سلسلۂ روزوشب نقش گرحادثات ہے کہ جسکا تارحریردورنگ کیاکیا پیرہن بُنتا، سنوارتا اور پھرمٹاڈالتاہے
1860میں کھینچاگیاولیم سمپسن کاایک گریفائٹ سکیچ ہےجس کی آڑی ترچھی لکیریں گئےوقتوں کےٹکسالی گیٹ کی جھلک دکھاتی ہیں

جو ایک در تھا عالم میں انتخاب!
ــــــ
ٹکسالی گزرگاہ ۔ حصۂ دوم
کچھ شکستہ محرابوں اور ایک پلیا سےگزرتی رہگزراونچی اور جاندار فصیلوں سےجاملتی ہے
کہتےہیں کہ اکبربادشاہ نےشہرکی مغربی دیوارکو حملہ آوروں سےبچاؤکےلیےایک دفاعی فصیل کی طرزپراٹھایا تھا اور اس میں آمدورفت کے لیے صرف ایک در رکھا تھا
ٹکسالی گیٹ شہرلاہور کی مغربی سمت کاواحددروازہ تھا
پرانےلاہورکےکھوجی ماجد شیخ کہتےہیں کہ شہرکے شرقاً غرباً پھیلاؤسےپہلےلوہاری دروازے سے, جولاہورکےقدیم ترین دروازوں میں سےایک ہے, اندرجائیں توکوچہ کبابیاں کی ہمسائیگی میں جوچوک آتاہےوہ پرانے وقتوں کا چوک چکلہ ہےاوراس سےمشرقی سمت جو گزرگاہ نکلتی ہےوہ بازار چوک چکلہ کہلاتی تھی
حفظان شریعت کےعین اصولوں کےمطابق چوک کاموجودہ نام چوک بخاری ہے
جان کی امان پائیں تو بتاتےچلیں لاہورکاسب سےپہلا بازارحسن یہیں آبادہوا
بہت بعدمیں جب شہرپھیلا اور قلعہ نےآب وتاب دکھائی تواس فن اوراس سےجڑےفسوں کوزندہ رکھنےوالیاں شہرکےدارالسلطنت کےعین نیچےٹبی بازارمیں آبراجمان ہوئیں
ٹبی بازار جس میں ٹکسالی دروازے سے آتی بازارشیخوپوریاں کی راہ لیتی گزرگاہ کھلتی ہے اورجس کا حالیہ نام شاہی محلہ ابھی دھندلا نہیں پڑا۔ یہیں ہماری ملاقا ت ایک اور چوک چکلے سے ہوتی ہے
اپنے پڑھنے والوں کو یہ چوک دکھلاتے ہیں مگرپہلےذرا ایک چکردروازے کا لگا آئیں
ہمارے ولیم سمپسن، جی ہاں یہ وہی صاحب ہیں جن کا ٹکسالی دروازے کا خاکہ ہم نےکچھ ٹوئٹس پہلے اسی تھریڈ میں دیکھا تھا، انہوں نے اس میں رنگ بھرے اور ہمیں ایک رنگین واٹرکلرعطا کیا اور صاحب ایک شبیہہ کے رنگ ہزار کے مصداق ہمیں اس دروازے کی کیا عالیشان شبیہہ نظرپڑتی ہے
شہرکی مغربی فصیل پرمورچہ بند یہ واحددروازہ ایک پیش بندی تھی ان حملہ آوروں کےخلاف جنہوں نے راوی کےپارسےآناتھا
پھرچشم فلک نےیہ منظر بھی دیکھا کہ آنےوالےپوربی دشا سےآئےجہاں سےکہ سورج طلوع ہوتاہےاورامرت کا تالاب چمکتاہے، ستلج پارکیااورتخت لاہورپرقابض ہوکرفتح بلائی، مگروہ قصہ پھر سہی
تو صاحب گیٹ کانام ٹکسالی کچھ یوں پڑاکہ شاہجہاں کےزمانےمیں یہاں ٹکسال قائم تھی جہاں مغلئی اشرفیاں ڈھالی جاتی تھیں
اگرآپ آج کی تاریخ میں جرنیلی سڑک پرواہگہ کےمسافرہوں توشالیمارباغ گزرتےہی روڈ کےمخالف یعنی جنوبی سمت پاکستان منٹ قائم ہے
مغلئی اشرفیاں تو کب کی متروک ہوئیں اب یہاں حکومت پاکستان کرنسی نوٹ چھاپتی ہے
وہی خستہ کرارے اورایک مسحورکن خوشبو چھوڑتے ہوئےکرنسی نوٹ جسے بقو ل یوسفیؔ کسی ترکیب سےبمثل عطرکشیدکرکے مہینے کے شروع میں خواتین کو سنگھایا جائے تو بخدا گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے
لاہورکےنبض شناس سید لطیف بتاتےہیں شاہجہانی ٹکسال سے پہلے بھی یہاں ساہوکار، پیسہ بنانے اور پھر اس سےکھیلنےوالوں کی ریل پیل تھی
تب اسےلاکھی دروازہ کہتےتھے۔ لاکھی بمطلب لاکھ کی مہر
وائے زمانہ کہ کل کاٹکسالی گیٹ آج کی ایک منحنی سی گزرگاہ ہے

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
یہیں سےایک پتلی گلی بنام لاہنگاسٹریٹ داہنےہاتھ کونکلتی ہےکچھ پرانےوقتوں کا سراغ دیتی ہوئی
صاحب گانےوالیاں توہواہوئیں مگربجانےوالےکچھ کچھ یہیں رہ گئے
اب اس بازارمیں باجےوالوں کی بارات سجی ہے
ہارمونیم طبلہ پکھاوج شہنائی اوربہت کچھ
مگرشایدستارکی تاریں لینےاب بھی آپکوامبرسرجاناپڑے
اندرون ٹکسالی سےاگر آپ سیدھی روش پکڑیں(محاورےکی رعایت کےساتھ) توآپ بازارشیخوپوریاں سےہوتےہوئےجہاں اب چپلوں اورکھُسّوں کا بیوپارگرم ہےسیدھاناولٹی چوک پہنچتےہیں۔ یہ ٹبی بازارکاچوک چکلہ تھا
ہمارےپڑھنےوالوں کولوہاری گیٹ والا اصلی مارکہ چوک چکلہ یادہوگا جس کا ہم پہلےذکر کرچکےہیں
یہیں ایک عرصےتک ناولٹی سینما کےمیٹنی شوز نےلوگوں کےدلوں پرکھینچ ڈالی اوررات کا شو ٹوٹنےپرپلٹتی بھیڑکاسواگت انہی سڑکوں نےکیا
اب نہ سینما رہانہ وہ لوگ
اسی چوک سےداہنےہاتھ تھوڑاآگے ایک غلام گردش کی اوٹ میں پاکستان ٹاکیزہے
کہنےوالےاسےوطن عزیزکےقدیم ترین سینماگھروں میں سے بتاتے ہیں
طرفہ تماشاہےکہ اب یہاں کمال ڈھٹائی سےبی گریڈسستی تفریح اور بےہودہ ادائیں نمائش کےلیےپیش ہوتی ہیں
پوسٹرزپرنظرپڑی تو یوسفیؔ صاحب کی ترکیبیں 'خنجراب چھاتیاں' اور'اشرف المعلّقات کی نمائش' بےطرح یادآئیں
ٹھمکا گرا رے
ٹکسالی کے بازارمیں

(معاف کیجیے ہم اتنے لچے ہیں نہیں جتنے نظرآتے ہیں)
بازارشیخوپوریاں جہاں ختم ہوتاہےجنوبی اترائی کےرخ ٹبی بازار کی رونقیں آپ کے ہمراہ چلتی ہیں۔ پپو پان شاپ سےہونٹ رنگین اورزبان ذائقےدارکرتےجائیے اورتھوڑا آگے ٹبی چوک سےسیدھےہاتھ مڑجائیے تو یہ گلی جج لطیف ہے
اگرآپ تاریخ کے طالبعلم ہیں تولاہورکے سید لطیف کو آپ کیونکرنہ جانتے ہوں گے
لاہور کی متحرک نبض پرہاتھ رکھتا گئےقرنوں کوحال کےعدسےسےکھنگالتاان کی چھان پھٹک کرتاسید لطیف کاتالیف کردہ یہ مرقع جسےلوگ تاریخ لاہورکےنام سےجانتے ہیں اسی گلی کی لاہورپرعنایتوں میں سےایک عنایت ہے
ٹبی چوک سےنکلتی ان بھول بھلیّوں میں ایک عالم آبادتھا، اک علم کادریاتھا کہ بہتاتھا
اہل علم ودانش کی فراوانی تھی کہ ادب کے قدردان اس قطعے کو لاہورکا چیلسی کہاکرتےتھے۔
ایک طرف کوچہ تحصیل میں مولانامحمد حسین آزاد متمکن تھے ، جی ہاں وہی آب حیات والے اپنے مولاناآزاد ، تو دوسری طرف خواجہ برادران کا طوطی بولتا تھا
یہیں کہیں قربت میں شاہ حسین نےدھونی رمائی تھی, دو نینن کی جوت جگائی تھی
نی سیو! اسیں نیناں دے آکھے لگے

اور پھر اسی تکیے پر بہت بعد کےسالوں میں پنجابی کی آن اور پنجابی کی شان استاددامن نےبیٹھک لگائی
بلھا ملیا ایسے وچوں
ایسے وچوں وارث وی
دھاراں ملیاں ایسے وچوں
میری ماں پنجابی اے
دیکھیں شام ہو چلی ہےتو صبح کےبھولےہم واپس اس دشا کوپلٹتے ہیں جہاں سےاس یاتراکاآغاز کیاتھا مگرذری رستےمیں شاہی محلےکی خوردنی سوغاتوں پرنظرڈالتے چلیں
بونگ پائے چنے پیڑے والی لسّی آپ نام اور چٹخارےلیتے جائیے
نوگزےپیرکےبالمقابل المشہورپھجےکےپائےکی قدیمی دکان ہے۔
اپنےاصلی ہونے کےثبوت میں مالکوں نےمیاں برادران کی گاہکی کی تصویر لٹکا رکھی ہے
صاحب لاہورکی گلیوں سے سیاست کے ایوانوں تک ، پھجے کے پایوں کی پہنچ دوررس ہے
اور دل کی بات بتائیں تو یہ پھجے کے پائے ہی ہیں جو وطن عزیزمیں جاری حالیہ سیاسی خلفشار کی جڑ ہیں
اب آپ پوچھیں گے کیسے
پھجے کےپائے ایک قطری خط میں لپٹے تو گلی گلی’مجھےکیوں نکالا‘ کی صداؤں میں بےتوقیرہوئے
یہ گردان وطن عزیزکادردرکھنےوالوں کی سماعتوں پہ گراں گزری تواہل ادارہ ودانش نےاسکا علاج معجون فلک سیرکی ایک صوفیانہ خوراک سےکردیاتوہم ایک دوسرےگرداب میں پھنس گئے
مخے ’میں این آراو نہیں دوں گا‘
یہاں علامہ ناصرمدنی آپ سے کہیں گے
مجھ ویچ کےگھوڑی لئی
دُدھ پینوں گئی لِد سُٹنی پئی
دیکھیں ہم جذبات کی رو میں بہہ کرسیاست کی دلدل میں اتر گئے
اس میدان کے ہم کھلاڑی نہیں ہمیں ن لیگ کھلائےیا پی ٹی آئی ہم نےآخرمیں اون گول ہی کردیناہےتو بہتر ہےکہ واپس ٹکسالی کی ان گلیوں کو پلٹا جائے
اونچا اور نیچا چیت رام روڈ کی یہ رنگین حویلیاں جوکبھی دیدہ زیبی میں شاہی محلے کے سر کا تاج تھیں آج بھی گئے دنوں کی چمک دمک رکھتی ہیں اوراسی شاہی مسجد کی ہمسائیگی میں اب فوڈ سٹریٹ کا حصہ ہیں
اگر آپ نے اندرون لاہورکی دید ہ زیبی کا نظارہ کرنا ہے تو یہاں آجائیے
یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کو خبردارکرتے چلیں کہ اگران کے آنے کا منبع و مقصد 'صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں' والا معاملہ ہے تو اطلاعاًعرض ہے کہ انہیں مایوسی ہوگی
وہ کیا ہے کہ
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
یہ ٹکسالی دروازے پر ہماری تحریر کا دوسرااورآخری حصہ تھا
ہمارے پڑھنے والے پہلا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں
@maliksh741
مرشد آپکی بہت پرانی فرمائش تھی کہ لاہور کے دروازوں کی یاترا پر جو بلاگ لکھا تھا اسے اردو میں بھی لکھا جائے۔آپ کے حکم کے احترام میں یہ پہلی قسط پیش خدمت ہے
گرقبول افتدزہے عزوشرف
My readers interested to read this thread in English may visit the story on MANI JUNCTION
meemainseen.com/2016/10/city-g…
@threadreaderapp unroll please

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with imran

imran Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @meemainseen

6 Jun
لاہورکی جوبن پرآئی شام آسمان ابھی شفق رنگ تھاجب اس حویلی کی چھت پرجہاں کوُکوُز ڈین اپنےمہمانوں کاسواگت کرتاہےسانس متوازن کرنےاورتواچکن آرڈرکرنےہردوکےبیچ ہم نے اردگردنظردوڑائی
ـــ
کوئی کیوں کسی کالبھائےدل کوئی کیاکسی سےلگائےدل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے Image
ہمارے پیروں سے ابھی تک ان روشوں جھروکوں اورچوباروں کی رنگین دھول اڑتی تھی جنہیں دنیا ٹکسالی کے نام سے جانتی ہے
تب یادداشت کے پردے پر چناب کے اس پارسے ایک بھولی بسری داستان طلوع ہوئی
توصاحبو! بہت دن نہیں بیِتے کہ کاتب کے لکھے حروف کی سیاہی ابھی تازہ ہے Image
کانوانوالی سرکارکی نگری سے کچھ کچھ شما ل کی سمت جچ دوآب کے زرخیزمیدانوں میں اس راستے کی قربت میں جو بل کھاتالڑھکتا کوٹلہ چلتا چلا جاتاہے ہم ذرا دم لینے کو ٹھہرے تھے ۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپائی سے پرویزمشرف کے زبردستی کے مصافحے نے رزم گاہی ماحول کو کچھ نرم کردیا تھا
Read 15 tweets
1 Jun
A Fairy Tale Couple
A Lonely Princess
A Banished Prince
___
West of Dharampura across Infantry Road, adjacent to what once was a village named Hashim Pur, in the middle of an eroded Mughal garden stands a wretched tomb
Inside a white marble cenotaph is draped as if it's a shrine
Lifting the chadar (the covering on cenotaph) from a side would reveal a modern day plaque that gives us a name Nadira Begum wife of Dara Shikoh
The rightful successor to Shah Jahan, Shah Dara after whom is named a town across Ravi
The plaque also gives us a year of death 1659 CE
Adjacent to Nadira Begum's mausoleum stands Mian Mir's tomb, a saint much revered by her husband
We know that Dara Shikoh, the eldest of Shah Jahan's sons was much into Sufi tradition
We dear reader, will not dwell much on it for this thread focuses on the princess and her prince
Read 31 tweets
23 May
کوٹری سےلانڈھی کےسفرمیں 2DN/1UP خیبرمیل ہویا 8DN/7UP تیزگام ایک بےنیازی سےگزرجاتی ہیں
راہ میں پڑتےمسکین بےنامی سٹیشن بھولاری، میٹنگ، جھمپیر، جنگ شاہی، رن پٹھانی، دابھیجی،پپری اوردوسرےاپناسامنہ لےکررہ جاتےہیں
ـــ
اک دورسےآتی ہےپاس آ کےپلٹتی ہے
اک راہ اکیلی سی رکتی ہےنہ چلتی ہے
🧵
اگر آپ پاکستان میں کہیں سے بھی ریلوے ٹریک پرکراچی کے مسافرہیں تو ایک توجون ایلیا کی زبانی راستے میں سُسرا روہڑی ضرورپڑے گا
وہی روہڑی جس کے بارے میں یوسفیؔ کے ہمزاد مرزا عبدالودوبیگ کہتے ہیں کہ قیامت کے روز جب صورپھونکا جائے گا تو اہالیان کراچی میدان حشرمیں وایا روہڑی جائیں گے
دوسراحیدرآبادکےہمسائےکوٹری سےآگےکچھ دو گھنٹےسےاوپرکےنان سٹاپ سفرمیں بہت سےگمنام سٹیشن آئیں گے
ایک برق رفتاری سےگزرتی ٹرین میں بیٹھےکراچی کی متوقع آمد کی تیاری میں مگن مسافروں میں سےکس کوفرصت ہےکہ انہیں دیکھے
پرکوئی ہےجو انہیں تھم کےدیکھتاہےکہ یہیں کہیں بہت سی یادیں گری پڑی ہیں
Read 31 tweets
9 Apr
Suhagan & Duhagan of Aror
___
Few years back I returned to Pakistan on short trip
There I drove parents from Karachi to my sister's at Fort Abbas
We made a brief stop at Daewoo Terminal Sukkur
In a hurry to reach destination in same day's journey I missed a landmark by few miles
From Daewoo's Terminal if we take a flight heading east across the scorched 'Rohri Heights', which now has turned into a quarry, in 5 miles we reach the Ancient Seat of Hindu Kings, Aror
There on a barren hilltop under giant power lines stand two peculiar tombs as if hand-placed
Now if you have read @MahimMaher's beautiful article she'd tell of a caretaker of these tombs and his grief
'At night Mohanlal talks to Duhagan-Suhagan. How were you built, he asks them. How can I fix you? The tombs do not speak.'
The tombs do not speak, but the folk ballads do
Read 17 tweets
1 Apr
A Saint In A Borrowed Mausoleum
___
Inside the tomb of Bahauddin Zakariya where the Sheikh rests beneath an elevated sarcophagus under a carved wooden canopy, towards his feet is an empty grave marked with tiles
For some time his grandson Rukn ud Din Abul Fateh lay buried here
A wooden 'headstone' tells us that Bahauddin in a dream hinted King of Delhi to remove the elevated saint's body from his feet for he deserved a higher rank
On the matter what happened next after Rukn ud Din's body excavated this inscription from Faqir Dost Muhammad goes quiet
It's Rukn ud Din's disciple whom we know as Makhdum Jahaniyan Jahangasht of Uch Sharif who tells us that Sultan Muhammad built a shrine within an arrow's reach from Bahauddin Zakariya's tomb
He then pulled out Rukn ud Din's body from his grandfather's tomb and buried it there
Read 24 tweets
16 Dec 20
Surrender
*reader discretion is advised*
___
Before the ceremony a French reporter came to me and said
'How are you feeling, Tiger?'
I replied 'Depressed'
Arora, who was standing nearby remarked
'Any other general in these circumstances could have not done better.'
The picture above, now documented history will haunt us forever
Niazi couldn't muster the courage to include it in his book
What he did include was that upon his repatriation to Pakistan at Wagah
"There was a big crowd ....
People were shouting, Show us General Niazi, our ghazi."
Niazi failed to see the issue in East Pakistan in a political perspective
With insufficient and depleted resources when he encountered full thrust of Indian War machine the end was inevitable
but then Dhaka was surrendered without a single shot fired
and Niazi had others to blame
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(