آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی
آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2020 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔
جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل
ہے، ہمارے بچے " پبلشرز " بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور
خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے
رہتے ہیں اور اپنے بچے کو " کوڑھ مغز " اور " کند ذہن " کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔
آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ
کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو " سوشل اسٹڈیز " پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ
ہم نے کتنا " سوشل " ہونا سیکھا ہے؟ اسکول میں سارا وقت سائنس " رٹتے " گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی " سائنس دان " نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس " سیکھنے " کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی " رٹّا" لگواتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس " گلے سڑے " اور " بوسیدہ " نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو " طوطا " بنانے کے بجائے " قابل " بنانے کے بارے میں سوچیں۔ #واٹس_ایپ
حکومت کو بھی چاہیے کہ پہلے تعلیمی نظام
کو سیدھا کریں اس کے بعد تصوف اور صوفی ازم کے ساتھ سائنس کا موازنہ کریں۔
🤐
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
خاتون اول محترمہ بشری عمران نے لاہور میں " شیخ ابوالحسن شازلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر" کا افتتاح کر دیا ہے ۔ یہ سینٹر ملک کی معروف جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم کیا جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر 100 ملین روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے
ساتھ اس کا علماء کرام ، صوفی ازم پر کام کرنیوالے سکالرز اور مذہبی و خانقاہی اداروں سے اشتراک ہوگا جبکہ طلباء کو سکالرشپس کی مد میں بھی خطیر رقوم فراہم کی جائیں گیں۔ خاتون اول کے وژن کے مطابق ریسرچ سینٹرز کا دائرہ کار پنجاب بھر میں بڑھایا جائے گا اور صوبے میں ریسرچ سینٹر
تک ریموٹ رسائی دی جائے گی تاکہ لوگ گھر بیٹھے اس سے مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں سکالر شپ کیلئے راہنمائی کی غرض سے ہائر ایجوکیشن کے تعاون سے آن لائن رہنمائی مرکز پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔
یہ ایک خبر جبکہ دوسری جانب آج کی ہی دو مزید خبریں بھی پڑھ لیں ، پشاور میں صوبہ
#فوجی_دماغ
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پاکستان ائیر فورس بیس میں خطیب رہے، اس زمانے میں ہر سال بیس پر "سیرت کانفرنس" منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا
👇
جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں،
👇
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر
👇
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔
اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے
جنگل میں شیر نے حکم جاری کر دیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونیئر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا ہے
باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیا پر چیتے نے خرگوش کو پکڑ لیا اور رکھ کے چپیڑ کڈ ماری
اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں نہیں پہنی #پیرس_کی_ٹوپی
خرگوش بولا سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا اوکے جاؤ
اگلے دن فیر خرگوش چہل قدمی کر رہا تھا چیتے نے اسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی
خرگوش نے روتے ہوے کہا سر کل بھی بتایا
تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا: اوکے گیٹ لاسٹ
تیسرے دن فیر چیتے نے سیم حرکت کی تو خرگوش شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی بتائی ۔
شیر نے چیتے کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے ہیں اور وی سو طریقے ہیں
جیسے تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاؤ
سقراط! نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے، کوئی کتاب نہیں لکھی، کیونکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط انتہائی بدصورت تھا اور اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہ
وتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ باپ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی۔ سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ...
سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے کہ :
" ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا، اور اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا
اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت
خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد