معاشرے میں عدل و انصاف کی ضرورت سب سے زیادہ عدلیہ کے شعبے میں ہوتی ہے کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہر جائز و ناجائز غلط و صحیح میں تمیز کی جاتی ہے اس لیے اسلام نے عدالتی شعبے کے لیے ایک مکمل ضابطہ پیش کیا۔👇
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم : ’’ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔👇
سورہ النساء) اسی سورہ مبارکہ میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا، مفہوم: ’’تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں اپنا منصف (قاضی) نہ بنالیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بل کہ اس کو خوشی سے قبول کرلیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔👇
حضور ؐ کے وقت سے خلفائے راشدین کے دور تک انصاف کا شعبہ یعنی عدلیہ بالکل شفاف اور مثالی رہی کیوں کہ طلوع اسلام کے فوراً بعد عادل کی ذمے داری حضورؐ نے خود اپنے پاس رکھی۔ آپؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نمایاں طور پر قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 👇
خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں سلطنت اسلامیہ کافی وسیع ہوچکی تھی اس لیے ہر صوبے اور علاقے میں قاضی کا تقرر ہوتا رہاپھر اموی اور عباسی دور آیا تو قاضیوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ چکی تھی، انہی میں کچھ غلط قسم کے قاضی بھی شامل ہوگئے تھے جن کے فیصلے عدلیہ اور نظام حکومت پر دھبا ثابت ہوئے
کیوں کہ ایسے قاضی حکام کے دباؤ میں آجاتے اور سفارشوں اور تحائف کے ذریعے وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے نہیں کر پاتے تھے۔
آنحضور ؐ انصاف کے معاملے میں کبھی بھی سفارش یا دباؤ کو قبول نہیں فرماتے تھے۔ بعض اوقات اچھے قسم کے قاضی کو بھی ظالم حکم ران کا دباؤ قبول کرنا پڑتا ہے👇
اور اس طرح صحیح فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اسی بناء پر آنحضورؐ نے ایک حدیث میں ایسے قاضی سے متعلق فرمایا، مفہوم : ’’ جو صحیح فیصلہ نہیں کرے گا اس کا مقام جہنم ہے۔‘‘
اسی حدیث کے پیش نظر امام اعظم حضرت ابوحنیفہ ؒ نے ’’قاضی القضاۃ‘‘ (چیف جسٹس) کا عہدہ عباسی خلیفہ کے دور حکومت میں ٹھکرا دیا تھا۔ خلیفہ منصور کو بہت بُرا لگا اور دونوں کے درمیان مکالمہ ہوا۔ منصور نے سوال کیا۔ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل کی؟👇
آپ نے اپنے اساتذہ کے نام بتائے اس پر اس نے قضاء کا عہدہ تجویز کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ میں اس عہدے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ پھر منصور غصے میں بولا تم جھوٹے ہو ! آپؒ نے فرمایا: اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدۂ قضا کے اہل نہیں کیوں کہ جھوٹا شخص قاضی نہیں ہوسکتا۔👇
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کو اندیشہ تھا کہ وہ ظالم، جابر اور عیاش حکم رانوں کا دباؤ قبول نہ کریں گے اور دباؤ کے نتیجے میں صحیح فیصلہ نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا انہوں نے حاکم کی سزا کو قبول کرلیا اور قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔👇
اسلام نے عدالت میں عادل قاضی کے تقرر کو شرط قراردیا ہے تاکہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو بلاتفریق انصاف فراہم کرسکے اور ہر حالت میں کسی کے بھی دباؤ میں نہ آئے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں : ’’جب قضاء و فیصلے کے لیے ایسے حاکم و قاضی کی طرف بلایا جائے جو عادل اور قرآن و سنت کا عالم ہو تو 👇
اس کے پاس فیصلے کے لیے جانا ضروری نہیں۔‘‘
اسلام نے عدلیہ کے شعبے کو انتہائی حساس سمجھا ہے اور انتہائی احتیاط برتنے کے لیے کہا ہے۔ آنحضورؐ کا فرمان ہے، مفہوم اگر قاضی کسی بھی وجہ سے غصے کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ غصہ ختم ہونے تک کسی مقدمے کا فیصلہ نہ کرے کیوں کہ ایسی حالت 👇
میں اس سے انصاف کے تقاضوں میں کوتاہی کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ آنحضرت ؐ نے فرمایا انصاف کرنے والے (قاضی) اﷲ کے پاس داہنی طرف منبر پر ہوں گے۔ اﷲ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں👇
اور یہ انصاف کرنے والے وہ حضرات ہیں جو حکم کرتے وقت اپنے بچوں اور عزیز واقارب میں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے ان میں انصاف کرنے میں اپنے بے گانے کا لحاظ نہیں رکھتے۔‘‘ (صحیح مسلم جلد 3)
عدل سے معاشرے میں توازن پیدا ہوتا ہے اسی لیے قرآن حکیم میں امت مسلمہ کو امت وسط کہا گیا ہے👇
ارشاد الہی ہے، مفہوم : ’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوجائیں۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ) اس آیۂ مبارکہ میں لفظ وسط استعمال ہوا ہے جس کے معنی درمیان کے ہیں لیکن یہاں بہتر اور افضل کے معنی میں آیا ہے ایک اور مقام پر فرمایا ، مفہوم👇
اسی ﷲ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ بن جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ، پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اﷲ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا مالک اور ولی ہے👇
پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مدد گار۔ ‘‘ (سورہ الحج ).
دعا کا طلبگار
اے اللہ ہم پر ایسے لوگ مقرر کر جو ہم میں انصاف کر سکیں. آمین
فلنتا راجہ
پرچہ برائے جج بھرتی 2021 کل آسامیاں 10
وقت :30 منٹ ٹوٹل سوال : 10 ٹوٹل مارکس :100
100 نمبر لینے والےکو 100 روپے کا ووؤچر بھی انعام میں دیا جائے گا
- سوالنامہ
مندرجہ ذیل خالی جگہ پر کریں -
1: دنیا میں سب سے ایماندر جج ________کے ہیں🕳️👇
2: دنیا میں سب سے زیادہ جلدی انصاف صرف ______سے ہی مل سکتا ہے ؟
3: زندگی کی گارنٹی مانگنے والے جج کا نام ________ تھا؟
4: اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کو پچاس روپے کے اشٹام پر ملک سے باہر جانے کی ضمانت _______ نے دی تھی اور پچاس کا اشٹام _____نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا؟
🕳️👇
5:لاہور ہائیکورٹ کے ______ نے شہباز شریف کےضمانت کیس میں اختلافی فیصلہ لکھنے والے جج کا تبادلہ بہاول پور کر دیا تھا ؟
6: عبوری ضمانت کروانے کی اسپیشل سلاٹ لینےکے لیے آپ ________ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں ؟🕳️👇
اقبال کے خلاف یہ الزام تھا کہ اس نے اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنے کی کوشش کی، گو وہ اس میں ناکام رہا۔ جب وہ عدالت میں پہلی مرتبہ پیش کیا گیا تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موت سے مڈبھیڑ ہوتے وقت اس کی رگوں میں تمام خون 👈 #قانون_نہیں_اندھاقاضی
خشک ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام طاقت سلب ہوگئی ہے۔
اقبال کی عمر بیس بائیس برس کے قریب ہوگی مگر مرجھائے ہوئے چہرے پر کھنڈی ہوئی زردی نے اس کی عمر میں دس سال کااضافہ کر دیا تھا اور جب وہ اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ رکھتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ واقعی بوڑھا ہے۔👈
سنا گیا ہے کہ جب شباب کے ایوان میں غربت داخل ہوتی ہے تو تازگی بھاگ جایا کرتی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں سے یہ عیاں تھا کہ وہ غربت کا شکار ہے اور غالباً حد سے بڑھی ہوئی مفلسی ہی نے اسے اپنی پیاری جان کو ہلاک کرنے پر مجبور کیا تھا۔
اس کا قد کافی لمبا تھا 👈
تم میرے پاس کھجور لائے ہو لیکن، اس سے گھٹلی نہیں نکالی.
یہ جملہ کس نے کہا تھا ؟
سیدنا عمر بن خطابؓ کی جستجو شدت اختیار کرگئی کہ بے شک ابوبکر صدیقؓ مدینے کے اطراف میں فجر کی نماز کے بعد جاتے تھےاور کچھ دیر کے لیے ایک گھر میں جاتے پھر اس گھر سے نکل جاتے۔
سیدنا عمرؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں، جو وہ کرتے اسے جانتے تھےسوائے اس گھر کے راز کے۔
دن گزرتے رہے سیدنا ابوبکرؓ جب تک خلیفہ رہے وہ اس گھر (کے اہل) کی ملاقات کے لیے جاتے, اور سیدنا عمر اس راز سے نا واقف ہی رہے کہ وہ گھر کے اندر کیا کرنے جاتےہیں
ایک دن سیدنا عمر سیدنا ابوبکرؓ کے نکل جانے کے بعد اس گھر میں رکے رہے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ اس کے اندر کیا ہے اور دیکھیں کہ ابوبکر ؓ نماز فجر کے بعد اس میں کیا کرتے ہیں۔
سیدنا عمر رضى الله عنه جب اس چھوٹی سے جھونپڑی میں آئے
مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُوْ لُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ [متفق علیه]
’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان کو گالی دینا فسوق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔
‘‘تشریح:1مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے، مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
2 اگر کوئی گالی دینے میں ابتدا کرے تو اس سے بدلا لینا جائز ہے،
اگرچہ بہتر صبر ہے۔
﴿وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ﴾ [الشوری:41]
’’ جو شخص ظلم کیے جانے کے بعد بدلا لے لے تو لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘
﴿وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ …
والدہ کو بڑے فخر اور چاو سے اپنا ناول ارسال کردیا کہ اماں پڑھ کر بتا دینا کہ کیسا لکھا ہے۔ اگلے دن والدہ نے روتے روتے فون گھمایا واہ بیٹا کیا کمال کی منظرنگاری کی ہے ، بہووں کو پاس بٹھا کر پشتو ترجمہ کرکے بتاتی رہتی ہوں تو سب رونے لگ جاتیں ہیں کہ، 👇
بھائی نے ہم پشتون خواتین کی کیا خوب نمائندگی کی ہے۔ واقعی بیٹا تم فخر ہو ہمارا۔
اگلے دن پھر فون پر اماں نے بتایا کہ بیٹا اب پڑوس کی آٹھ دس عورتیں بھی محفل میں شامل ہوگئیں ہیں۔ روزانہ ایک گھنٹہ پشتو ترجمہ کیساتھ پڑھ کر سنائی ہوں۔ سب کہہ رہیں ہیں عارف ہمارے گاوں کا فخر ہے۔
👇
تیسرے دن اماں نے بتایا کہ مدرسے کی کچھ بچیاں بھی آگئیں ہیں وہ آپ کے ناول کا ترجمہ ذوق و شوق سے سن رہی ہیں۔ کچھ بچیاں کہہ رہیں ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم خود روس میں ہیں۔ بیٹا اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطاء فرمائے۔ آمین۔ تم واقعی ہمارا فخر ہے 👇
گاوں کی عزت #محبت_مافیا
1928ء کی بات ہے کہ لکھن پور میں دو زمیندار رہتے تھے۔ ایک کا نام تھا امراؤ سنگھ، دوسرے کا دلدار خاں۔ دونوں بدیشی راج کے خطاب یافتہ تھے۔ امراؤسنگھ کو انگریزوں نے رائے صاحب بناکر نوازا تھا اور دلدار خاں کو خاں صاحبی دے کر ممتاز کیا تھا۔کہتے ہیں کہ ایک.. 👇
میان میں دو تلوار، ایک مملکت میں دو سلطان اور ایک کچھار میں دو شیر نہیں رہتے۔ لیکن لکھن پور میں رائے صاحب اور خاں صاحب دونوں موجود تھے۔ دونوں خاندانی رئیس تھے۔ اگر رائے صاحب کئی سیڑھیاں پھاند کر رائے پتھورا سے سے ناتا جوڑتے تو خاں صاحب اللہ داد خاں شرقی صوبیدار تک کسی نہ کسی 👇
طرح اپنا سلسلہ پہنچاتے۔ دونوں کے مزاج میں گھمنڈ اور غرور تھا اور دونوں کو اس کی کد رہتی تھی کہ میری بات اور میری مونچھ اونچی رہے۔
لکھن پور بالکل یوپی کے دوسرے قصبوں کی طرح ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ آٹھ ہزار کے قریب آبادی تھی. دو چھوٹے چھوٹے بازار تھے کچے پکے مکانات، پھوس کے جھونپڑے