لاہورکی جوبن پرآئی شام آسمان ابھی شفق رنگ تھاجب اس حویلی کی چھت پرجہاں کوُکوُز ڈین اپنےمہمانوں کاسواگت کرتاہےسانس متوازن کرنےاورتواچکن آرڈرکرنےہردوکےبیچ ہم نے اردگردنظردوڑائی
ـــ
کوئی کیوں کسی کالبھائےدل کوئی کیاکسی سےلگائےدل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ہمارے پیروں سے ابھی تک ان روشوں جھروکوں اورچوباروں کی رنگین دھول اڑتی تھی جنہیں دنیا ٹکسالی کے نام سے جانتی ہے
تب یادداشت کے پردے پر چناب کے اس پارسے ایک بھولی بسری داستان طلوع ہوئی
توصاحبو! بہت دن نہیں بیِتے کہ کاتب کے لکھے حروف کی سیاہی ابھی تازہ ہے
کانوانوالی سرکارکی نگری سے کچھ کچھ شما ل کی سمت جچ دوآب کے زرخیزمیدانوں میں اس راستے کی قربت میں جو بل کھاتالڑھکتا کوٹلہ چلتا چلا جاتاہے ہم ذرا دم لینے کو ٹھہرے تھے ۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپائی سے پرویزمشرف کے زبردستی کے مصافحے نے رزم گاہی ماحول کو کچھ نرم کردیا تھا
مگر صاحب رزم ہو یا بزم فوج سکیم کے پیسے پورے کرواتی ہے
جنگ تو نہ ہوئی مگرعمرعزیزکے دو روشن سال چھاؤنی کےپکے مکانوں سے دور بہت دورایک تمبو قناتی رہائش اور ان گنت ٹریننگ سائیکل کی نظرہو گئے۔ پہلے سال تو لگ بھگ نوماہ تک کیاافسرکیا جوان کسی کے لیے چھٹی بھی نہیں کھلی
جیٹھ ہاڑ کی گرمیاں تو اسی بھمبھل بھوسے یعنی عسکری کارروائی کی گرما گرمی میں گزر گئیں
دس ہاڑ دا دوپہرہ کتھے کٹیئے
بابے بُلّھے دے پنجا ب دیئے جٹیئے
مگر جب سردیاں سرپہ آگئیں تو گنے کے کاشتکارپریشان ہوگئے
ان دنوں پی ٹی وی پرخبرنامے کےدوران اکثرمحکمہ زراعت کا اشتہارچلاکرتاتھاجس کی اوپننگ لائن تھی گنے کےکاشتکار متوجہ ہوں
وقت گزرجانےکےسبب اب ہمیں اس مشہوری کامتن تویادنہیں رہامگر یہ اوپننگ لائن اس لیےبھی یادہےکہ یہ سنتےہی متاثرہ افسرکچھ کھنگورا سامارکےبے چارگی شکل پہ سجائے
کنکھیوں سے کبھی ایک دوسرے کو اور کبھی کمانڈنگ افسرکودیکھتے تھے اور ہم جیسے جونیئرافسرجو ابھی گنے کے کاشتکار نہیں ہوئے تھے زیرلب مسکرادیتے
دیکھیے آپ کو کہا تھا کہ بات کھلے گی تو بہت دور جائے گی، سو چلی گئی
تو صاحب ایک ایسی ہی شام اس معنی خیزاشتہارکے کھنگوروں اور کنکھیوں کے بعد
اووراے کپ آف ٹی ہمارے کمانڈنگ آفیسرلیفٹیننٹ کرنل ارشد بھٹی نے وہ داستان سنائی جس کا ذکر شروع میں ہوا تھااور جو ٹکسالی کی یاتراکے بعد ہماری یادداشت پر اتری تھی
یہ ان دنوں کا ذکر ہےکہ جن دنوں ہمارے کرنل صاحب کے ابھی لفٹینی دور کے کھانے پینے اور کھل کھیلنے کے دن تھے
نوجوان کرنل صاحب اوران کےایک لفٹین دوست نےپروگرام بنایا کہ وہ منڈی دیکھ کرآتےہیں جس کےنام کوکچھ ہیروں سے نسبت ہے
دونوں افسرسیالکوٹ سےبذریعہ بس لاہور واردہوئےاورجب شاہی مسجد کےپچھواڑےاسی کےہم نام محلےمیں شرم وشرمی اترےتو سِکھردوپہرے ان گلیوں اور چوباروں میں الّو بول رہا تھا
کرنل صاحب سےمروی ہےکہ ہم منہ پھاڑکےکسی سےپوچھتے بھی توپتےکی بابت کیاپوچھتے
اورتواورنوواردان محلہ کی سہولت کےلیےکوئی سائن بورڈتک نہیں تھاجس پہ جلی نہ سہی خفی حروف میں لکھاملتا ہیرامنڈی میں خوش آمدیدیاپھرجی آیاں نوں وغیرہ
محلےکی دکانیں اورپان کےکھوکھےتک اس مدمیں مشکوک حدتک خفیہ تھے
دونوں حضرات گنرہونے کی رعایت سے میپ ریڈنگ کے فن سے کامل واقف تھے اور کمال مہارت سے سکس فگرگرڈ ریفرینس نکال کر اتنا تو مطمئن ہوگئے کہ وہ مطلوبہ جگہ پہنچ گئے ہیں مگر وہاں نہ موتیے کے ہار، نہ کجلے کی دھار، نہ سولہ سنگھار کیے ایک دلنواز انداز سے لبھاتی اور بلاتی حسینائیں
اور نہ ہی ڈبی پرنٹ مفلرپہنے بند مٹھی کیے چھنگلیا میں سگریٹ کا گل دبائے ایک آنکھ میچ کے کش لگاتے دنیاکی سب سے قدیم جنس کا بھاؤ تاؤ کرتے آڑھتی
کمانڈ پوسٹ میں کھڑے ہوکر میٹ میسج حل کرنے اور سکس راؤنڈ گن فائر فارایفیکٹ آرڈرکرنے والوں کوکون سمجھائے کہ
بقول مرزاعبدالودودبیگ جس بازارمیں کوئلوں کی دلالی سے منہ کالاکرتےہیں اس ’ہیرامنڈی‘ میں توچہل پہل ہی سورج ڈھلےشروع ہوتی ہے
رونق تب لگتی ہےجب رات کچھ کچھ بھیگ چلی ہو
توصاحب ہماری لفٹینی جوڑی باہمی اتفاق سےیہ رائےقائم کرکےپلٹی
ہیرامنڈی وچ کوئی بازارحسن نئیں۔ ایویں گلاّں بنٹریاں نیں
تو صاحب آج کی ٹکسالی میں ایک ڈھلتی شام اورایک جوبن پر آتی رات کی چہل قدمی کے بعد اگر آپ کوُکوُز ڈین میں توا چکن تناول کرتے ہوئے سوچیں جیسا میں اس شام تھا تو آپ کی بھی رائے یہی ہوگی
ایویں گلاّں بنٹریاں نیں
سلسلۂ روزوشب نقش گرحادثات ہے کہ جسکا تارحریردورنگ کیاکیا پیرہن بُنتا، سنوارتا اور پھرمٹاڈالتاہے
1860میں کھینچاگیاولیم سمپسن کاایک گریفائٹ سکیچ ہےجس کی آڑی ترچھی لکیریں گئےوقتوں کےٹکسالی گیٹ کی جھلک دکھاتی ہیں
جو ایک در تھا عالم میں انتخاب!
ــــــ
ٹکسالی گزرگاہ ۔ حصۂ دوم
کچھ شکستہ محرابوں اور ایک پلیا سےگزرتی رہگزراونچی اور جاندار فصیلوں سےجاملتی ہے
کہتےہیں کہ اکبربادشاہ نےشہرکی مغربی دیوارکو حملہ آوروں سےبچاؤکےلیےایک دفاعی فصیل کی طرزپراٹھایا تھا اور اس میں آمدورفت کے لیے صرف ایک در رکھا تھا
ٹکسالی گیٹ شہرلاہور کی مغربی سمت کاواحددروازہ تھا
پرانےلاہورکےکھوجی ماجد شیخ کہتےہیں کہ شہرکے شرقاً غرباً پھیلاؤسےپہلےلوہاری دروازے سے, جولاہورکےقدیم ترین دروازوں میں سےایک ہے, اندرجائیں توکوچہ کبابیاں کی ہمسائیگی میں جوچوک آتاہےوہ پرانے وقتوں کا چوک چکلہ ہےاوراس سےمشرقی سمت جو گزرگاہ نکلتی ہےوہ بازار چوک چکلہ کہلاتی تھی
A Fairy Tale Couple
A Lonely Princess
A Banished Prince
___
West of Dharampura across Infantry Road, adjacent to what once was a village named Hashim Pur, in the middle of an eroded Mughal garden stands a wretched tomb
Inside a white marble cenotaph is draped as if it's a shrine
Lifting the chadar (the covering on cenotaph) from a side would reveal a modern day plaque that gives us a name Nadira Begum wife of Dara Shikoh
The rightful successor to Shah Jahan, Shah Dara after whom is named a town across Ravi
The plaque also gives us a year of death 1659 CE
Adjacent to Nadira Begum's mausoleum stands Mian Mir's tomb, a saint much revered by her husband
We know that Dara Shikoh, the eldest of Shah Jahan's sons was much into Sufi tradition
We dear reader, will not dwell much on it for this thread focuses on the princess and her prince
کوٹری سےلانڈھی کےسفرمیں 2DN/1UP خیبرمیل ہویا 8DN/7UP تیزگام ایک بےنیازی سےگزرجاتی ہیں
راہ میں پڑتےمسکین بےنامی سٹیشن بھولاری، میٹنگ، جھمپیر، جنگ شاہی، رن پٹھانی، دابھیجی،پپری اوردوسرےاپناسامنہ لےکررہ جاتےہیں
ـــ
اک دورسےآتی ہےپاس آ کےپلٹتی ہے
اک راہ اکیلی سی رکتی ہےنہ چلتی ہے
🧵
اگر آپ پاکستان میں کہیں سے بھی ریلوے ٹریک پرکراچی کے مسافرہیں تو ایک توجون ایلیا کی زبانی راستے میں سُسرا روہڑی ضرورپڑے گا
وہی روہڑی جس کے بارے میں یوسفیؔ کے ہمزاد مرزا عبدالودوبیگ کہتے ہیں کہ قیامت کے روز جب صورپھونکا جائے گا تو اہالیان کراچی میدان حشرمیں وایا روہڑی جائیں گے
دوسراحیدرآبادکےہمسائےکوٹری سےآگےکچھ دو گھنٹےسےاوپرکےنان سٹاپ سفرمیں بہت سےگمنام سٹیشن آئیں گے
ایک برق رفتاری سےگزرتی ٹرین میں بیٹھےکراچی کی متوقع آمد کی تیاری میں مگن مسافروں میں سےکس کوفرصت ہےکہ انہیں دیکھے
پرکوئی ہےجو انہیں تھم کےدیکھتاہےکہ یہیں کہیں بہت سی یادیں گری پڑی ہیں
Suhagan & Duhagan of Aror
___
Few years back I returned to Pakistan on short trip
There I drove parents from Karachi to my sister's at Fort Abbas
We made a brief stop at Daewoo Terminal Sukkur
In a hurry to reach destination in same day's journey I missed a landmark by few miles
From Daewoo's Terminal if we take a flight heading east across the scorched 'Rohri Heights', which now has turned into a quarry, in 5 miles we reach the Ancient Seat of Hindu Kings, Aror
There on a barren hilltop under giant power lines stand two peculiar tombs as if hand-placed
Now if you have read @MahimMaher's beautiful article she'd tell of a caretaker of these tombs and his grief
'At night Mohanlal talks to Duhagan-Suhagan. How were you built, he asks them. How can I fix you? The tombs do not speak.'
The tombs do not speak, but the folk ballads do
A Saint In A Borrowed Mausoleum
___
Inside the tomb of Bahauddin Zakariya where the Sheikh rests beneath an elevated sarcophagus under a carved wooden canopy, towards his feet is an empty grave marked with tiles
For some time his grandson Rukn ud Din Abul Fateh lay buried here
A wooden 'headstone' tells us that Bahauddin in a dream hinted King of Delhi to remove the elevated saint's body from his feet for he deserved a higher rank
On the matter what happened next after Rukn ud Din's body excavated this inscription from Faqir Dost Muhammad goes quiet
It's Rukn ud Din's disciple whom we know as Makhdum Jahaniyan Jahangasht of Uch Sharif who tells us that Sultan Muhammad built a shrine within an arrow's reach from Bahauddin Zakariya's tomb
He then pulled out Rukn ud Din's body from his grandfather's tomb and buried it there
Surrender
*reader discretion is advised*
___
Before the ceremony a French reporter came to me and said
'How are you feeling, Tiger?'
I replied 'Depressed'
Arora, who was standing nearby remarked
'Any other general in these circumstances could have not done better.'
The picture above, now documented history will haunt us forever
Niazi couldn't muster the courage to include it in his book
What he did include was that upon his repatriation to Pakistan at Wagah
"There was a big crowd ....
People were shouting, Show us General Niazi, our ghazi."
Niazi failed to see the issue in East Pakistan in a political perspective
With insufficient and depleted resources when he encountered full thrust of Indian War machine the end was inevitable
but then Dhaka was surrendered without a single shot fired
and Niazi had others to blame