بدر میں مشرکینِ مکہ کے ستر سرخیل قیدی بنے جن میں حضرتِ عباس بن عبد المطلب اور عقیل بن ابوطالب اور رسول اللہ صلوات و سلام کے داماد ابو العاص بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج اگر مطعم ابنِ عدی زندہ ہوتا تو میں اس کی سفارش پر ان تمام بدبودار لوگوں کو رہا
کر دیتا حبشہ کے بادشاہ نے جب مسلمانوں کو پناہ دی تو رسول اللہ صلوات و سلام نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ نجاشی کے دست و بازو بن کر اس کے دشمنوں کے خلاف اس کی مدد کریں دوسری وصیت یہ فرمائی کہ کبھی بھی حبشہ پر چڑھائی مت کرنا ہم ان کے احسان مند ہیں مسلمان فرانس چین اور افریقہ
شب برات کے متوالوں سوشل میڈیا پر معافیاں مانگنے والوں کے نام معروف ڈراما نگار نورالہدی شاہ کی پر اثر تحریر
پچھلی رات معافیوں کی رات کے طور پر منائی گئی سب نے سب سے کھڑے کھڑے معافی مانگی اور صبح صبح ہوتے ہلکے پھلکے ہو کر سو گئے سوشل میڈیا نے اسے اور بھی آسان کر دیا ہے خدا کرے روز
ِ محشر بھی وائی فائی کام کرتا ہو اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے یوں ہی رابطے میں ہوں اتنی آسانی سے حقوق العباد کی اگر معافیاں روزِ محشر بھی ہو گئیں تو یقیناً حساب مختصر ہو جائے گا اور جلد از جلد ہم بہشت کے ائرکنڈیشنڈ ہال میں پہنچ چکے ہوں گے
معافیوں کی اُس گزر چکی رات میں
حیدرآباد سے کراچی کا سفر کر رہی تھی۔ اسی سفر کے دوران سوشل میڈیا پر معافیوں کا لین دین پڑھتے ہوئے مجھے ایک ذاتی تجربہ یاد آ گیا تقریباً چھ سال پہلے دبئی کے ہسپتال میں میری نواسی وقت سے بہت پہلے ساتویں مہینے کی ابتدا میں ہی پیدا ہو گئی میرے گھر کا وہ پہلا بچہ تھی شادی کے چار سال