کل فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔جانے کون ملنے آیا تھا؟
میں جانتا تھافیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔
وھی ھوا شام کو تھلے پر آکر بیٹھا ھی تھا کہ فیکا چلا آیا۔👇
کہنے لگا۔"صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی پر دانے بھونا کرتی تھی۔جسکا اِکو اِک پُتر تھا وقار"
میں نے کہا"ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں"
اللہ آپکابھلا کرے صاحب جی،وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔
سکول میں👇
اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ھوتی تھی۔ اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھااور دوائی لے۔اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھااور اچار کھولا۔
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا توسب👇
سے پہلے اماں کے ہاتھ کابناپراٹھا ہی یاد آتا ھے۔سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو کھنڈ جاتی ھے۔ پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔
خیر صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لیں۔اُس ایک نظرنے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔میں نے زندگی میں پہلی بار 👇
کسی کی آنکھوں میں انتڑیوں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں، آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ھوں۔
"اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا"
وقار کابھرم ٹوٹنے سے پہلے ھی میں نے اُس کی منتیں کرکے اُس کو کھانے میں ساتھ ملا لیا۔پہلی بُرکی ٹڈھ👇
میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی انتڑیوں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیجا۔میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیااور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔اس نے پورا پراٹھا کھالیا۔فر اکثر ایسا ہونے لگا۔میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں ملا لیتا۔وقارکی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی👇
اورمیری وقار کے ساتھ۔
خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی؟
جبکہ میں سکول سے گھر آتے ھی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا۔ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا"پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کے دیتی ھوں تو کھاتا بھی ھے کہ نہیں۔اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ھے تجھے؟میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں جب تو آتے ھی بُھوک کی 👇
کھپ ڈال دیتا ھے۔جیسے صدیوں کا بھوکا ھو" میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔پر اماں نے اُگلواکے ھی دم لیا۔اماں تو سنکر بلک پڑی اور کہنے لگی"کل سے دوپراٹھے بنادیا کروں گی"
میں نے کہا
"اماں پراٹھے دو ھوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا میں تو گھر آکر کھا ھی لیتا ھوں"صاحب جی اُس دن سے👇
اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اورمکھن کی مقدار بھی.کہنے لگی "وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ھے"
"مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے،
مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔!
میں سوچ میں پڑ گیا۔پانچویں جماعت میں پڑھنے والے فیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔بھرم جو ذات کامان ہوتا ہے۔اگر👇
اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزرجاتی ہے۔بندہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔
فیکے کوپانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔اِس سے آگے تووہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔میں جوفیکے کےلئے صاحب جی تھا۔ایک پڑھالکھااعلی تعلیم یافتہ، مجھے کسی👇
سکول نے بھرم رکھناسکھایا ہی نہیں تھا۔
صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے گھر جانے لگی“دیکھ نوراں ساگ بنایا ھے چکھ کر بتا کیسا بنا ھے"وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتااور اُنکااک ڈنگ ٹپ جاتا۔
صاحب جی وقارکو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو👇
شہر میں کسی کےگھر کام پر لگوادیا۔تنخواہ وقار کی پڑھائی اوردو وقت کی روٹی طے ہوئی۔اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔اُسکے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔
کل وقار آیا تھا۔ولایت میں رہتا ھے۔واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔پڑھ لکھ کروڈا افسر بن👇
گیا ھے۔ مجھے لینے آیاھے صاحب جی" کہتا "تیرے سارے کاغذات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنواکر تجھے ساتھ لینے آیاہوں اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ھے جی"
صاحب جی میں نے حیران ہوکر وقار سے پوچھا"یار لوگ سکول یاہسپتال بنڑواتے ہیں۔تو لنگر کھولناچاہتا ھے۔وہ بھی امّاں کے نام پر؟👇
کہنے لگا"فیکے بھوک بڑی ظالم چیز ھے، چور ڈاکو بنا دیتی ھے۔خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ھے۔تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ھے فیکے۔سارے فیکے کی طرح آنکھیں پڑھنے والے نہیں ھوتے۔اورنہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔ پھر کہنے لگا۔یار فیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں 👇
"جھلیا میں سب جانتا ہوں۔چنددنوں کے بعد جب پراٹھے کے ول بڑھ گئے تھے،مکھن بھی۔ آدھا پراٹھا کھا کے ھی میرا پیٹ بھر جاتا تھا۔اماں کو ھم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکارہنا منظور نہیں تھافیکے "وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
"اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی"
میں پھراس سوچ میں ڈُوب گیا👇
لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا فیکے اور وقار کی۔۔!
بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔فیکا کہہ رہا تھا "مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ھے صاحب جی۔
اُس نے کہا تھا۔
"مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی فیکے مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا"
بے شک بھرم ھی تو ھے جو رشتے اور دوستیاں قائم رکھتا ھے۔۔❤
یہ 1282 ہجری کی بات ہے. سعودی عرب کے بریدہ شہر میں منیرہ نامی ایک نیک وصالح خاتون نے مرنے سے پہلے اپنے زیورات بھائی کے حوالے کئےکہ میری وفات کے بعد ان زیورات کو بیچ کر ایک دکان خرید لیں.پھراس دکان کو کرائے پر چڑھائیں اور آمدن کو محتاجوں پر خرچ کر دیں.
بہن کی وفات کے بعد بھائی نے
وصیت پر عمل کرتے ہوئے انکے زیورات بیچ کر بہن کے نام پر 12ریال میں ایک دکان خرید لی(اس زمانے میں 12 ریال کی بڑی ویلیو تھی) اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔کرائے کی رقم سے محتاجوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر دی جاتی رہی یہ سلسلہ دہائیوں جاری رہا۔ دہائیوں بعد دکان کا ماہانہ کرایہ 15
ہزار ریال تک پہنچ چکا تھا،اور اس رقم سے ضرورت مندوں کیلئے اچھی خاصی چیزیں خرید کر دی جاتی تھیں۔ پھر وہ دن آیا کہ سعودی حکومت نے بریدہ کی جامع مسجد میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دکان توسیع کی زد میں آ رہی تھی۔چنانچہ حکومت نے 5 لاکھ ریال میں یہ دکان خرید لی.
دکان کی دیکھ بھال
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا.غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ کپڑے نہیں پہنتاتھا۔ ایک بار میرے ابا کو کپڑے کاسوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے۔تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جسکا+
اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای؟
میں نے کہا:”سوایا ہے چاچی“لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں۔لیکن اُنکو اعتبار نہ آیا خالہ،پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا
اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھاکہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کےبعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا۔تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے
جب ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کومیکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا‘جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘شاہی خاندان کے 35 مردوخواتین بھی تاجدار ہند کے ساتھ تھے۔
کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘
وہ بندر گاہ پہنچا‘اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا،👇
رسید لکھ کردی.دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لیکر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا،
نیلسن پریشان تھا‘
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھااور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھاکہ وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کوجیل میں پھینک دے۔مگررنگون میں کوئی ایسامقام نہیں تھا👇
جہاں بادشاہ کو رکھاجاسکتا،
وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا،
نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور ظِلّ سُبحانی کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858کو اس گیراج میں پہچا،
7نومبر 1862 تک چار👇