"ملالہ یوسفزئی کی اصل حقیقت"

ملالہ یوسف زئی اور اس کے باپ ضیا الدین کے حوالے سےبہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو ضرور جاننا چاہئے ۔۔
ملالہ کی (نام نہاد) کتاب " I am Malala" دراصل کرسٹینا لیمب نامی جرنلسٹ نےلکھی جس کی اصل وجۂ شہرت پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت ہے اور اس پر حکومت
پاکستان کی جانب سے پابندی ہے۔
صرف چند باتوں کی نشان دہی سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک پندرہ یا سولہ برس کی بچی اتنا منظم اور مربوط فساد کا حامل پروپیگنڈہ ہر گز تیار نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا اسلوب تحریر اتنا پختہ ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک تجربہ کار شرپسند اور
مفسد ذہن ہے اور باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ۔جس پر خود ملالہ یقین رکھتی ہے۔ اس کتاب میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب " شیطانی آیات" کے بارے میں لکھتی ہے کہ " اس کے والد کے خیال میں وہ آزادی اظہار ہے"
اس کتاب میں قرآن مجید پر تنقید کی گئی
اور اس میں خواتین سے متعلق موجود قوانین سے وہ متفق نہیں۔ مثلاً وہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو غلط کہتی ہےجو کہ قرآن کا حکم ہے۔ اسی طرح وہ زنا سے متعلق 4 لوگوں کی گواہی کو بھی درست نہیں سمجھتی۔بحوالہ : صفحہ نمبر 24 اور صفحہ نمبر 79۔

اسی کتاب کے صفحہ نمبر 28 پر وہ اسلام کا
سیکولرازم اور لبرل ازم سے موازنہ کرتے ہوئے اسلام کو ملیٹنٹ ( دہشت گرد ) قرار دیتی ہے ( نعوذ بااللہ )۔

بدنام زمانہ شاتمۂ رسول تسلیمہ نسرین ملالہ کو اپنی چھوٹی اور لاڈلی بہن قرار دیتی ہے اور دونوں کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ تسلیمہ نسرین کو بنگلہ دیشی حکومت نے
رسول اللہ ﷺ کے خلاف گستاخانہ کتاب لکھنے پرملک بدر کر رکھا ہے اور یہ ملعونہ آج کل انڈیا میں سیاسی پناہ لیے بیٹھی ہے۔
پوری کتاب میں اللہ کے لیے لفظ " گاڈ " استعمال کیا گیا ہے اور حضور ﷺ کا صرف نام لکھا ہے جیسا کہ غیر مسلم لکھتے ہیں۔ پوری کتاب میں کہیں بھی لفظ
محمد(ﷺ )کے ساتھ درود یا "Peace be upon Him" نہیں لکھا گیا۔
ملالہ یوسف زئی گستاخیٔ رسول پر سزائے موت کے قانون کے خلاف ہے۔
کتاب کے مطابق پاکستان رات کے اندھیرے میں بنا تھا۔ یہ الفاظ پڑھ کر پہلا تاثر یہی ملتا ہے گویا تاریکی میں کوئی گناہ یا جرم ہوا تھا۔
کتاب کے مطابق اس کےباپ ضیاءالدین یوسف زئی نے پاکستان کی یوم آزادی کے موقعے پر یعنی 14 اگست والے دن کالی ربن باندھی اور وہ گرفتار ہوا اور جرمانہ بھی۔ یہ سراسر چھوٹ ہے۔
ملالہ پاکستان کو سٹیٹ (ریاست) نہیں بلکہ طنزا رئیل سٹیٹ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے
کہ بہتر ہوتا کہ ہم انڈیا کا حصہ ہوتے ۔
ملالہ کہتی ہے کہ پہلے میں سواتی ہوں پھر پشتون اور پھر پاکستانی۔ اپنے مسلمان ہونے کا ذکر وہ آخر میں بھی نہیں کرتی جبکہ عام طور پر ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پہلے ہم مسلمان ہیں پھر پاکستانی پھر پشتون، پنجابی، سندھی یا بلوچی وغیرہ۔
ملالہ دعوی کرتی ہے کہ پاکستان انڈیا سے تینوں جنگیں ہارا ہے۔
ضیاالدین کا کہنا ہے کہ اگر مجھے کسی ملک کا شہری بننے کا ارمان ہے تو وہ افغانستان ہے۔
پاکستان پر تنقید کے ضمن میں کتاب میں لکھا ہے کہ "احمدی خود کو مسلم کہتے ہیں لیکن پاکستان نے ان کو غیر مسلم قرار دے
رکھا ہے۔ صفحہ نمبر 72
ملالہ اور اس کا باپ شکیل آفریدی کی حمایت کرتے ہیں جو حکومت پاکستان کے مطابق غدار ہے اور اس وقت سزا بھگت رہا ہے۔
ملالہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاک فوج پر بھی سخت تنقید کرتی ہے۔
ملالہ کا باپ ضیاالدین‛ پاک فوج کو " ڈرٹی پیپل " ( گندے لوگ ) قرار دیتا ہے۔
ملالہ کہتی ہے کہ وہ پاک فوج پر شرمندگی محسوس کرتی ہے۔
ملالہ کی تقریر اس کا باپ لکھتا تھا جبکہ بلاگ عبد الحئی کاکڑ نامی بی بی سی کا نمائندہ لکھتا تھا جس کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔
ایڈم بی ایلک نامی ایک سی آئی اے ایجنٹ کئی مہینوں تک بھیس بدل کر ملالہ کے گھر
رہا اور اس کے باپ کے ساتھ مل کر ملالہ کی برین واشنگ کی تاکہ اس کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیا جا سکے ( یہ خبر بھی درست ہے کہ اس نے بعد میں ملالہ سے نوبل انعام میں اپنا حصہ بھی مانگا تھا )
ملالہ کے مطابق اس کا باپ اپنے نجی سکول اور گھر کے لیے بجلی چوری کرتا تھا جس کے
باعث وہ ایک بار پکڑا گیا اور اس کو جرمانہ بھی ہوا۔ یہ بالکل درست ہے۔
ملالہ کی پسندیدہ ترین شخصیت باراک اوبامہ ہیں۔ ( ہوسکتا ہے اب جوبائیڈن ہوں)
ملالہ کے مطابق وہ بھیس بدل کر یعنی یونیفارم پہنے بغیر سکول جاتی تھی کیونکہ طالبان سے خطرہ تھا۔ جب کہ سیدو شریف
میں جہاں وہ رہتی تھی وہاں کوئی سکول بند نہیں ہوا تھا۔ طالبان یہ پابندی صرف مٹہ کے علاقے میں لگا سکے تھے جہاں کچھ سکول بند کیے گئے تھے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت کا ملالہ ذکر کرتی ہے اس وقت وہ اپنے باپ ہی کے سکول میں زیر تعلیم تھی جو انہی کے گھر کے نچلے پورشن میں تھا۔
تو کیا وہ اوپر والے پورشن سے نیچے آنے کے لیے بھیس بدلتی تھی ؟؟
ملالہ فنڈ کے لیے 68 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو تقریباً پاکستان کے کل قرضے کے برابر ہیں۔ یہ فنڈز فراہم کرنے والے وہ ہیں جو پوری دنیا میں سیکولرازم کو بذریعہ تعلیم پروموٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ملالہ انڈیا کی بھی کافی پسندیدہ ہے اور
اب ان سیکولر اور مغربی منافقین کا عملی تضاد ملاحظہ ہو :
افشاں‛ آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کو بچانے کے لیے دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گئیں جنہوں نے ان پر آتش گیر کیمیکل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ مصباح بچوں کو
بچانے کے لیے جلتی ہوئی وین کے اندر گھس گئی اور خود بھی زندہ جل گئیں۔ اعتزاز احسن‛ ایک خود کش حملہ آور سے لپٹ گیا اور دھماکے میں اڑ گیا تاکہ سکول کے بچوں کو بچا سکے۔ ملالہ ان تینوں کی پاؤں کی خاک بھی نہیں۔ لیکن سیکولر دنیا میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں۔۔۔ کیوں ؟؟
یہ ہیں وہ چند حقائق جو مشتے ازخروارے کے تحت آپ کی بصیرت اور بصارت کے لیے پیش کیے گئے۔ فیصلہ آپ خود کیجیے۔

تحریر بشکریہ : خالد قیوم تنولی / شاہد خان
منقول#

🤐

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with سقراط

سقراط Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Urta_teer

2 Jun
ایک دور دراز کے گاؤں میں
جولاہا رہتا تھا۔ قسمت سے اس کی شادی ہو گئی۔ بیوی نے چولہا چوکا سنبھالا تو اسے گھی شکر لگا کر روٹی پکا کر دی۔ جولاہے نے جی بھر کر کھائی اور اپنے ہاتھ اپنے بازو سے پونچھ لئے اور کمر سیدھی کرنے کو دو گھڑی لیٹ گیا۔ گرمیوں کا موسم تھا، مکھیوں نے
بازو پر یلغار کر دی۔ جولاہے نے جھلا کر بازو پر ایک ہاتھ جو مارا تو بہت سی مکھیاں وہیں ڈھیر ہو گئیں۔ گنیں تو تیس نکلیں۔ جولاہے نے سر اونچا کیا اور اپنی نئی نویلی دلہن پر رعب جماتے ہوئے کہا ”دیکھی میری بہادری؟ ایک ہی وار میں تیس کے تیس دشمن ڈھیر کر دیے۔ آئندہ سے مجھے تیس مار خان
کہہ کر بلایا کرنا“۔ بیوی نے جواب دیا کہ ”میں تو کہہ دوں مگر سارا گاؤں تمہاری سات نسلوں سے واقف ہے، وہ تمہیں کیوں خان مانے گا؟ “
فیصلہ ہوا کہ گاؤں چھوڑ کر کسی دور دراز علاقے میں جایا جائے جہاں کوئی جولاہے کو جانتا نہ ہو اور وہاں تیس مار خان بن کر رہا جائے۔ کالے کوسوں دور کے ایک
Read 27 tweets
1 Jun
کُچھ مہینے پہلے ایک دوست کے والد نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہنے لگے "بیٹا میری بیٹی کا فلاں جگہ سے رشتہ آیا یے اور وہ لوگ ماشاءاللہ اچھے کھاتے پیتے عزت دار گھرانے کے لوگ ہیں، اور وہ لڑکا آپ کی پہچان کا ہے، مجھے بتاؤ وہ لڑکا کیسا ہے کیا میری بیٹی کے لیۓ وہ لڑکا بہتر ثابت ہوگا"؟
میں نے لڑکے کا نام سنا تو اسی وقت نفی میں سر ہلادیا کہ نہیں انکل وہاں شادی مناسب نہیں، اس لڑکے میں بہت زیادہ خامیاں ہیں آپ کی بیٹی خوش نہیں رہ سکے گی۔
انکل نے مسکرا کر کہا، "ٹھیک ہے بیٹا بس یہی معلوم کرنا تھا" اسکے بعد مجھے کچن سے مچھلی کی خوشبو آنا بند ہوگئی اور ایک کپ
چاۓ پی کر میں واپس آگیا۔
کچھ دن بعد مجھے اسی دوست کی طرف سے بہن منگنی کا دعوت نامہ ملا، کارڈ میں نام پڑھ کر حیران ہوگیا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جس کے لیۓ میں نے انکل کو منع کیا تھا، بہرحال منگنی کی تقاریب میں ویسے ہی شرکت نہیں کرتا چاہے دو نیک ترین انسانوں کی ہی کیوں نا ہو۔
Read 14 tweets
31 May
خاتون اول محترمہ بشری عمران نے لاہور میں " شیخ ابوالحسن شازلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر" کا افتتاح کر دیا ہے ۔ یہ سینٹر ملک کی معروف جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم کیا جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر 100 ملین روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے
ساتھ اس کا علماء کرام ، صوفی ازم پر کام کرنیوالے سکالرز اور مذہبی و خانقاہی اداروں سے اشتراک ہوگا جبکہ طلباء کو سکالرشپس کی مد میں بھی خطیر رقوم فراہم کی جائیں گیں۔ خاتون اول کے وژن کے مطابق ریسرچ سینٹرز کا دائرہ کار پنجاب بھر میں بڑھایا جائے گا اور صوبے میں ریسرچ سینٹر
تک ریموٹ رسائی دی جائے گی تاکہ لوگ گھر بیٹھے اس سے مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں سکالر شپ کیلئے راہنمائی کی غرض سے ہائر ایجوکیشن کے تعاون سے آن لائن رہنمائی مرکز پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔
یہ ایک خبر جبکہ دوسری جانب آج کی ہی دو مزید خبریں بھی پڑھ لیں ، پشاور میں صوبہ
Read 14 tweets
30 May
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی
آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2020 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔
جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل
Read 10 tweets
21 May
#فوجی_دماغ
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پاکستان ائیر فورس بیس میں خطیب رہے، اس زمانے میں ہر سال بیس پر "سیرت کانفرنس" منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا
👇
جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں،
👇
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر
👇
Read 7 tweets
6 Apr
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔

اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(