ایک میراثی کا بیٹا شہر میں پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن گیا
عرصہ بعد اس نے ایک خط باپ کو بھیجا میراثی ان پڑھ تھا لہذا اس نے ڈاکیے سے خط پڑھنے کو کہا
ڈاکیے نے خط کھولا، اندر ایک خط اور ساتھ ایک سختی سے تہہ شدہ چھوٹا کاغذ تھا خط میں اپنا حال احوال لکھنےکے بعد اس نے باپ
👇
کو شہر بلایاتھا.جبکہ دوسرے کاغذ کےمتعلق لکھاتھا کہ اسے کسی چیز کی ضرورت ھے جوکہ اس سخت پیکنگ والے خط میں لکھی ھے لیکن یہ کاغذ بڑے میراثی کےعلاوہ کوئی نہ دیکھے۔
بڑے میراثی کی نظر بہت کمزور تھی اس لیے خط رازداری سے نہ پڑھا جاسکا
آفسر کے ابے نے اندازے سےگاؤں کی سوغاتیں
👇
اکٹھی کرناشروع کیں دیسی گھی، مکھن، مکئی کا آٹا، سرَوں کا تیل، سرسوں کا ساگ، بھٹے، غرض جو بھی اسکےذہںن میں آیا پوٹلی میں باندھ لیا لیکن تسلی نہ ھوئی
بالآخر مجبوراً ماسٹرجی کےپاس گیا
اور رازداری کےوعدے پر چٹھی پڑھنےکی درخواست کی
ماسٹرجی نےکاغذ کھولا کاغذ پر فقط ایک
👇
جملہ تحریر تھا:
_ابا! آتے ھوئے ڈھولکی ضرور لانا
آج آپ اس مراثی کے پتر کو عمران ریاض عرف گیلا تیتر کے نام سے جانتے ہیں۔
یک عورت ایک دکان سے چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی ۔ پولیس نے گرفتار کرلیا۔ عدالت میں پیش ہوئی تو جج نے پوچھا
" خاتون آپ نے دکان سے کیا چرایا ؟"
عورت " جناب میں نے سٹرابیری کا ایک پیکٹ چرایا"
جج " اس پیکٹ میں کتنی سٹرابیری تھی؟"
عورت " اس میں 6 عدد سٹرابیری تھیں"
👇
جج " فی سٹرابیری کے حساب سے تمھیں 6 دن جیل رہنے کی سزا دی جاتی ہے"
" لیکن جج صاحب " اچانک عدالت کے ہال سے ایک آواز گونجی " اگر اجازت ہو تو فیصلہ لکھنے سے پہلے میری گذارش سن لیں"
جج نے اجازت دی تو وہ آدمی آگے کٹہرے میں آیا۔
جج " لیکن محترم آپ ہیں کون ؟"
👇
آدمی " جناب میں اس عورت کا شوہر ہوں "
جج " اوکے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟"
آدمی " جناب ! اس عورت نے صرف سٹرابیری پیکٹ ہی نہیں۔
.
.
.
بلکہ ایک پیکٹ چنے بھی چرائے تھے😆
یہ سنتے ہی جج نے فیصلہ دیا کہ اس عورت کو فورا رہا کیا جائے کیونکہ اس کے خاوند نے
👇
شوکت مقدم پاکستان نیوی کے سابق آفیسر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو ملکوں جنوبی کوریا اور قزاقستان میں پاکستان کے سفیر رہے‘ ان کی دو صاحب زادیاں اورایک بیٹا ہے‘ دوسری بیٹی کا نام نور مقدم تھا‘نور 20 جولائی کی شام ہولناک طریقے سے قتل ہو #JusticeForNoor
👇
گئی اور اس قتل نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا۔
لوگ پانچ دن سے دہشت زدہ ہیں ‘ نور کے ساتھ کیا ہوا؟ اس طرف آنے سے پہلے میں آپ سے ایک دوسری فیملی کا تعارف بھی کراؤں گا‘ پاکستان میں جعفربرادرز کے نام سے ایک بڑا بزنس گروپ ہے‘ یہ لوگ کھربوں روپے کے
👇
مختلف کاروبار کرتے ہیں۔
جعفربرادرز کے ایک بھائی عبدالقادر جعفر لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہے ہیں‘ ان کے صاحب زادے ذاکر جعفر بھی ارب پتی ہیں‘ ذاکر جعفر کا بزنس برطانیہ اور امریکا تک پھیلا ہوا ہے‘ کراچی میں رہتے ہیں لیکن امراء کی طرح انھوں نے بھی اپنا ایک
👇
وہ جرنیل جس نے اپنے کیریئر کے دوران ہر پروموشن پہلے لی اور درکار کورس بعد میں کیا۔جو پہلی بار بطور کیپٹن انٹیلی جنس سروس میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مقام پر جا پہنچا کہ خود میجر تھا لیکن اس کی تخلیق کردہ انٹیلی جنس حکمت عملی سکول آف ملٹری انٹیلی جنس میں کرنل رینک
👇
کے آفیسرز کو پڑھائی جا رہی تھی۔
جس نے بطور بریگیڈئر برطانیہ کے "رائیل وار کالج" کا کورس یہ کہہ کر مسترد کیا "انگریز کون ہوتا ہے مجھے جنگ سکھانے والا۔ ملک کا دفاع اپنی مٹی کے فہم سے آتا ہے اور یہ فہم میرے پاس ہے"
👇
جس نے بطور ڈی جی ایم آئی جنرل ضیاء الحق سے کہا
"You are the men of status quo"
جس کی کمان میں ملتان سے پاکستان کے آرمڈ ڈویژن نے کشمیر کی جانب موو شروع کی تو بھارت کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشق "براس ٹیک" منسوخ کرنی پڑی۔
جو پاکستان آرمی کی تاریخ کا سب سے کم
👇
ملالہ یوسف زئی اور اس کے باپ ضیا الدین کے حوالے سےبہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو ضرور جاننا چاہئے ۔۔
ملالہ کی (نام نہاد) کتاب " I am Malala" دراصل کرسٹینا لیمب نامی جرنلسٹ نےلکھی جس کی اصل وجۂ شہرت پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت ہے اور اس پر حکومت
پاکستان کی جانب سے پابندی ہے۔
صرف چند باتوں کی نشان دہی سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک پندرہ یا سولہ برس کی بچی اتنا منظم اور مربوط فساد کا حامل پروپیگنڈہ ہر گز تیار نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا اسلوب تحریر اتنا پختہ ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک تجربہ کار شرپسند اور
مفسد ذہن ہے اور باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ۔جس پر خود ملالہ یقین رکھتی ہے۔ اس کتاب میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب " شیطانی آیات" کے بارے میں لکھتی ہے کہ " اس کے والد کے خیال میں وہ آزادی اظہار ہے"
اس کتاب میں قرآن مجید پر تنقید کی گئی